تاریخ فلسطین اور مسجد اقصی

  1887 میں سویزرلینڈ میں پہلی صیہونی کانفرنس کرائی گیی اور اسکا مقصد فلسطین میں یہودی ریاست قایم کرنا تھا اس مقصد کے لئے چند امور طے کے گئے 

فلسطین پر یہودی کسانوں اور مزدوروں کے سہارے مناسب طریقے سے قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے 
مقامی اور عالمی تنظیموں کے ذریعے یہودیوں کو اکٹھا کیا جائے یہودیوں کے قومی جذبات کو استحکام بخشا جائے 

صیہونیت کے مقصد کے حصول کے لئے عثمانی سلطنت کو راضیکیا جائے
گویا تدریجی طور پر انہوں نے یہ پلان بنیا کے پہلے مرحلے میں مغربی ملکوں میں ظلم و ستم کے شکار یہودیوں کو مہاجر کی حیثیت سے فلسطین بھیجا جائے 
دوسرے مرحلے میں انکو وہاں کا شہری بنا دیا جائے 
اور آخری مرحلے میں انکو فلسطین پر قبضہ کرنے کے کام میں لایا جائے 
اگر فلسطین میں یہودیوں کے لئے جگہ کم پر جائے تو اطراف کی زمین پر قبضہ کر لیا جائے 
اسکے لئے برطانیہ کے سامراجی اقتدارمیں یہودیوں کو فوجی تربیت دی گئی اور 1920میں یہودیوں نے اپنا دفاعی فوجی یونٹ بنا لیا جسکا کام فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرنا تھا 
چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ساٹھ ہزار یہودی فلسطین میں آکر بس چکے تھے 
1919سے1931تک ایک لاکھ سترہ ہزار یہودی فلسطین میں آکر بس گئے1931 میں فلسطین کی دس لاکھ چھتیس ہزار افراد پر مشتمل آبادی میں سے ایک لاکھ پچھتر ہزار یہودی تھے 

1931سے1938 تک کے عرصے میں دو لاکھ ستر ہزار یہودیوں نے جنکا تعلق پولینڈ اور مرکزی یوروپ سے تھا فلسطین میں آباد ہو گے 
1939 میں فلسطین کی کل آبادی پندرہ لاکھ بتائی جارہی تھی ان میں چار لاکھ انتیس ہزار چھ سو پانچ یہودی تھے 
گویا کہ1939سے1947تک صیہونی حکومت کی تشکیل پا چکی تھی 

1947 میں صیہونی حکومت کے بننے کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو ترک وطن پر مجبور کیا گیا اور صیہونی حکومتوں نے قدم قدم پر چک پوسٹ قیم کر کے فلسطینیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا ،اور انکا یہ رویہ اس قدر توہین آمیز ہوتا ہے کہ امبولینس اسپتال دیر سے پھو نچنے کی وجہ سے اکثر حاملہ عورت گاڑی ہی میں وضع حمل کر دیتی ہیں 
نومبر دو ہزار دو سے دو ہزار تین تک  اوسطا تین لاکھ نوے ہزار فلسطینی باشندوں نے صیہونی مارشل لاء کے تحت زندگی گزاری ہے فلسطین کے علاقوں میں صیہونی حکومت نے تین سو سے زآید چیک پوسٹ قایم کر کے فلسطین کو ہراساں کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے ،

اور آج فلسطینی ماں اپنی عزت و آبرو کی بھیک مانگ رہی ہے ،اور قوم کے سودا گر اپنی ہی قوم کے بیٹیوں کے آبرو سے اپنے گھر کو سجانے میں مصروف ہیں 
آج فلسطین کی سرزمین پھر کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے 

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی