تبلیغی جماعت کی تحریک

تبلیغی جماعت
تبلیغی تحریک کی داغ بیل کیسے ڈالی گئی؟

یہاں تک پڑھنے سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تبلیغی جماعت کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟
اب سوال یہ ہے کہ کیسے اس تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی ؟اسے پڑھنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے حضرت مولانا الیاس ؒ کو مجبور کیا ہے کہ وہ مسلمانوں میں نئے انداز سے کام کریں؟

حضرت مولانا الیاس اور تبلیغی جماعت
حضرت مولانا الیاس ؒ کے زمانے میں مسلمانوں کی دینی وعملی حالت کیاتھی؟وہ ہم ان اقتباسات سے سمجھ سکتے ہیں:
ہندو اور مسلمان میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا:
 ( ملفوظ 176 ) ایک سلسلہ گفتگو میں (حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ نے ارشاد) فرمایا کہ جوتعویذ لینے آتے ہیں ان کا نام اس لئے پوچھتا ہوں کہ نام سے اکثر پتہ چل جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں یاہندو کہ انکو تعویذ دوں یا گنڈا ؟یہاں ابھی تک ناموں میں اکثر امتیاز ہے اور ( یو، پی کے ) یورپ کے دیہات میں ناموں میں بھی امتیاز نہیں ،میں ایک بار تبلیغ کے لئے گجیز ضلع کانپور میں گیا وہاں مسلمان رئیسوں سے ملاقات ہوئی ایک کا نام تھا ننوسنگھ دوسرے کا ادھار سنگھ، سو وہاں تو نام سے بھی امتیاز ہونا مشکل ہے یہ اطراف تو اپنے بزگوں کی برکت کی وجہ سے پھر بھی غنیمت ہیں ذار ادھر ادھر نکل کر دیکھو تب حقیقت معلوم ہو کہ کیا رنگ ہے؟ اور اب تو اس طرف بھی گڑ بڑ شروع ہوگئی ایسا زہریلا اثر پھیلا ہے حق تعالیٰ ہی محافظ ہیں اس وقت تو ایمان ہی کے لالے پڑ رہے ہیں تقویٰ اور طہارت تو خواب وخیال ہی کے درجہ میں رہ گیا ہے -
 (ملفوظات حکیم الامت جلد5)
حکایات خلیل میں ایک جگہ ان اصحاب اور جماعتوں کاتذکر ہ کیا گیا ہے جنہوں نے ہندوسانی مسلمانوں کی صلاح وفلاح کے لئے انتھک کوشش کی ہے اسی سلسلے میں لکھتے ہیں:
ایک گروہ وہ تھا جس کو قرآن کے عمیق مطالعہ، کتاب وسنت کے صحیح علم اور مسلمانوں کی زندگی کے وسیع تجربے نے اس نتیجہ تک پہنچایا تھا، کہ علم دین سے ناواقفیت، قرآن وحدیث سے بعد، غیرقوموں کے اختلاط ، اور دنیا دار علماء کی غفلت ومداہنت کے نتیجہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بے
خبر، توحید سے ناآشنا اور شرک جلی میں گرفتار ہے، اس میں مشرکانہ عقائد، توہمات ہندوانہ ورسم، اور کھلی ہوئی بدعات بکثرت پھیلی ہوئی ہیں ہندوستان کی مشرکانہ تہذیب اور علم الاصنام (دیومالا) نے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کیا ہے، ایسی صورت میں کہ جب بنیادی عقیدہ متزلزل اور نفس ایمان ہی خطرہ میں ہے، کوئی تکمیلی کوشش اور خارجی علاج مفید نہیں ہوسکتا، اس وقت سب سے بڑی ضرورت اور مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے عقائد کی اصلاح کی جائے اور ’’ألا للہ الدین الخالص ‘‘اور ’’فاعبداﷲ مخلصا لہ الدین‘‘ کی کھلی ہوئی دعوت دی جائے۔ توحید وشرک کافرق اور بدعت وسنت کا امتیاز واضح طریقہ پر بیان کیاجائے اور اس میں کوئی لگی لپٹی

نہ رکھی جائے کہ یہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی ہے،۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال ہے،اسے بھی پڑھ لیجئے:

اکثر یہاں کے لوگ محض نام کے مسلمان ہوتے ہیں کوئی بات ان میں مسلمان کی نہیں ہے عقائد ، عبادات ، معاملات سب خراب ہیں ۔ عقائد کی یہ حالت ہے کہ ایک قوم یہاں فقیر ہے جو بہت مشرک سمجھی جاتی ہے ، ان کی حالت یہ ہے کہ ایک شخص جو میرے یہاں ملازم ہے چوری وغیرہ کے تذکرہ پر کہنے لگے کہ صاحب اگر آپ کا غلہ وغیرہ میں چوری کرتا ہوں تو دوسرے جنم میں بیل ہو کر آپ کادانہ دانہ بھروں ۔ یہ حالت اچھے لوگوں کی ہے عوام تو ان سے بڑھ کر ہیں ، ایسے شخص کو مسلمان کہنا یا مسلمان کا برتاؤ کرنا کیسا ہے؟ ، شرک بدعت، تعزیہ پرستی وغیرہ ان کا کام ہے ۔ ﷲ و رسول کو جانتے ہی نہیں ۔ نماز نہ روزہ جھوٹ ، فریب

، زنا، چوری کو برا نہیں جانتے بچنا تو درکنار بعث بعد الموت کو جانتے ہی نہیں ۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد ٦

اسی طرح ایک صاحب جوسندھ کے رہنے والے ہیں انہوں نے  (1936)جب سندھ بمبئی سے الگ ہوکرایک صوبہ کی حیثیت سے نقشہ پر ابھرا تھا اس وقت کے ایک

اخبارمیں  16 جون1936 کو مسلمانوں کے احوال لکھے،جوانہی کی زبانی سنئے:

تبلیغی جماعت اور اسلام
مسلمانوں کی حالت نہایت ہی درد ناک ہے ۔ اسلام ہے، مگرعلم اور نیک اخلاق دونوں باتیں مسلمانوں میں نہیں ہیں ، علم کا حال یہ ہے کہ100 میں سے بمشکل 05 ایسے ہوں گے جو لکھنا پڑھنا جانتے ہوں گے، پھر ان میں سے 80 یا 90 فی صد ایسے ہوں گے جن کو کلمہ شریف(لا الہ الا الله محمد رسو ل الله) کے معنی بھی نہیں آتے ہوں گے۔ یوں کہیں کہ انہیں اسلام کی الف ب کی بھی خبر نہیں ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ جن پیروں اور عالموں پر انحصار دوسروں کا ہے وہ بھی کلمہ شریف کے معنی نہیں سکھاتے، خواندہ ایک ہزار مسلمانوں میں سے بمشکل پانچ ایسے ہوں گے جو قرآن شریف کو معنی کے ساتھ پڑھتے ہوں گے، صحابہ کرام نہ صرف قرآن شریف سیکھتے اور سمجھتے تھے، بلکہ زیادہ زور اس پر عمل کرنے پر دیتے تھے

۔ آج کے مسلمانوں نے قرآن شریف کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔

یہی سبب ہے جو ہمارے اعمال اور اخلاق بالکل خراب ہو گئے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم ذلیل اور غلام ہو گئے ہیں اور غیر قوموں اور زور آوروں کی تابع داری کرکے خدا اور خدا کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کر رہے ہیں، شروع کے مسلمان جھوٹ، فریب، عہد شکنی، وعدہ خلافی بالکل نہیں کرتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ جھوٹ وغیرہ ایمان کی ضد ہیں، اس لیے خود کافروں کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ کوئی بھی مسلمان کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا، نہ فریب کرے گا ، نہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی کرے گا، مگر آج کے مسلمان فقط نام کے مسلمان ہیں، وہ مسلمان فقط اس لیے کہلاتے ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے، ورنہ انہیں ذرا بھی علم نہیں ہے کہ اسلام کیا ہے؟
ماہنامہ الفاروق کراچی:جمادی الثانیہ 1431 ھ
اسی طرح حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ میواتیوں کے بارے میں (جہاں کی دینی وعلمی حالت کی ابتری کوبیان کرنے کے لئے الفاظ بھی مساعدت نہیں کرتے اور اسی وجہ سے یہ تبلیغی تحریک بھی وہیں سے شروع کی گئی ) ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
"مسلمانوں کی طویل اورمسلسل غفلت اوراس قوم کی بے توجہی اورجہالت کی وجہ سے میو قوم (یعنی میواتیوں) کی دینی حالت اس درجہ پرپہنچ گئی تھی جس کے بعدقومی ارتدادکے سواکوئی درجہ نہ تھا، غیرمسلم مؤرخین کوبھی (جن کی حس اس بارے میں ایک مسلمان کی حس سے یقیناً کم ہونی چاہئے) میواتیوں کی اسلام سے دوری اوربے گانگی کااحساس ہے۔"

آگے حضرتؒ ریاست الور کے گزیٹر شائع شدہ 1878 کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"میو(یعنی میواتی)اب تمام مسلمان ہیں؛لیکن برائے نام،ان کے گاؤں کے دیوتا وہی ہیں جوہندو زمین داروں کے ہیں،وہ ہندؤوں کے کئی تہوار مناتے ہیں اور اتنا ہی اہم اور ضروری سمجھا جاتاہے جتنا محرم، عید اور شب برات، اسی طرح وہ جنم اشٹمی،دسہرا اور دیوالی بھی مناتے ہیں۔ان کے یہاں'پیلی چٹھی'لکھنے کے لئے ،شادی کی تاریخ مقررکرنے کے لئے برہمن پنڈت بھی ہوتے ہیں۔ایک رام کے لفظ کوچھوڑ کر وہ ہندوانہ نام بھی رکھتے ہیں، اگرچہ خان جتناان کے ناموں کے اخیر میں ہوتا ہے اتنانہیں؛ لیکن پھربھی بکثرت سنگھ ان کے

ناموں کااخیر جزو ہوتاہے ،اماوس میں میو بھی ہندو اہیروں اورگوجروں کی طرح چھٹی مناتے اورکام کاج بند کردیتے ہیں،جب وہ نیا کنواں تعمیر کرتے ہیں توسب سے پہلے بھیرو جی یا ہنومان کے نام کا چبوترہ بناتے ہیں، البتہ جب ان کومال غنیمت حاصل کرناہوتاہے تووہ ہندو استھانوں اورمندروں کی زیادہ تعظیم وتقدیس نہیں کرتے اورجب اس موقع پران استھانوں اورمندروں کاتقدس ظاہر کیا جاتاہے تووہ بے تکلف کہہ دیتے ہیں کہ:
"تم دیو ہم میو"۔
میواپنے مذہب (اسلام)سے بہت ناواقف ہیں،خال خال کوئی کلمہ جانتاہے۔"
(حضرت مولاناالیاس اوران کی دینی دعوت)

 یہی وہ حالات تھے جنہیں دیکھ کر حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ کڑھتے تھے ،اورصرف کڑھتے ہی نہیں بل کہ  تڑپتے تھے، چنانچہ ایک تو خدائی نظام کے تحت اور دوسرے مسلمانوں کی زبوں حالی ودینی پس ماندگی نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ مسلمانوں کی صلاح وفلاح کے لئے کچھ کر گذریں ،چنانچہ اس سلسلے میں اولاً میوات میں مکاتب قائم کئے ،کیونکہ مولانا کے نزدیک میوات کی اصلاح کی تدبیر صرف یہ تھی کی ان میں دین کاعلم پھیلے،آپ خود بیان کرتے ہیں کہ جب پہلی مرتبہ چند مخلصوں نے بڑے جوش واخلاص کے ساتھ مجھ سے میوات چلنے کی درخواست کی تومیں نے کہاکہ میں صرف اس شرط پرچل سکتا ہوں کہ تم وعدہ کرو کہ اپنے یہاں مکتب قائم کروگے۔

مکتبوں کواہل میوات اس وقت اتنا دشوار اور ناقابل عمل سمجھتے تھے  کہ ان کے لئے اس شرط سے زیادہ مشکل کوئی شرط نہیں تھی، سب سے مشکل بات یہ تھی کہ بچوں کو کام سے ہٹاکر پڑھنے بٹھایا جائے، مکتبوں کی شرط سنتے ہی دعوت دینے والوں کا جوش ٹھنڈا پڑگیا اور ان پر اوس پڑگئی، دوتین مرتبہ ایسا ہی ہوا کہ انہوں نے ہامی نہیں بھری اور مولانا چلنے پر راضی نہیں ہوئے، ایک مرتبہ ایک سمجھ دار میواتی نے ہامی بھرلی کہ لے توجاتے ہیں، اس طرح میوات میں مکاتب کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ چلتاہی رہا، بعض

مرتبہ ایک دن میں کئی کئی مکتب قائم ہوئے یہاں تک کہ کچھ مدت بعد میوات میں کئی سو مکتب قائم ہوگئے، جن میں قرآن مجیدکی تعلیم ہوتی تھی۔

مکاتب اورجزوی اصلاح سے ناامیدی:

حضرت مولانا الیاس ؒکی زندگی کا اصلی جوہر جس نے ان کو خدمت دین کے اس بلند مقام تک پہنچایا بلندہمتی ہے، مکاتب کے ذریعے جو معمولی انفرادی اصلاح ہورہی تھی ، مولانا رفتہ رفتہ اس سے غیرمطمئن ہوتے گئے ، آپ نے محسوس کیا کہ ماحول کی بے دینی اور ملک کی عمومی جہالت اورظلمت کااثرمکاتب پربھی ہے،

❶    اول توطلبہ کی پوری اصلاح اور ان کی دینی تربیت نہیں ہوپاتی،

❷      دوسرے جوطلبہ ان مکاتب سے دین کی تعلیم اور تھوڑی بہت اسلامی تربیت حاصل کرکے نکلتے بھی ہیں وہ بھی جہالت اوربے دینی کے اس بحر ظلمات میں جو ان کے چاروں طرف سینکڑوں میل تک پھیلاہواہے ، ایسے غرق ہوجاتے ہیں کہ پھران کاپتہ نہیں چلتا۔
قوم میں دین کی کوئی طلب نہیں جس سے وہ اپنے بچوں کوشوق سے پڑھنے بھیجے اورمکتبوں میں بٹھائے،نہ دین کی قدرہے کہ ان کے پڑھ لینے کے بعد ان کے علم کی عزت اوران کی بات کی وقعت ہو، ایسی حالت میں یہ مکاتب ان کی زندگی پر کچھ اثر انداز نہیں ہوسکتے۔

❸        تیسرے یہ انتظامات ان کے لئے ہیں جو سرے سے غیرمکلف ونابالغ بچے ہیں ، اور جو عاقل بالغ احکام الٰہی کے براہ راست مخاطب ہیں ، اور جو دینی لاعلمی اوربے عملی کی وجہ سے مورد غضب بن رہے ہیں ،ان کے لئے اس میں کوئی انتظام نہیں۔

 اس سے پہلے حضرت مدرسہ میں بھی پڑھاچکے تھے،چنانچہ مظاہرعلوم سہارن پورمیں حضرت نے آٹھ سال تک پڑھایاہے ؛ لیکن مسلمانوں کی زبوں حالی اور دین سے دوری کے جواسباب حضرت سمجھ رہے تھے اس کے ازالے کے لئے مدارس مکاتب اورخوانق کو حضرت نے نافع توسمجھا؛لیکن اسے ناکافی سمجھا، حضرت مولانا نے آخری مرض میں ایک روز حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے فرمایا کہ :
« شاہ صاحب! میں نے شروع میں مدرسہ پڑھایا یعنی مدرسہ میں درس دیا تو طلبہ کا ہجوم ہوا اور اچھے اچھے صاحب استعداد طلبہ کثرت سے آنے لگے، میں نے سوچاکہ ان کے ساتھ میری محنت کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ جو لوگ عالم مولوی بننے ہی کے لئے مدرسہ میں آتے ہیں، مجھ سے پڑھنے کے بعد بھی وہ عالم مولوی ہی بن جائیں گے، پھر ان کے مشاغل وہی ہونگے جو آج کل عام طور سے اختیارکئے جاتے ہیں، کوئی طب پڑھ کر مطب کریگا، کوئی یونیورسٹی کا امتحان دیکر اسکول کالج میں نوکری کریگا، کوئی مدرسہ میں بیٹھ کر پڑھاتا ہی رہے گا، اس سے زیادہ اور کچھ نہ ہوگا یہ سوچ کر مدرسہ میں پڑھانے سے میرا دل اٹھ گیا۔
اس کے بعد ایک وقت آیا جب میرے حضرت نے مجھ کو اجازت دیدی تھی تو میں نے طالبین کو ذکر کی تلقین شروع کی اور ادھر میری توجہ زیادہ ہوئی، اللہ کا کرنا آنے والوں پر اتنی جلدی کیفیات اور احوال کا ورود شروع ہوا اور اتنی تیزی کے ساتھ حالات میں ترقی ہوئی کہ خود مجھے حیرت ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ اور اس کام میں لگے رہنے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ زیادہ سے زیادہ وہ یہی کہ کچھ صاحب احوال اور ذاکر وشاغل لوگ پیدا ہوجائیں، پھر لوگوں میں ان کی شہرت ہوجائے، تو کوئی مقدمہ جیتنے کی
دعا کے لئے آئے، کوئی اولاد کے لئےتعویذ کی درخواست کرے، کوئی تجارت اور کاروبار میں ترقی کی دعا کرائے اور زیادہ سے زیادہ ان کے ذریعہ بھی آگے کو چند طالبین میں ذکر وتلقین کا سلسلہ چلے، یہ سوچ کر ادھر سے بھی میری توجہ ہٹ گئی اور میں نے یہ طے کیا کہ اللہ نے ظاہر و باطن کی جو قوتیں بخشی ہیں، ان کا صحیح مصرف یہ ہے کہ ان کو اسی کام میں لگایا جائے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوتیں صرف فرمائیں اور وہ کام ہے اللہ کے بندوں کو اور خاص طور سے غافلوں، بے طلبوں کو اللہ کی طرف لانا، اور اللہ کی باتوں کو فروغ دینے کے لئے جان کو بے قیمت کرنے کا رواج دینا، بس ہماری تحریک یہی ہے اور یہی ہم سب سے کہتے ہیں، یہ کام اگر ہونے لگے تو اب سے ہزاروں گنا زیادہ مدرسے اور ہزاروں گنی ہی زیادہ خانقاہیں قائم ہوجائیں ، بلکہ ہر مسلمان مجسم مدرسہ اور خانقاہ ہوجائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی نعمت اس عمومی انداز سے بٹنے لگے جو اس کے شایانِ شان ہے۔» 

مولانا الیاس اور تبلیغی درد

چنانچہ حضرت نے امت کی اصلاح کی اپنی ہر ممکن اور ہرطرح کی کوشش کرڈالی اوراس میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ؛ مگران سب کے باوجود حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گرد و پیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری، عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دکھائی دینے لگے، آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا
دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ’’رشد و ہدایت‘‘ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ’’مرکزیت‘‘ ختم ہوتی جارہی ہے، جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں. 

دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہو اور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں۔
ان حالات میں حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان رہتے ، اور اس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے، آہیں بھرتے اور فرماتے تھے :


ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاؤں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔ 

صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میں وہ عرصہ سے جل رہے تھے۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی - 
جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:

 ’’طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے۔

3 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام09 مارچ

    اللہ تبارک وتعالی ھمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام09 مارچ

    ماشاء اللہ بہت خوب مضمون اللہ تعالیٰ دعوت کے کام کی ہر شر سے محفوظ رکھے آمین ثم

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام29 اپریل

    سبحان اللہ

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی