نکاح اسلام میں

*چراغِ خانہ کا انتخاب*
*از قلم: محمد زبیر ندوی*
مرکز البحث والافتاء ممبئی
رابطہ: 9029189288
انسان بذاتِ خود کچھ نہیں زیادہ توانا نہیں ہے، وہ اس قدر کمزور اور بے ہمت ہے کہ قدم قدم پر اسے بیساکھیوں اور سہاروں کی ضرورت ہے، زندگی کا شاید کوئی پل سہاروں سے خالی ہو، انسان اپنے وجود اور پیدائش سے لیکر قبرستان کی کھائی میں اترنے تک دنیاوی سہاروں سے دست بردار نہیں ہوسکتا ہے۔
اس جیتی جاگتی دنیا میں اس کے قلب و نظر کا سکون اسی انسانی بستی میں بسنے والی قوم "حیوان ناطق" سے وابستہ ہے، وہ اگر قریب رہنا چاہتا ہے تو اسی انسانی مخلوق سے، انسانوں کی بستی سے کٹ کر جینا زہر ہلاہل نوش کرنے سے کم نہیں، ماں باپ سے لیکر دوست احباب، استاد و شاگرد اور ہم پیشہ افراد سے تعلقات ہی اس دنیا میں اس کی دل لگی کے سامان ہیں، لیکن اس ہری بھری کائنات میں اگر انسان کو سب سے زیادہ جس سے سکون اور لگاؤ ہوتا ہے تو وہ اس کی شریکِ حیات ہوتی ہے، قرآن مجید میں میاں بیوی کی اسی انسیت اور گہرے تعلقات کو "هن لباس لكم و أنتم لباس لهن" (سوره بقره ١٨٧) کی جامع ترین اور بامعنی تعبیر میں بیان کیا گیا ہے، جس طرح لباس انسان کے وجود کو ڈھانپتا اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے زن و شو کی زندگی کی بھی آپس میں ایک دوسرے کے برتاؤ میں اسی کا شاندار آئینہ دار ہوتی ہے۔
میاں بیوی کے اسے تعلق و لگاؤ کو قرآن مجید میں ایک جگہ "مودة ورحمة" (سورہ روم: ٢١) سے تعبیر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے ایام شباب میں جس چیز کا سب سے زیادہ بھوکا ہوتا ہے وہ محبت ہے اور پیرانہ سالی میں جس کا سب سے زیادہ خواستگار ہوتا ہے وہ کسی کا سہارہ رحمت ہوتا ہے، خدا نے بیوی کی شکل میں یہ دونوں نعمتیں عطا فرما دی ہیں۔
عورت بذاتِ خود صرف عورت نہیں ہے بلکہ وہ چراغ خانہ ہے، جس کی لو سے سیکڑوں چراغ روشن ہوتے ہیں، سیکڑوں شمعیں روشن اور نا جانے کتنی قندیلیں شعلہ بار ہوتی ہیں۔ اس چراغ خانہ کی روشنی جس قدر تابناک اور روشن ہوگی اس کی پرتو سے جلنے والی شمعیں اسی قدر روشن اور تابناک ہونگی، اور جس قدر اس کی ضو پھیکی یا مدھم ہوگی اس سے فیض یاب قندیلیں اسی قدر سست اور بے جان ہونگیں اور عین ممکن ہے کہ وہ شمعیں طوفانوں سے آنکھیں نہ ملا سکیں بلکہ طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے بیک جھونکا وہ قندیلیں بجھ کر زمیں بوسو ہوجائیں؛ اس لیے چراغ خانہ کا انتخاب کسی بھی انسان کی زندگی میں نہایت اہم اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
انسانی سماج میں انسان جن چیزوں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر جن کو اپنی ترجیحات میں شمار کرتا ہے وہ چار چیزیں ہیں: آدمی عموماً مال و دولت سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اسی کو اہمیت دیتا، پھر زیادہ تر حسن و جمال انسان کی پسند اور وجہ ترجیح ہوتی ہے اور کبھی خاندانی شرافت و وجاہت آدمی کے دل کو متاثر کرتی ہے اور اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دینداری اور علم و تقوی کا خوگر ہو اور اسے ترجیح دے۔
انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو معلوم ہوگا کہ حسن و جمال اور مال و منال فانی چیزیں ہیں، ان کے آنے اور جانے کا قطعاً اعتبار نہیں، کب کونسی بیماری یا حادثہ پیش آ جائے اور یہ نعمتیں اس کی نذر ہو جائیں، خاندانی وجاہت کا سکہ بھی بہت دور تک نہیں چلتا؛ لیکن علم و تقوی اور دینداری وہ سکہ رائج الوقت ہے جسے زوال نہیں، یہ سکہ ہر وقت اور ہرجگہ چلتا ہے اس لئے شریعت نے اسی کو معیار قرار دے کر کامیابی کی بات کہی ہے "فاظفر بذات الدین"۔ (سنن الترمذی حدیث نمبر ١٠٨٦)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں جس معاشرے کی تشکیل دی تھی اور اس کے بعد صحابہ کرام و تابعین کے ادوار میں جو معاشرہ قائم رہا اس میں اصل چیز تقوی و طہارت اور علم و عمل تھی، اس سلسلے میں متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی شادی اس سلسلے میں مشہور واقعہ ہے، ہوا یہ کہ ایک نہایت حسین سیرت اور وجیہ صورت صحابیہ حضرت ام سلیم کے شوہر نامدار کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال سے اگر کسی شخص کو سب سے زیادہ خوشی ہوئی تو وہ یہی جناب والا ابو طلحہ تھے؛ کیونکہ حضرت ام سلیم کے حسن سیرت اور وجیہ صورت سے وہ بے حد متاثر تھے اور خود بھی باثروت اور مدینہ کے چیدہ چنیدہ لوگوں میں سے تھے، اس لئے انہیں امید قوی تھی کہ اگر وہ ام سلیم سے پیغام نکاح دیتے ہیں تو وہ ضرور قبول فرمائیں گی، اسی امید پر وہ حضرت ام سلیم کے گھر جا پہنچے اور خود انہیں سے پیام نکاح کی بات کہہ ڈالی، ام سلیم نے بغور ان کی بات سنی اور بیک لفظ کہا "ان مثلك يا ابا طلحة لا يرد، و لكني لن اتزوج فأنت رجل كافر" ابو طلحہ آپ اس قابل ہیں کہ آپ کا پیغام قبول کیا جائے؛ لیکن مجھے رشتہ منظور نہیں؛ کیونکہ آپ ابھی حالت کفر میں ہیں، بالآخر ابو طلحہ نے حضرت ام سلیم کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا اور ان کے ایمان کو حضرت ام سلیم نے اپنے لیے مہر قرار دے کر شادی کر لی، ان کی یہ دینداری اس قدر لوگوں کو پسند آئی کہ مدینے کے لوگ کہا کرتے تھے: ہمیں نہیں معلوم کہ ام سلیم سے بہتر کسی کا مہر ہوسکتا ہے۔ یہ تھی صحابہ کرام کی دینی ترجیح جو ان کے رشتے کے انتخاب کی بنیاد تھی۔ (صور من حیاۃ الصحابہ ص ٣٣٢)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ حالات سے واقفیت کے لیے گلیوں میں شب کو چکر لگایا کرتے تھے، ایک رات انہوں نے عجیب بات سنی کہ ماں بیٹی سے دودھ میں پانی ملانے کی بات کر رہی تھی اور بیٹی یہ کہہ کر منع کر رہی تھی کہ اللہ ان کی اس خیانت کو دیکھ رہا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بچی کی دینداری اس قدر پسند آئی کہ امیر المومنین نے اپنے بیٹے عاصم کی شادی اسی نیک خاتون سے کر دی اور سلسلے میں ان کی شکل و صورت اور فقر و مسکنت کی قطعاً پرواہ نہ کی، اور پھر یہ شجر اس قدر ثمر آور ہوا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے منصف باشاہ اسی کی یادگار بن کر دنیا کو عمر ثانی بن کر دکھا گئے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز ص ١٨)
سعید بن مسیب نہایت مشہور محدث و فقیہ اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کی دختر نیک اختر حسن صورت اور علم و تقوی کے نہایت اعلیٰ مقام پر فائز تھیں؛ اسی لئے شاہزادوں کے رشتے ان کے لئے متعدد بار آ چکے تھے؛ مگر سعید بن مسیب دو ٹوک انکار کر دیتے، ایک دن ان کے ایک شاگرد جو نہایت مفلوک الحال اور بے سرو سامان تھے کئی روز بعد شریکِ درس ہوئے، حال دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی زوجہ محترمہ کا انتقال چند دنوں قبل ہوگیا ہے، اسی لئے درس میں حضوری کی سعادت سے محروم رہنا پڑا ہے، حضرت سعید بن مسیب نے ان سے پوچھا: دوسری شادی کا ارادہ ہے؟ انہوں نے اپنی بے سروسامانی اور فقر و مسکینی کے حوالے سے کہا کہ مجھ سے کون شادی کرے گا؟ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: اگر تم تیار ہو تو میں کرا دوں، بالآخر اسی مجلس میں اس دختر نیک اختر جس کے لئے شہزادوں کے رشتے ٹھکرا دیئے گئے تھے اس مفلوک الحال مگر دولت دین و ایمان سے مالا مال شخص سے شادی کرا دی، جب شام کا وقت ہوا تو حضرت نے خود اپنی صاحبزادی کا ہاتھ تھاما اور شاگرد کے گھر جا پہنچے، دروازے پر دستک دی، اندر سے آواز آئی کون؟ جواب ملا سعید بن مسیب، شاگرد بیچارے پریشان، اللہ کیا خطا ہوئی کہ استاد دروازے تک آگیے؟ دروازہ کھلا، تو حضرت سعید بن مسیب نے کہا: میں نے سوچا کہ جب تمھارا میری اس لڑکی سے نکاح ہوگیا ہے تو تم تنہا کیوں رات گزارو، اسی لئے تمہاری بیوی کو ساتھ لایا ہوں اور پھر واپس چلے گئے، یہ تھا دین و اخلاق کی بنیاد پر داماد اور چراغ خانہ کا انتخاب۔ (شمع فروزاں ٢٠٦/١)
علامہ علاء الدین سمرقندی ایک مشہور فقیہ گزرے ہیں، فقہ حنفی میں ان کی کتاب "تحفة الفقهاء" ایک شاندار یاد گار ہے، ان کی ایک بیٹی تھیں؛ جو علم و فضل میں بے نظیر تھیں، شادی کی عمر ہوئی تو انہوں نے کہا: کہ جو شخص ایسی کتاب لکھ دے جسے میں پسند کر لوں تو وہی میرا مہر ہے اور اسی سے میں شادی کروں گی، چنانچہ علامہ علاء الدین سمرقندی کے مایہ ناز و قابل فخر شاگرد علامہ علاء الدین کاسانی نے یہ خدمت انجام دی اور اپنے استاد کی کتاب کی شرح بنام "بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" اتنی عمدہ طریقے سے تیار کی کہ کوئی فقیہ اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، اسی لیے مورخین نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے: "شرح كتابه و مهر زوجته" یعنی کتاب اس کے متن کی شرح ہے ان کی بیوی کا مہر بھی ہے۔ (مقدمہ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٤)
یہ تھے وہ نمونے جو دینداری اور علم و تقوی کے بنیاد پر انجام پایے اور دنیا نے ان کے بہترین سے بہترین نتائج دیکھے۔
اس سلسلے میں عموما ہمارے معاشرے میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ دینداری کا جامہ نہایت تنگ کر دیا گیا ہے، اور نماز روزہ تلاوت تک ہی اسے مسدود کر دیا گیا ہے، یقیناً اس میں شک نہیں کہ یہ دینداری کی بنیاد ہیں؛ مگر دینداری اسی: میں محبوس نہیں ہے، بلکہ دینداری کا تعلق اخلاق و کردار، محبت و ملنسار ی، صبر و تحمل اور نرم مزاجی و خوش خوئی، ایثار و بے غرضی، فرض شناسی وفاداری، معقول رویہ اور جاں نوازی و جاں نثاری وغیرہ اوصاف وہ دولت گراں مایہ ہیں جو دینداری کی اصلی روح اور ایک مثالی چراغ خانہ کے اوصاف حمیدہ کا جزوِ لاینفک ہیں، رشتے کے انتخاب میں ان اوصاف پر نظر رہنا ضروری ہے تاکہ اس چراغ خانہ سے فیضیاب ہونے والی نسلیں ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار ہوں، یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ شریک حیات محض گزر اوقات یا دل بہلانے کے سامان کے طور پر منتخب نہ کی جائے بلکہ ہمیشہ یاد رہے کہ اسے ایک مثالی ماں بننا ہے؛ جسے اپنے بچوں کی صحیح اور صحت بخش تربیت کرنا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ صورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے،اور ممکن ہے کسی قدر یہ سوچ ٹھیک بھی ہو لیکن حسن و جمال سے لگاؤ اور اس کی جانب میلان انسان کی فطرت میں داخل ہے، ممکن نہیں کہ ایک باذوق انسان گلاب کی خوشبو دار پنکھڑیوں کو دیکھے اور مشام جاں کو معطر کرنا نہ چاہے، وہ لہلہاتے باغ اور سرسبز و شاداب کھیتوں سے گزرے اور اس کی طبیعت پر کوئی اثر نہ ہو، اس لئے جائز حد میں رہتے ہوئے اپنی مناسبت کے لحاظ سے حسن و جمال کا بھی خیال کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہی چیز کدورت کا سبب ہوجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سلسلے میں ترغیب دی ہے کہ جس خاتون سے نکاح کا ارادہ ہو اسے دیکھ لیا جائے اور ظاہری شکل و شباہت پر غور کر لیا جائے اور پسند آنے پر اس کی جانب پیش قدمی کی جایے (سنن الترمذی حدیث نمبر ١٠٨٧)
اور ظاہر ہے کہ یہ بندھن پوری زندگی کے لیے باندھا جاتاہے؛ اس لئے اپنے ذوق و مزاج، فکر و نظر، دینی و علمی ہم آہنگی اور سیرت وکردار کے اعتبار سے مناسب چراغ خانہ کا انتخاب کیا جائے تو خیر متاع الدنيا المرأة الصالحة کے ہاتھ آجانے کے بعد دنیا ہی جنت بن جائے گی اور ایک شاندار مومنانہ زندگی گزارنے کا لطف حاصل ہوگا اور نئی نسل بھی ہر اعتبار سے عمدہ سے عمدہ تر ہوگی۔ واللہ علی کل شئ قدير.

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام24 اپریل

    ماشاء اللہ بہت خوب مضمون پڑھ کر خوشی ہوئی

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی