اسلام میں مسجد کا انہدام اور بابری مسجد




مسجد  کا  نہدام  اور  مسلمان
ایک  گمنام  صحافی  جس  نے  اپنی  جانوں  کو  جوکھم  میں  ڈال  کر  بابری  مسجد  اور  ایودھیا  فیض  آباد  کا  سفر  کیا

    ایودھیا کے باہر جتنے مسلمان ہیں وہ چیخ چیخ کر سوشل میڈیا پر بہادری دکھا رھے ھیں ۔ اور جو بیچارے فیض آباد ایودھیا میں ہیں. وہاں کے علاقائي ہیں. حالات بگڑنے پر تو ان کی جان مال اور عزتوں اور تجارتوں پر حملہ ھوگا ۱۹۹۲ میں بھی یہی ہوا تھا  بڑی بڑی باتیں سب کررہےتھے لیکن جب رتھ یاترا نے حملہ کیا مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹیں دوکان مکان جلائے قتل عام کیا ۔ تب کوئی قائد کوئی سپریم کورٹ مسلمانوں کو بچانے نہیں پہنچا ،جن آنکھوں نے اس وقت کی تباھی کو دیکھا وہ خود بتاتے ہیں ہمارے گھر میں لگی  ہویی آگ ایسی خطرناک تھی کہ دیکھتے ہی  دیکھتے پورے ملک میں  وہ  آگ  پھیل  گیی  ،بمبئی، مہاراشٹر ۔ بہار ۔ گجرات اترپردیش سب جگہ شہروں اور دیہاتوں میں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد ۔ آر ایس ایس کی ذیلی  تمام  دلوں  نے ہتھیار لے لے کر مسلم محلوں، تجارت گاہوں۔ بلڈنگ اور کالونیوں پر حملے کیے ۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں مسلم مریضوں کو چن چن کر مارا ، یہ سب اسی انڈیا میں سپریم کورٹ ۔ حکومت ۔ قانون اور پولیس و فوج کی موجودگی میں ہوچکا ہے. سب کچھ لٹایا عام مسلمانوں نے. لیکن کیا ملا اس کے عوض؟ اسی طرح اس ملک میں لاکھوں مسلمان مار دیے گئے لیکن ہماری آنکھیں نہیں کھلی آجتک. نقصان ہمارا ہی  ہوتارہاہے عام اور غریب مسلمان کا ھوتا ھے اور نتیجے کے نام پر ایک بار پھر قوم کے ہی کندھوں پر ان نقصانات اور تباہی کی بھرپائی لاد کر پورے ملک میں چندہ ھوتا ھے۔
 اسلام خودکشی سے  منع کرتاہے 
ہماری حالت کیا ہے ہم سب جانتےہیں ۔ ہم نے آج تک لڑنے کے نام پر بھی آخر کیا تیاری کی ہے ۔ وہ لوگ تو لاکھوں مسلح کارسیوکوں کے ساتھ صف آرا ہیں ہمارے پاس کتنے مسلح اور منظم لوگ ہیں ۔ کورٹ یا حکومت ہمارے کتنے ساتھ ہے دنیا خوب دیکھ رہی ہے  کون سا فیصلہ ھمارے حق میں آیا ہے آج تک.  حکومتوں نے پچھلے چار سالوں میں ھماری کتنی حفاظت کی ھے کیا ھم نھیں دیکھ رھے ھیں؟ آج آزادی کے ستر سالوں سے ھم دیکھ رھے ھیں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچے مرتے ھیں. مکان دوکان جلتے ھیں ھم احتجاج کرتے ھیں معاوضہ لیتے ھیں کیس کرتے ھیں اور پھر کیا سب بھول جاتےہیں. 
ھم نے آج تک کوئی زمینی محنت نھیں کی ھے. ھم نے نا اپنی سیاسی طاقت بنائ نا ھی سماجی اور اقتصادی،  تعلیم جیسے بنیادی شعبے میں بھی  ھم پچھڑے ھوئے ھیں. تو آخر کیسے ھم ان میدانوں سے حملہ آور لوگوں سے ٹکرا رہے ھیں 
ماضی کی تباہ کاریاں اور حال کی بے وقعتی کا صحیح ادراک ھم کو یہی ماننے پر مجبور کرتاہے کہ 
فی الحال ہندوستان میں ہر اس ہنگامی مسئلے پر سمجھوتہ کیا جائے جو مسلمانوں کو اشتعال دلائے ان کی توانائی کو ہنگاموں کی نذر کرے وہ مسئلہ سیاسی ھو یا ملی ۔ فی الحال ان پر سمجھوتہ کیا جائے اور کم سے کم ۱۵ سال ھم لوگ خاموشی سے تعلیم ۔ رفاہ عامہ ۔ ملکی سسٹم اور سیاست کے شعبوں میں اپنی جڑیں مضبوط کریں ۔ پھر ہم اس قابل ہوں گے کہ ھمارے احتجاج ملک کے سسٹم پر اثرانداز ہوں گے. ھماری شکایتیں. ھمارا غم و غصہ تجارتی میدانوں میں سنا جائےگا ۔ اس کے علاوہ اگر ھم ایسے ھی بابری مسجد ۔ رام مندر کے ایک نام پر اپنی نسلوں کو بھینٹ چڑھاتے رھے تو آگے ستر سال اور ایسے ھی کٹتے مرتے رھیں گے 
کل تک ھمارے جذبات بھی ایسے ھی تھے کہ لڑ کر یا، مر کر مسجد ھی لیں گے 
لیکن اب بار بار سوچنے کے بعد بات وھی سمجھ میں آتی ھے جو مولانا سلمان حسینی کہہ رھے ھیں ۔ فی الحال صلح کے لیے اگر ھم آگے بڑھتے ھیں تو صرف مسلمان ھی نہیں پورا ملک ایک بڑی تباھی سے بچ سکتاہے 
مضبوط معاہدوں اور بڑے سادھو سنتوں کے وعدوں کو لائیو ریکارڈ کیا جائے اور ہندوستان بھر کی دیگر مساجد اور مزاروں کے مکمل تحفظ کے دستخط ججوں کی لائیو ریکارڈنگ میں لیے جائیں اور اجودھیا کے مسلمانوں کو فوج کی نگرانی میں تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس صورت میں پورا یقین ھے کہ بظاہر ھماری ہار ہے لیکن در حقیقت آئندہ کئی سالوں تک پرسکون جدوجہد اور دعوتی پیغام کے لیے ہمیں بہترین مواقع ہاتھ آئیں گے ۔
دوسری صورت میں ۲۵ نومبر میں اجودھیا میں ہندو تنظیموں کی دھرم سبھا کے بعد ہر حال میں ننگا ناچ شروع ھوجائے گا. اور یہ آگ پورے ملک میں پھیل جائےگی. تمام ہندو تنظیمیں 
ہتھیاروں کے ساتھ جو یاترا نکال رہےہیں اور جس طرح کی رام مندر دھرم سبھائیں پورے ملک میں زہریلے نعروں کے ساتھ لگارہے ھیں وہ ھمیں داماد بنانے کے لیے تو نہیں ہوسکتا۔
جب ان ہتھیاروں کا استعمال ہوگا تب بڑے بڑوں کے فون سوچ آف ھوں گے ۔ 

شیوسینا کی کال پر ایودھیا میں  جو ھندتو عناصر جمع ہورہے ہیں اور جس قسم کے عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے اس سے بجا طور پر پورے ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند ہندووں میں تشویش کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ بالخصوص شوشل میڈیا کے ذریعہ جس قسم کی سراسمیگی پیدا کی جارہی ہے اس نے تشویش اور بے چینی میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت میں مغربی بنگال میں ہوں لیکن ملت کی لیڈرشپ سے براہ راست رابطہ میں ہون۔ درایں اثناء میں نے فیض آباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملی کونسل سے وابستہ ہمارے رفیق جناب خلیق احمد خان صاحب سے بات کرکے براہ راست صورت حال جاننے کی کوشش کی ۔ ان کے مطابق: 
" چونکہ یہ پروگرام شیوسینا کا ہے اس لئے بی جے پی اس سے cooperate نہیں کررہی ہے۔ البتہ اس نے الگ سے ایک پروگرام وشو ہندو پریشد کے ذریعہ بھی کرانے کا پروگرام بنایا ہے۔ متنازعہ جگہ کے چاروں طرف سی آر پی ایف کے بیریکیڈ لگے ہوئے ہیں۔ پورا علاقہ CRPF  کے کنٹرول میں ہے۔ پہلے شیوسینا کے عناصر فیض آباد میں بھی ہنگامہ آرائی کررہے تھے۔ لیکن مقامی لوگون کی شکایت پر پولس نے ان کا داخلہ شہر میں بند کردیا ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ بی جے پی اس بار خود متنازعہ مقام پر کوئی disturbance نہیں چاہتی اس لئے کہ اس سے اس کا کیس سپریم کورٹ میں مزید کمزور ہوجائے گا۔ پورے علاقہ کو CRPF اور پولس کے ذریعہ cordon  off کردیا گیا ہے۔ ""
دوسری جانب دہلی میں جمیعت علما ہند، جماعت اسلامی ہند اور مشاورت میں الگ الگ  اعلی سطحی میٹنگ چل رہی ہے۔ فوری طور پر صدر جمہوریہ ہند سے ملاقات کا منصوبہ پیش نظر ہے۔ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ 
    شوشل میڈیا کے ذریعہ پورے ملک بالخصوص مسلمانوں میں Panic پیدا کیا جارہا ہے۔ تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی افواہوں اور جھوٹی خبروں اور فیک نیوز اور گودی میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جارہی نام نہاد breaking news سے خوف زدہ نہ ہوں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اسی سے رجوع کریں۔ اس طرح کی کوششوں کا ایک مقصد ملک میں ہونے والے انتخابات کو متاثر کرنا بھی ہوتا ہے۔ آپ سے گزارش یہ بھی ہے کہ اپنی قیادت سے رابطہ میں رہیں۔

جہاں ہر طرف فوجی ہی فوجی نظر آرہے ہیں پورا ایودھیا چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے یہاں تک کے اطراف کے لوگوں کو بھی بغیر شناختی کارڈ داخلہ ممنوع ہے گویا ایودھیا میں سکیورٹی کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی ہے اس لئے کہ ابھی فی الحال ایودھیا میں ایک لاکھ کے قریب وی ایچ پی اور شیو سینا کے لوگ اور انکے کارکنان پہچے ہیں وی ایچ پی کی طرف سے دھرم سبھا اور شیو سینا کی طرف سے سماں سماروہ کا انقعاد کیا گیا ہے ذرایع کے مطابق متنازعہ زمین پر شاندار رام مندر کی تعمیر کے لئے یہ اجلاس منعقد ہوا ہے ،
وہیں پر سننے میں یہ بھی آیا ہے کے اگر کورٹ نے ہمیں رام مندر نہ بنانے دی تو ہماری سرکار قانون بنا کرلائے گی اور ہم شان سے رام مندر بنایگے ،
لیکن سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ ڈر ہے کہ کہیں سکیورٹی کی آڑ میں اور انکے ناک کے نیچے راتوں رات رام مندر کی تعمیر نہ ہو جائے ،
ایک طرف یہ بھی آواز آتی ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی آڑ میں بی جے پی اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہے اس لئے کہ اگر آپ انکے پانچ سالہ حکمرانی کے دور کو یاد کریں گے تو آپ کو سوائے موب لنچیگ، قتل، ہتیا،بھوکمری ،قحط سالی ، کے اور کچھ نظر نہیں آئیگا ،اور ویسے قیاس یہ بھی کہتا ہے کے وہاں کسی بھی صورت میں رام مندر تعمیر ہونے والی نہیں ہے ،کیوں کہ بابری مسجد کا مسلہ بہانوں کی پیداوار کا اہم ترین ذریعہ ہے ،اگر بابری مسجد کا مسلہ نہیں ہوتا تو یہ لوگ کس چیز پر اپنی سیاست کی روٹی سیکتے ،اسوقت سیاست کی روٹی سیکنے کی سب سے بری بھٹی ہے جس پر ہر سیاست دان ہمیشہ روٹی سیکنے کا کام کرتی آرہی ہے ،
سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ حکومت انکی ،فوج انکی ، اکثریت انکی لیکن رام مندر پھر بھی کیوں نہیں بن رہی ہے ؟ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سوال ہے جس طرح
یہ سب کچھ بھی نہیں قانون کا پالن ایک بہانہ ہے رام مندر وہاں بننا سیاست کی بھٹی کو ختم کرنا ہے جو کسی بھی طرح سیاست دان کے لئے قابل برداشت نہیں ہے ، سیاست دان کبھی بھی یہ نہیں چاہیںگے کہ انکی روزی روٹی ختم ہو جائے ،ہمارے ملک بری دو پارٹی بی جے پی اور کانگریس کو دھیان سے دیکھیں اور ان دونو کو قریب سے پڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ برہمن کے سکے کے دو الگ الگ رخ ہیں کہ سکّے کے ایک رخ سے برہمن نرمی کا کام لیتا ہے تو بی جے پی کو تنبیہ الغافلین کے طور پر استعمال کر رہا ہے ،
اور یہ برہمن نے انگریزوں سے سیکھا ہے کہ لڑاؤ اور حکومت کرو چاہے جس بہانے بھی ہوں ،
اس وقت اتنی سخت ترین سکیورٹی چل رہی ہے ایودھیا کے علاقے میں کہ آپ کو یقین نہیں آئیگا پورا ایودھیا کارسیوکوں سے بھرا پڑا ہے ،اور مندر کی تعمیر کے سامان  اور سارا انتظام اندر میں ہی مکمل ہو چکا ہے جس طرح انہوں نے ایودھیا کی گھیرا بندی کی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اندر مندر کی تعمیر کی بنیاد رکھنے کے لئے یہ دھرم سبھا اور سماں سماروہ کا انقعاد عمل میں آیا ہے ہو نہ ہو شاید دس دن کے بعد آپ کو یہ خبر سننے کو ملے کے رام مندر کی تعمیر ہو چکی ہے ،
چونکہ ہمارا ایک ہی سہارا ہے وہ ہے قانون اور عدالت ،
رام مندر کی تعمیر ہوگی اور ہم کورٹ کا چکر لگاتے رہ جائینگے با لکل اسی طرح جس طرح مسجد کے گرنے کے بعد ہم آج تک چکر لگا رہے ہیں لیکن انصاف ابھی تک دورہے،فی  الحال  رات کے گیارہ بجے  میں اجودھیا پہونچ چکا ہوں،شہر کو دولہن کی طرح سے سجایا گیا ہے،رام بھکتوں کے استقبال اور مبارکباد کے بینرز کے ساتھ ساتھ رام کی مندر ہم بنائیں گے،یہیں بنائیں گے  جیسے نعرے ہر اور چسپاں نظر آرہے ہیں.
چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور خصوصی فورس تعینات ہے،
    ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں کی بھیڑ ہے ان میں کچھ کارتک پوجا سے واپس جارہے ہیں کچھ نقل مکانی کررہے ہیں تو سیبکڑوں لوگ 25 نومبر کے پروگرم کے لئے آرہے ہیں.خاص بات یہ ھیکہ شہر چھوڑ کر جانے والوں میں کچھ ہندو بھی ہیں حو حالات معمول میں آنے تک اپنے رشتہ داروں کے یہاں جارہے ہیں،سخت چیکنگ  شاید شہر میں زیادہ اندر تک انٹری نا ہوسکے سیکوریٹی فورس اور خفیہ دستے الرٹ ہیں جواب دینا مشکل ہوگیا ہے.
    کوشش یہ ھیکہ مسلم اکثریتی علاقوں تک پہونچ سکوں ابھی تک جن مسلم بھائیوں سے ملاقات ہوئی ہے وہ ظاہری طور پر بہت مضبوط نظر آرہے ہیں لیکن اندر سے سہمے ہوئے.البتہ میڈیا نے حد سے زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہوا ہےایک بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ ہندوؤں کے چہرے اور باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے انہوں نے اجودھیا کو فتح کرلیا ہو اور رام مندر بناہی لیا ہو.کہیں کہیں جتھے کے جتھے نعرے بھی لگارہے ہیں
آج تک اور زی.نیوز کے رپورٹر ہر اور مائک لے کر گھوم رہے ہیں  میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہوں
شیو  سینکوں  سے  بھری  ٹرین  جب  آیی  
    رات ساڑھے گیارہ بجے کے آس پاس شیوسینکوں سے بھری اسپیشل ٹرین ممبئی سے اجودھیا ریلوے اسٹیشن پہونچی ہے،
ہزاروں شیو سینک ہاتھوں میں ڈنڈے اور بینر لئے ہوئے،
اسٹیشن سے ہی فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے باہر نکلے 
ان کے آنے کے بعد سے ماحول اور کشیدہ ہوگیا ہے،
سیکوریٹی اہلکار ہاتھوں میں ٹارچ اور میٹل ڈیڈیکٹر لئے ہوئے یہاں وہاں دوڑ رہے ہیں،پورا ماحول بھگوا ہوگیا ہے،ابھی پان کی دکان پر ایک پجاری ملے مجھے یہاں دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہنے لگے آپ یہاں کیسے؟ 
    شور مچاتے کہ میں نے کہا بابا میں یہیں کا ہوں.کہنے لگے میاں میں نے آپ کو یہاں کبھی دیکھا نہیں، یہاں سے نکل لو یہ شیو سینا والے کہیں تم کو کوئی نقصان نا پہونچا دیں.
سرکاری  انتظامات
متنازع مقام تک پہونچنے کے کئی راستے ہیں جنہیں حکومت نے سیل کردیا ہے،صرف ایک راستہ دشرتھ محل کے سامنے سے ہنومان گڑھی ہوتے ہوئے رام للا کے درشن کا ہے جس پر چاروں اور ڈرون کیمرے لگائے گئے ہیں،
CRPF،RF,UP POLICE.P.A.C  کے اہلکار ہر ایک آدمی کی چیکنگ کررہے ہیں  ،ایک شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہے جس کے پاس وہ ہوگا اسی کو اس راستہ سے جانے دیا جائے گا بار بار اس کا اعلان کیا جارہا ہے،یہاں پر مجھے ایک صحافی مل گئے جو یہاں دو روز سے حالات کور کررہے ہیں،انہوں نے بتایا کہ اب تک 20 ہزار سے زائد سیکوریٹی اہلکار یہاں آچکے ہیں جن میں سی.آر.پی.ایف اور پی.اے.سی کی 13 کمپنیاں ہیں 
نیز اے.ڈی.جے ٹیکنیکل آسوتوش پانڈے اور جھانسی رینج کے ڈی.آئی.جی سبھاش سنگھ بگھیل کو خاص طور تعینات کیا گیا ہے اور اجودھیا کو دو زون میں تقسیم کیا گیا ہے 
ایک ریڈ زون جس میں وشو ہندو پریشد کے پروگرام ہونے ہیں 
دوسرا بلو زون  ان دونوں افسروں کے کاندھوں پر متنازع مقام کی حفاظت کی ذمہ داری ہے،رام للا کے درشن کے لئے  100 میٹر پہلے بیریکیڈنگ کیا گیا ہے،وہیں سے درشن کیا جاسکتا ہے،پورے شہر و اطراف میں دفعہ 144 نافذ ہے.ہمیں دشرتھ محل کی اور جانے والے راستہ سے کافی پہلے روک دیا گیا ہے،
سخت چیکنگ کے بعد موبائل ضبط کرنے کی کوشش کی گئی،
جو صحافتی کارڈ اور دو چار حوالے دینے سے اس شرط پر واپس کیا گیا ہے کہ ہم فوراً یہاں سے واپس جائینگے،

ایودھیا  میں  مسلم  آبادی
اجودھیا میں مسلم آبادی تین جگہوں پر رہتی ہے،اس میں سب سے زیادہ حساس مقام  بابری مسجد سے بالکل متصل رہنے والے مسلمانوں کا ہے،اجودھیا میں تقریباً آٹھ ہزار مسلمان رہتے ہیں ،میری ملاقات اسلم پان والے سے ہوئی ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ چار ہزار سے زائد مسلم فیض آباد،بارہ بنکی اور لکھنؤ وغیرہ اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے یہاں جاچکے ہیں،بہت سارے امن پسند ہندو بھی اجودھیا سے جاچکے ہیں جو ہندو مسلمان ہیں تو وہ غلہ و سامان اکٹھا کرکے اپنے گھروں میں دبک گئے ہیں اسلم نے بتایا کہ ابھی تک تو سب ٹھیک چل رہا ہے پر کل ادھو ٹھاکرے کے آنے بعد کیا ہوگا خدا ہی جانتا ہے.اسلم نے مجھے بابری مسجد فسادات میں اپنا گھر گنوانے والے سیف القادری کے بیٹے فیضل سے ملنے کا مشورہ دیا،لیکن میرے آس پاس خفیہ دستے کے لوگ مستقل منڈلا رہے تھے اس لئے میں نے کسی کو پریشانی میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا.
    فی  الحال  ابھی  رات کے تین بج چکے ہیں  ایک چائے کی دکان پر پہونچا اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ بولنے سے کتراتا رہادو چائے آرڈر کئے اور اس سے دکانداری کا پوچھا تو کہنے گا جناب آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا بہت غلط کیا آپ نے ہم تو اس طرح کے حالات جھیلنے کے عادی ہیں
میں نے کہا کہ میں تو یونہی آپ لوگوں کے احوال جاننے کی غرض سے آگیا تھا ابھی جارہا ہوں ،میرے اتنا کہتے ہی اس نے اندر کا غبار نکالنا شروع کیا ،بے ترتیب انداز میں اس نے بہت کچھ بتایا،اخیر میں اس نے اپنا نام حبیب بتایا اس کے دو بھائی شفیق اور کلیم اپنے رشتہ داروں کے یہاں جاچکے ہیں ،
حبیب بھی کل شام تک شاید چلاجائے یا رہےگا ابھی شش و پنج میں ہے.چار بج چکے ہیں شور ہے کہ ممبئی سے دوسری ٹرین بھی پہونچنے والی ہے.
شیو  سینا  کی  بھیڑ
    شیوسینا چونکہ بھیڑ جمع کرکے حکومت اور عدلیہ پر دباؤ بنانا چاہتی ہے تاکہ رام مندر کی تعمیر کے لئے دسمبر پارلیمانی سیشن میں حکومت خصوصی  آرڈینینس لائے یا سپریم کورٹ جلد فیصلہ کرے،تو دوسری طرف بی.جے.پی کی کوشـش یہ ھیکہ رام مندر کا مدعا پورے زور و شور سے اچھلے اور الیکشن تک گرم رہے لیکن سہرا شیوسینا کے سربلکہ بی.جے.پی ہی اس کا دولہا بنے اسی لئے وہ وشو ہندو پریشد کو سپورٹ کررہی ہے اس کے پروگرام کے لئے اجازت بھی دی گئے ہے.میڈیا کے ذریعہ زبردست  پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے،پچاس ہزار کی بھیڑ کو پانچ لاکھ بتایا جارہا ہے،
    میڈیا اور فرقہ پرست لیڈر اجودھیا آنے والی بھیڑ کو اکسا رہے ہیں،فساد مچانے پر راغب کررہے ہیں،سیکوریٹی دستے ابھی تک پوری طرح سے الرٹ نظر آرہے ہیں پر اگلے چار دنوں میں حالات کیا ہونگے ابھی اس پر نظریہ قائم کرنا مشکل ہے.
ہماری  قیادت  کا  رول
    مسلم پرسنل لاء بورڈ،جماعت اسلامی ھند سمیت سبھی ملی جماعتوں کو چاہئے کہ ایک مشترکہ وفد لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کریں،وزیر داخلہ ھند اور صدر جمہوریہ ھند سے ملاقات کریں اور ان پر اس کا دباؤ بنائیں کہ ہنگامی حالات میں فیض آباد ڈویژن میں ہائی الرٹ جاری کرکے ہر ایک باشندے کی حفاظت کی  نیز ملت کو افواہوں سے بچتے ہوئے خصوصی دعا کا اہتمام کرنا ہوگا اور اپنے اپنے علاقوں میں حالات پر پینی نظر رکھنی ہوگی لاء اینڈ آرڈر کی بحالی کے لئے ایک ذمہ دار شہری اور ایک کامل مؤمن کا فریضہ انجام دینا ہوگا..


ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی