بھاگل پور(پریس ریلیز) 30 جون
ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے مذہبی ادارے مساجد اور دینی مدارس حکوت کے نشانے پرہیں اورموقع ملتے ہی اسے حکومت کی جانب سے منہدم یابندکردیاجارہاہےلیکن مسلمان اب بھی خواب غفلت میں ہیں اور وہ اپنے اداروں کی کمیوں،خامیوں کودورکرنے اورمتحدہوکراپنےاداروں کو بچانےکےلئے تیارنہیں ہیں،ایسامحسوس ہوتاہےکہ ہم خواب غفلت سےبیداربھی نہیں ہورہےہیں،جویقینا افسوسناک ہے،ریشمی شہربھاگلپور کےمغربی حصےمیں واقع ایک قدیم مذہبی ادارہ جامعہ حسینیہ ہرنتھ، بھاگل پورجوآج سے 70 سال پہلے قائم ہواتھا اس ادارے نے افراد سازی میں نمایاں کردار اداکیا،جسکی وجہ سے اس کی شہرت دور دور تک پائی جاتی ہے،دوتین سال قبل کوروناکےایام میں یہاں کے سابق مہتمم اور پرنسپل مفتی ہلال قاسمی کا انتقال ہوگیا تھا،جسکے بعد سے یہاں کانظام درہم برہم ہے،جو ابھی تک درست نہیں ہوسکا ہےاور اب ایسا لگتاہے کہ یہ معاملہ کافی آگے تک جائےگا، بتایا جاتاہے کہ کچھ لوگوں نےاپنے مفادکےلئے علاقے کے کئی گاؤں کے لوگوں کوگمراہ اورانکی ذہن سازی کرکے گذشتہ 2 جون اتوارکوغیر قانونی اور غیر دستوری بھیڑ مدرسے میں جمع کی اور اس بھیڑ کے ذریعے منمانی طریقے سے کچھ اہم فیصلےلئے گئے،جسکی گاؤں یعنی ہرنتھ کےلوگوں کو کوئی خبر نہیں کی گئی،مدرسے سے متعلق اس فیصلے کےلئے ان لوگوں نے خفیہ طورپر چمپانگر کے کچھ علماء کومدعو کیاتھا،ان حضرات نےمدرسےمیں آکراس فریق کے حق میں انتہائی جانب دارانہ طورپر غیراخلاقی،غیردستوری اورغیرشرعی فیصلہ کردیا،بتایا یہ بھی جاتاہے کہ جن لوگوں کو فیصلہ کرنےلئے بلایاگیاتھا ان لوگوں کا اس مدرسے سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے،اسکے باوجود غنڈہ گردی اور داداگری کرتےہوئے کچھ اہم فیصلےکردئیےگئے،ایک جاہل اور گنورار شخص کو مہتمم جیسا اہم عہدہ اور ایک کو نائب مہتمم بنادیاگیا،یہ بھی بتایا جارہاہے کہ جنکو مہتمم بنایاگیاہے انکاتعلق کرنپور نامی گاؤں سے ہے اور نائب مہتمم کا تعلق خیرا نامی گاؤں سےہے،بتایایہ بھی جاتاہے کہ اس فیصلے کےلئے ہرنتھ والوں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا اورنہ یہ ضروری سمجھاگیا،جسکی وجہ سے یہ معاملہ متنازع ہوگیا،جبکہ یہ مدرسہ ہرنتھ والوں کا ہے،زمین بھی ہرنتھ کے لوگوں نے دی ہے،لیکن ہرنتھ کے لوگوں کی حصے داری نہ کےبرابرہے،جسکی وجہ سےگاؤں کےلوگوں میں کافی برہمی پائی جارہی ہے،ایک ایساآدمی جن کے پاس نہ علم ہے،نہ صلاحیت اورنہ صالحیت اور نہ ہی اسکاکوئی بیک گراؤنڈ،پھربھی انھیں مہتمم جیسے اہم عہدے پرصرف اسلئے مسلط کردیاگیا کہ وہ مولاناعبدالرحمن صاحب مرحوم سابق صدرجمعیت علماء ضلع بھاگلپور کے پوتے ہیں،اس مدرسے کے قیام کےبعد مولانا عبدالرحمن صاحب کو مدرسہ اصلاح المسلمین سے بلاکر یہاں کاذمہ داربنایاگیاتھا،مولاناعبدالرحمن صاحب 42 سال سےزیادہ یہاں کےپرنسپل اورمہتمم رہے پھرانکے انتقال کےبعد کچھ لوگوں نے زبردستی انکے بیٹےمفتی ہلال مرحوم کوبھی اسی طرح مسلط کردیاتھا،لیکن وہ عالم،فاضل اورمفتی تھے اسی لئے انھیں برداشت کرلیاگیا،مفتی ہلال 26سال مدرسےکےمہتمم رہے،توکیا اسکایہ مطلب ہےکہ اب ہرکسی کو برداشت کرلیاجائے؟کوئی بھی آدمی یہاں آکراپناکوئی فیصلہ سنادے اوراسے قبول کرلیاجائے؟ یہ مدرسہ ہے یاکوئی دھرم شالہ؟ایک طبقہ ہمیشہ یہ چاہتاہےکہ ہرنتھ کوالگ تھلگ کرکے اس مدرسے پر اپنا قبضہ اوراپنا تسلط برقرار رکھے،ہرنتھ سے صرف تعاون لیاجائے لیکن مدرسے میں انکی حصے داری نہ ہو،گذشتہ 2 جون کومدرسے میں جو میٹنگ ہوئی اسکےلئے ہرنتھ کے لوگوں کو کوئی اطلاع دی گئی اور نہ ہرنتھ کےلوگوں سے کوئی مشورہ کیاگیا، دوسرے گاؤں کے لوگ آکر یہاں دادا گری اور الٹے سیدھے فیصلے کررہے ہیں،جبکہ پہلے سے یہاں ہائی لیول کی ایک کمیٹی یعنی مجلس شوری قائم ہے،جس میں علاقے کی اہم اورمؤقرشخصیات شامل ہیں،دوسال پہلے شوری اسی لئے بنائی گئی تاکہ مدرسے کو مدرسے کی طرح چلایاجائےلیکن کچھ لوگوں نےشوری کےخلاف غیردستوری ہونےکا پروپیگنڈا کیا،جن لوگوں نےشوری کےخلاف لوگوں کوگمراہ کیاانکےخلاف بھی قانونی کارروائی کی جائےگی،دوجون کی میٹنگ کےلئے
شوری کے احباب سے بھی کوئی مشورہ نہیں کیاگیا اور نہ انھیں مدعو کیاگیا،اسی فیصلے کا جائزہ لینے اورغوروفکرکےلئے آج یہاں ہرنتھ میں عشاء کےبعد ایک بیٹھک ہوئی،جس میں ایک درجن سے زائداراکین شوری کے علاوہ گاؤں کے کئی لوگ شامل تھے اس بیٹھک میں تفصیل سے مدرسے سےمتعلق تبادلہ خیال کیاگیا،جس میں متفقہ طور پر یہ طے کیاگیاکہ مدرسے کا حالیہ فیصلہ،غیر دستوری اور غیرقانونی ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے، جسے ہم ہرگز تسلیم نہیں کرتے،میٹنگ کے شرکاء نے کہا کہ بہت جلد شوری کااجلاس منعقد کیاجائےگا،اوراس میں آگے کا لائحہ عمل طے کیاجائےگا،اگرضرورت پڑی تو عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایاجائےگا،مدرسے کوجن لوگوں نےکھلونابنایا اوربدنام کیا انکےخلاف قانونی کارروائی کی جائے گی،شوری کوختم کرنے کا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے،یہ کمیٹی باقی رہےگی،اسکےلئے ایک دس رکنی مینجنگ کمیٹی بنانے پربھی غورکیاگیا،جوشوری کی نگرانی میں کام کرےگی اورعدالتی معاملےکودیکھےگی،یہ بھی طےکیاگیاکہ فوری طورپرشوری کی جانب سے اراکین شوری کی دستخط کے ساتھ طیب چودھری کوایک لیٹرجاری کیاجائےجس میں ان سےوضاحت طلب کی جائےاگروہ جواب نہیں دیتے ہیں توپھروکلاء کےذریعےقانونی نوٹس جاری کی جائےگی اسکےلئے ایک دورکنی کمیٹی وکلاء سے مشاورت کےلئے ترتیب دی گئی ہےاور وکلاء سے مشاورت کےبعد سابق کارگذار مہتمم طیب چودھری اور ان علماء کو جو چمپانگر سے فیصلے کےلئے بلائے گئےتھے انھیں نوٹس جاری کیاجائےگا،یہ تمام باتیں بیٹھک میں موجود ایک صاحب نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی بنیاد پر پریس کےنمائندے کو بتایا۔
آپ کو بتادیں کہ مورخہ ۲۲ ذیقعدہ مطابق 2 جون 2024 کو یعنی گذشتہ ماہ، مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر سے مفتی الیاس صاحب شیخ الحدیث اصلاح المسلمین،مولانا معین صاحب اورمولانا اویس صاحب استاذ حدیث،مولانا عطاء اللہ صاحب ناظم تعلیمات اصلاح المسلمین ومفتی خورشید قاسمی قاضی شریعت بھاگل پور پرمشتمل ایک وفد نے جامعہ حسینیہ کے مہتمم کے طورپر ابرارنامی شخص کو جوحافظ ہےنا عالم،انکو مہتمم بنادیا اور نائب مہتمم کےطورپرمولانا صدیق نامی شخص کومنتخب کیا،اسکے علاوہ ایک پانچ رکنی منتظمہ کمیٹی بھی بنائی گئی،اور شوری کوبھی تحلیل کردیاگیا،آخر یہ فیصلہ کس دستور کے مطابق لیاگیا؟اسطرح کا فیصلہ سراسرغیردستوری،غیرسماجی،غیرشرعی اور غیراخلاقی ہے،اسلئے ہم اسے رد کرتے ہیں،شوری کوکوئی بھی تحلیل نہیں کرسکتا،جن لوگوں نے یہ کام کیاہے یہ قانون کواپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش ہے،جسکی ہم پرزورمذمت کرتے ہیں،مدارس،اسلام کے قلعے ہیں،سیاست کا اڈہ نہیں،اور یہ کہ جب ادارے رحمت کے بجائے زحمت بن جائیں تو پھرانھیں بند ہی کردیناچاہئے،شرکاء نے یہ بھی کہاکہ فیصلے کےلئے جوعلماء بلائے گئے تھے ان میں سے ایک عالم نے جوقاضی شریعت بھی ہیں لوگوں کو یہ کہہ کر دھمکیاں دی کہ" میں مدرسے کو بلڈوز کرادوں گا،اور میں ایک تحریر لکھ کر اس مدرسے کو بند کرواسکتاہوں،یہاں کی تصدیق بند کروادوں گا،مفتی خورشید نے طیب چودھری کی حمایت کرتےہوئے میٹنگ کے دوران یہ بھی کہاکہ طیب چودھری مدرسےسے متعلق کسی فیصلے کےلئے شوری سے مشورے کے پابند نہیں ہیں"آخریہ سب کہاں لکھاہے؟کیاان لوگوں نے مولانا ریاست بجنوری کی کتاب "شوری کی شرعی حیثیت"نہیں پڑھی ہے؟ان لوگوں کو تواس کتاب کامطالعہ کرکے یہاں فیصلےکےلئے آناچاہئےتھا،پریس نمائندےکو یہ بھی بتایاگیاکہ جولوگ فیصل بن کرآئے تھے،ایسالگ ہی نہیں رہاتھا کہ یہ کوئی علماء کی جماعت ہے،انتہائی جانب دارانہ انداز اور لہجہ،دوسرے لوگ جوبات کہتے اسے یہ لوگ سننے کےلئے بھی بالکل تیار نہیں تھے بس ہرحال میں اپنا فیصلہ انھیں مسلط کرناتھا،اوروہ لوگ یہ کام کرکے گئے،کیونکہ اسی کام کےلئے انھیں بلایاگیاتھا،کچھ لوگوں نے ان حضرات سے یہ بھی کہاکہ آج یہ پروگرام کینسل کردیجئے پھر کسی اور کسی دن کا رکھ لیجئے تاکہ ارکین شوری جس میں علاقہ کی اہم اورمؤقر شخصیات شامل ہیں اور آج وہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہیں، انکو بھی شریک کرلیاجائے، پھراتحاد واتفاق سے کوئی فیصلہ لیاجائے،لیکن ان لوگوں نےان سنی کردی اور ایک فریق کو خوش کرکے،انتہائی جانبداری سے کام لیتے ہوئے اپنا فیصلہ مسلط کردیا،شوری کے اہم اراکین سے بھی کوئی رابطہ کیا اور نہ انکی کوئی رعایت کی گئی،جسکا مطلب صاف ہے کہ یہ علماء کچھ لوگوں کے نمائندے اورکٹھ پتلی بن کر آئے تھے، انھیں عدل وانصاف سے کوئی واسطہ نہیں تھا اگرایسا نہ ہوتاتو یہ لوگ کسی نااہل کو ہرگزمسلط نہ کرتے،یہاں آنے سے پہلے ان لوگوں نے حالات کاجائزہ بھی نہیں لیا،تاکہ سب کو اعتماد میں لیکر کوئی فیصلہ کیاجاسکے،جبکہ ان حضرات کو بھی معلوم ہے کہ ادارہ انتہائی درجے زوال کا شکارہے پھرایسے میں کسی جاہل اور ناہل کو مسلط کرنے کا کیامطلب ہوسکتاہے؟ابھی ادارے کوچلانےاور آگے بڑھانے کےلئے ایک باصلاحیت عالم اورباعمل کسی ایسےمفتی کی ضرورت ہےجو محنتی،امانت دار اوردیانت دارہو،کیونکہ وہ صرف اس مدرسے کا مہتمم نہیں بلکہ وہ اس پورے علاقے کا نمائندہ اور رہبربھی ہوگا،تب ہی مدرسے کی تعمیر وترقی ہوسکتی ہے،بصورت دیگر یہ کھانے اورکمانے کااڈہ بنے گا جسکی بالکل اجازت نہیں دی جاسکتی،یہ بات کتنی تعجب خیز ہے کہ جن لوگوں کوفیصلہ کےلئے بلایاگیاتھا،انھوں نے اس اہم عہدے کےلئے کوئی معیار نہیں دیکھا،آخرایساکیوں؟کیاشریعت میں اسکےلئے کوئی معیار متعین نہیں ہے؟یاپھراس دورمیں علماء کی کمی ہوگئی ہے؟کیایہ قحط الرجال کازمانہ چل رہاہے؟پریس نمائندے سے بات کرتےہوئے انھوں نے یہ بھی کہاکہ" بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ" کے مصداق اگرہم آپ کےگھرمیں جاکراپناکوئی فیصلہ مسلط کردیں توکیاآپ اسکوقبول کریں گے؟جن علماء کومدرسے کےفیصلے کےلئے بلایاگیاتھا،ان کا اس مدرسے سے کوئی تعلق نہیں اورہرنتھ والوں نے ان کوبلایابھی نہیں پھرانکا فیصلہ کیوں قبول کیاجائے؟دوسرےلوگوں نے انکو بلایاتو انکی دعوت پروہ یہاں کیوں آئے؟کوئی بدنظمی نہ ہو،افتراق وانتشارنہ ہو اسی لئے شوری بنائی گئی،اسکےممبران صرف ہرنتھ کےلوگ نہیں ہیں بلکہ مختلف گاؤں کےممبران اس میں شامل ہیں،ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ صرف ہمارے گاؤں کے لوگ ہی مدرسے میں رہیں بلکہ کوئی بھی رہ سکتاہے،لیکن اس شرط کےساتھ کہ وہ معیاری اورمستند ہوناچاہئے،چاہے انکا تعلق کہیں سے بھی ہواگر وہ باصلاحیت ہے،علم والاہے،بچوں کی تعلیم وتربیت کا جذبہ اسکے اندر ہے توہمارے مدرسے میں،ہمارےگاؤں میں انکااستقبال ہے،ہم بھی چاہتے ہیں علاقے کے لوگوں کو ساتھ لیکرچلاجائے،مدرسے کے قیام کےوقت ہم نے ہی پورےعلاقے کےلوگوں کوجمع کیا اسکےبعد مدرسے کی بنیادرکھی گئی، اوریہ اسی وقت طےکیاگیاتھاکہ علاقےکےلوگوں کوساتھ لیکراس مدرسےکوچلایاجائے،آج کچھ لوگ ہمیں نظرانداز کرناچاہتے ہیں،ایسےلوگوں کےلئے ہمارے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے،جنکو ایسا کرنا ہو اپنے اپنے گاؤں میں مدرسہ بنائے اورجیسےچاہےچلائے لیکن ہمارےگاؤں میں کھانےپکانے کا اڈہ نہیں بننے دیاجائےگا۔اگرایسا ہوتاتو ہم طیب چودھری پر کبھی بھروسہ نہیں کرتے لیکن انھوں نےہمارے اعتماد کوٹھیس پہونچایا،اس سے پہلے ہم لوگوں نےسترسال تک مولاناعبدالرحمن صاحب اورمفتی ہلال پربھروسہ کیااورانھیں چلانےکےلئے دیاکبھی ہم نےآبجیکشن نہیں کیا،کسی طرح کی کوئی رکاوٹ ہم نے کھڑی نہیں کی،ہمیشہ ہم لوگ مدرسے کاتعاون کرتےرہے،لیکن انکےزمانے میں مدرسے کی کوئی خاطرخواہ ترقی نہیں ہوسکی،مدرسہ طورطریقے سے چلے،سب کے مشورے سے چلے،اصول ضابطے کےمطابق چلے،یہاں کانظام اچھاہو،تعلیم اچھی ہو،آمدوخرچ کی تفصیل ہو،حساب وکتاب میں شفافیت ہو،اسکےلئے ہم آج بھی تیارہیں بصورت دیگرہم معذورہیں،مدرسہ ہمارا زمین ہماری اور ہمیں دشمن سمجھاجائے،ہمیں سماجی دھارے سے الگ کرنے کی کوشش کی جائے یہ ناقابل قبول ہے اسکو ہرگزبرداشت نہیں کیاجائےگا۔
اس بیٹھک میں دارالعلوم دیوبند کے اختلاف کی بھی بات آئی اور بعض شرکاء نے کہاکہ دارالعلوم کا اختلاف جب شروع ہوا تو حضرت حکیم الاسلام نے کچھ لوگوں کے کہنے پر شوری کو تحلیل کردیاتھا،یہ معاملہ عدالت میں پہونچا،جج نے حضرت حکیم الاسلام سے پوچھاکہ آپ کو مہتمم کس نے بنایاتھا؟حضرت حکیم الاسلام نے جواب دیاکہ شوری نے،تو جج نے پھر کہاکہ جس شوری نے آپ کو مہتمم بنایا آپ اس شوری کو تحلیل کرنے کا کوئی اختیارنہیں رکھتے،جائیے آپ مقدمہ ہارگئے"جب یہاں مہتمم شوری کو تحلیل نہیں کرسکتا تو پھر غیرمتعلقہ اوردوسرے لوگ کیسے شوری تحلیل کرسکتے ہیں؟ بیٹھک کے شرکاء نے اس پرشدید برہمی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہاکہ بہت جلد شوری اپنے مہتمم کا اعلان کرےگی،کیونکہ طیب چودھری کارگذار مہتمم نے استعفی دیدیاہے،حالاں کہ جب اراکین شوری نے انھیں کارگذار مہتمم نامزد کیا تھا تو انکو استعفی بھی شوری میں پیش کرناچاہئے تھا ،نہ کہ ایک غیر دستوری میٹنگ بلاکر،آگے کا لائحہ عمل عنقریب طےکیاجائےگا۔
پریس نمائندے نے مزیدتفصیلی جانکاری کےلئے کچھ اور لوگوں سے رابطہ کیا جو کل کی اس بیٹھک میں شامل تھے لیکن ان سے بات نہیں ہوسکی۔