قسط نمبر ٣
سیالدہ میں پانچ گھنٹے گاڑی کے انتظار میں گزارنے کے لئے میں تلاش میں نکلا اسٹشن سے باہر جس آدمی سے بھی پوچھتا کے بھائی مسجد کدھر ہے تو جواب میں ہر آدمی ایک نئی گلی کا پتہ بتاتا تھا ہم پریشان ہو گئے کون سی گلی میں جائیں میں الله کا نام لیکر ایک گلی میں داخل ہوگیا چلتے چلتے میرے پاؤں کے چپل گھس گئے اب میرے سامنے دوہری ذمہ داری آگئی ایک تو میرے چپل کی جان بچانی تھی اور دوسری مجھے مسجد کو کہیں سے بھی کھوج نکالنا تھا میں نے مسجد کی تلاش کو موخر کیا اور چپل کے پیچھے پڑ گیا ،
میری بیچاری چپل کا جبڑا اکھڑ کے برا حال ہوے جارہا تھا
مجھے چپل بیچاری کو ہاتھ میں اٹھا کر ڈاکٹر موچی کے پاس جانا پڑا ڈاکٹر موچی نے تین چار ٹانکے لگائے اور کہا کے انہیں ریسٹ کی ضرورت ہے تین دن!!!!
میں مرتا کیا نہ کرتا بیچاری چپل جو میرے ساتھ میری بیوی کی طرح چمٹ کر رہتی تھی تین دن کے بجائے دس دن کے لئے اسے آرام دہ کمرے (بیگ)میں ڈال دیا اسکی جدائی کا صدمہ مجھے الگ کھائے جا رہاتھا !
میں نے اپنے پیروں کی حفاظت کے لئے جوتا خریدا اور پھر مسجد کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا چونکہ میرے پیروں میں جوتا موزہ لگ جانے کی وجہ سے میں بڑا آدمی نظر آرہا تھا مسجد میں پہونچتے ہی امام صاحب نے میرا پرزور انداز میں استقبال کیا میں نے اپنے کو بڑا سیٹھ ثابت کرنے کے لئے امام صاحب کے ہاتھ میں دوسو روپے بھی تھمائے جسکی وجہ سے میری آؤ بھگت اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور باقی کچھ گھنٹے گزارنا مسجد میں میرے لئے مزید آسان ہو گیا ،
قارئیں کرام :مبنی بر حقیقت ہے جو خود راقم الحروف کے ساتھ ایک جنوری سے نو جنوری کے درمیانی سفر میں پیش آیا جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا میرے دل میں خیال آیا کے میں اپنی روئیداد سفر آپ سے بھی شیر کروں ،
حاصل کلام یہی ہے کہ آج لوگوں کی نگاہ میں پیسہ ہی سب کچھ ہے آپ کے جسم پر قیمتی کپڑے ہوں ،چاہے گھر میں گودڑی پر ہی سوتے ہوں ،اور آپ کے جیب میں پیسے ہوں ،چاہے گھر میں فاقے ہوں ،تو آپ کو آپ کا اکرام کرنے والا آپ کو عزت دینے والا بھی مل جائیگا ،لیکن اگر آپ کا پہناوا سہی نہیں ہے تو آپ کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا ،،،
-------------------
قسط نمبر ٢
جب ہم بنگال میں اترے تو ہمیں بلبل بنگال کی یاد آئ (بلبل بنگال کون ہے یہ تو میں باد میں بتاؤنگا )چونکہ مجھے ہاوڑہ سے سیالدہ جانا تھا میں نے باہر نکل کر آٹو والوں سے اور دیگر ٹیکسی والوں سے معلوم کیا تو انہوں نے مجھے ہاوڑہ سے سیالدہ تک کا کرایہ ٤٥٠ روپے بتائے پھر میں نے کچھ دور چل کر ایک دوکان سے گٹکھا خریدا ،چونکہ میں بھی بھاری بابو ہی ہوں تو میرے لئے بھی گٹکھا کھانا بنتا ہے ،اور ایک چاۓ لی ساتھ میں میں نے یہ سوال بھی داغ دیا کہ بھائی یہاں سے سیالدہ کتنا کرایہ ہوتا ہے انہوں نے جواب دیا تیس روپے !!!!کہاں چار سو پچاس اور کہاں تیس روپے !!!یہ آٹو اور ٹیکسی والے نئے لوگوں کو کس انداز سے لوٹ رہے ہوتے ہیں !!قارئیں آپ بھی یاد رکھیں جب بھی آپ کسی نئے مقام پر جائیں تو آپ کبھی بھی ریلوے سٹشن کے قریب آٹو والوں سے پتہ اور کرایہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کریں آپ ایسا کیجیے آپ اسٹشن سے باہر جاکر تھوڑی دور میں کسی دوکان والوں سے کرایہ کی حقیقت معلوم کیجیے پھر کسی گاڑی یا آٹو کا سہارا لیجیے شاید اس طریقہ کار سے آپ لٹنے سے بچ جائینگے بہر حال یہ تو ایک تجویز تھی اپنے کو لٹنے سے بچانے کی ،،،سو میں نے ایسا ہی کیا ،
میں نے قریب سے ایک آٹو والے کو کہا کے مجھے مقامی بس اڈہ پہونچا دیں وہ آٹو والا جیسا کے میرے ہی لئے تیار تھا مجھے بیٹھا لیا اور تھوڑی دور بس اڈہ کے پاس پہونچ کر مجھے اتار دیا گیا سامنے بس کھڑی تھی کہا یہی بس سیالدہ جائیگی میں نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسے نکال کر مقامی آدمی کے سٹائل میں میں نے پوچھا کتنا کرایہ ہوا انہوں نے کہا چالیس روپے دے دیجیے میں نے خوشی سے دے دیا پھر میں بس کی طرف بڑھا ادھر آٹو والا رفو چکر ہو گیا میں بس میں داخل ہو کر بیٹھ گیا بنگالی ڈرائیور نے پوچھا آٹو والے نے کتنے پیسے لئے میں نے کھا چالیس روپے !!!
بس ڈرائیور نے ماتھے پر حیرانی سے ہاتھ رکھتے ھوۓ آٹو والے کی طرف دیکھ کر بنگالی میں گالی دیتے ھوۓ کہا ،،ارے آٹو والے کے دھوربے ،،دھورے ،،دھورے ،،پردیسی آدمی کو لوٹ لیتا ہے سالہ،،پھر بس ڈرائیور نے میری طرف مخاطب ہوتے ھوۓ کہا کے ریلوے سٹشن سے بس اڈہ صرف دس روپے کرایہ ہے ،میں تو حواس باختہ ہو گیا ، یعنی آٹو والا مجھے بڑی محبت سے تیس روپے کا اضافی چونا لگا چکا تھا !! جبکہ ہاوڑہ سے سیالدہ آدھے گھنٹے کا سفر ہے کرایہ صرف بیس روپے ہے ،
بہر حال میں بس میں سوار تو ہو گیا کنڈکٹر کو بھی معلوم ہوگیا کہ یہ آدمی نیا ہے اور ایک بار اسکو تیس روپے کا اضافی چونا لگ چکا ہے تو کنڈکٹر بھی موقع کے انتظار میں رہا میں کنڈکٹر کو کرایہ پیش کر رہا ہوں لیکن وہ لینے کے لئے تیار نہیں ہے جب کہ میرے بازو کی سیٹ پر بیٹھا ہوا آدمی کا کرایہ بھی لے لیا وہ بھی سیالدہ جانے والا تھا لیکن میرا نہیں لے رہا تھا ، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید یہ کسی موقع کی تاک میں تھا لیکن اسے کوئی موقع تو نہیں ملا اس نے مجھ سے بھی اتنا ہی کرایہ وصول کیا جتنا عام مسافر سیالدہ جانے والوں سے کیا تھا عوام الناس کی بھیڑ میں وہ مجھے تو چونا نہیں لگاسکا البتہ بنگال سرکار کو چونا لگانے میں وہ ضرور کامیاب ہو گیا اس طور پر کے اس نے کرایہ وصول کرنے کے بعد مجھے ٹکٹ نہیں دیا جس سے میں نے سمجھ لیا کہ یہ پیسہ کنڈکٹر کے جیب میں جائے گا میں نے ٹکٹ نہ مانگنے میں ہی عافیت سمجھی اگر میں ٹکٹ کے لئے اصرار کرتا تو وہ مجھے مزید کسی نہ کسی بہانے پیسہ نکلوانے پر مجبور کرتا اس لئے میں خاموش رہا ،بہر حال میرے سامنے ہی ایک آدمی نے رعایا کو (مجھکو)اور ایک آدمی نے سرکار کو چونا لگا دیا ،
اور مزید بڑے ہی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہاوڑہ یعنی کلکتہ جسکا شمار ہندوستان کے مایہ ناز شہروں میں ہوتا ہوتا ہے کلکتہ ریلوے اسٹشن کے باہر ہی بر سر عام گٹکھا پان پراگ کی خریدوفروخت دھڑلے سے کی جاتی ہے ،آپ پان پراگ کھا کر کہیں بھی تھوک کر اپنے بہاری ،بنگالی ،یوپی ،وغیرہم ہونے کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں لیکن بمبئی وغیرہ جیسی سٹی میں یہ کام کرنے کی ہر گز کوشش نہ کیجیے گا ورنہ آپ دھڑ لئے جائیں گے ،
ریلوے اسٹشن کے باہر بے ڈھنگے انداز میں دوکانوں کی موجودگی سرکاری آفیسروں کے کرپٹ ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی ،
یہ تھی بنگالی قوم ،لیکن اگر آپ بنگال کو الگ زاویے سے دیکھیں تو بنگال بہت حد تک ترقی کی راہ پر گامزن ہے کرپشن بھی کم ہے اور لوگوں کا زہن کسی حد تک بہت ٹھیک ہے ،،اگلی قسط میں ہم یہ بیان کریں گے کہ ہم نے سیالدہ میں پانچ گھنٹے ایک مسجد کی تلاش میں گزار دی تھی ،،،انتظار کیجیے،،
---------------
قسط نمبر 1
بہار سے چلے آندھرا پردیش دل میں ہزاروں ارمان لئے ھوۓ، پیسے کماؤنگا، گھر والوں کو بھیجونگا،اور اس طرح ہمارے گھروں میں خوشیاں آئیگی ، اور گھر سے تنگی افلاس ختم ہوگی ،سروں پر لوہے کی بڑی سی پیٹی( جو ریلوے والوں کے پاس ہوتی ہے )،گلے میں گمچھا ،منہ میں گٹکھا ،ہونٹوں میں پان کی لالی ،جیب میں تین سو روپے جو گاڑی پر چڑھنے کے وقت ماں نے بڑی محبت سے یہ کہتے ھوۓ دی تھی بیٹے اپنا دھیان رکھنا وہاں پہونچ کر چٹھی لکھ دینا ،چلے بھیا کمانے ،کہاں کوئی لندن انگلینڈ نہیں ،لوگ لندن جاکر باتھروم صاف کر کے نائی کا کام کر کے کہتے ہیں ہم وہاں نوکری کرتے ہیں ،لیکن ہمارے بھاری بابو کے لئے تو سارا انڈیا ہی لندن اور انگلنڈ سے بڑھ کر ہے ،
ہم اپنے گھر کے اخراجات جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کا ہر سامان بھی چاہے وہ رومال ہو یا بالٹی ہو یا پانی کا ڈرم ہی کیوں نہ ہو ہم اسے سوغات سمجھ کر سلیپر بوگی میں بڑے شوق سے لاد کر لے جاتے ہیں ،چاہے دوسرے مسافروں کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو ،
اور گھر پہونچنے کے بعد ہم بڑے شوق سے کہتے ہیں کے یہ سامان بھیا باہر سے لائیں ہیں ،
لگتا ہے بہار میں بالٹی ڈرم ملتا ہی نہیں !!!!!
بہرحال ہمارا سفر بہار سے اندھرا کا ہے، نہ کے اندھرا سے بہار کا،جیسے ہی ہم بہار میں ٹرین میں چڑھے ،ایک ایسی ہرامخوڑ نسل کی برہمن عورت سے ہمارا پالا پڑا کے میں اسے مرتے دم تک نہیں بھول سکتا ،ہماری سائیڈ لویر برتھ ہونے کے باوجود وہ بیٹھنے کے لئے تک نہیں دے رہی تھی چونکہ ہماری سیٹ اوپر تھی لیکن بیٹھنے کے ٹائم میں ہمیں بیٹھنے کا بھی حق ہوتا ہے ،اب وہ اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا کر ہماری سیٹ بھی ہڑپ کر سو گئی ،اب ہم ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کے کریں تو کیا کریں،اتفاق کی بات یہ ہوئی کے ایک بیمار آدمی ہمارے بازو میں تھا جنکو ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لئے اوپر کی سیٹ کی ضرورت تھی ہم نے ان سے سیٹ بدل لی اور ہمارے دماغ کو تھوڑی سی راحت ملی ،
لیکن الله تعالی نے اسے ایک ہی رات میں عجیب انداز سے سزا دی کے جو بندہ اوپر سویا تھا اسے رات میں کافی ٹھنڈی لگی اور اسی ٹھنڈ کی وجہ سے اس نے نیند میں سیٹ پر ہی پیشاب کر دیا ،اس بڑے آدمی کا پیشاب آبشار کی طرح اس عورت کے عضو خاص پر پڑا تو عورت اچھل کر بیٹھ گئی کہ یہ سوغات صبح صبح ہمارے ارتھی پر کہاں سے آیا !
غصّے میں آکر وہ عورت ہم سے جھگڑنے لگی کے یہ تم نے کیا کیا !
ہم نے کہا میڈم یہ ٹھنڈے موسم میں گرم پانی میرا نہیں ہے ،
وہ کہنے لگی کہ تم نے سیٹ کیوں بدل لی ؟ ہم نے کہا میڈم مجھے کیا پتہ کے آپ کو میرا گرم پانی پسند ہے ،اگر یہ بات ہوتی تو مجھے پہلے بتا دیا ہوتا میں آپ کے قریب ہی اپنا آبشار کھول دیتا اور میرے پرساد سے شر شار ہو جاتی لیکن سونا تو دور کی بات آپ نے مجھے بیٹھنے بھی نہیں دیا ،
اور اس طرح ہمارا سفر بہار سے بنگال تک جھگڑا کرتے ھوۓ گزر گیا ہم بنگال میں اترے بنگال میں ہم نے کیا دیکھا اور کیا سیکھا کل کے شمارے میں پڑھیے،،،،
سیالدہ میں پانچ گھنٹے گاڑی کے انتظار میں گزارنے کے لئے میں تلاش میں نکلا اسٹشن سے باہر جس آدمی سے بھی پوچھتا کے بھائی مسجد کدھر ہے تو جواب میں ہر آدمی ایک نئی گلی کا پتہ بتاتا تھا ہم پریشان ہو گئے کون سی گلی میں جائیں میں الله کا نام لیکر ایک گلی میں داخل ہوگیا چلتے چلتے میرے پاؤں کے چپل گھس گئے اب میرے سامنے دوہری ذمہ داری آگئی ایک تو میرے چپل کی جان بچانی تھی اور دوسری مجھے مسجد کو کہیں سے بھی کھوج نکالنا تھا میں نے مسجد کی تلاش کو موخر کیا اور چپل کے پیچھے پڑ گیا ،
میری بیچاری چپل کا جبڑا اکھڑ کے برا حال ہوے جارہا تھا
مجھے چپل بیچاری کو ہاتھ میں اٹھا کر ڈاکٹر موچی کے پاس جانا پڑا ڈاکٹر موچی نے تین چار ٹانکے لگائے اور کہا کے انہیں ریسٹ کی ضرورت ہے تین دن!!!!
میں مرتا کیا نہ کرتا بیچاری چپل جو میرے ساتھ میری بیوی کی طرح چمٹ کر رہتی تھی تین دن کے بجائے دس دن کے لئے اسے آرام دہ کمرے (بیگ)میں ڈال دیا اسکی جدائی کا صدمہ مجھے الگ کھائے جا رہاتھا !
میں نے اپنے پیروں کی حفاظت کے لئے جوتا خریدا اور پھر مسجد کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا چونکہ میرے پیروں میں جوتا موزہ لگ جانے کی وجہ سے میں بڑا آدمی نظر آرہا تھا مسجد میں پہونچتے ہی امام صاحب نے میرا پرزور انداز میں استقبال کیا میں نے اپنے کو بڑا سیٹھ ثابت کرنے کے لئے امام صاحب کے ہاتھ میں دوسو روپے بھی تھمائے جسکی وجہ سے میری آؤ بھگت اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور باقی کچھ گھنٹے گزارنا مسجد میں میرے لئے مزید آسان ہو گیا ،
قارئیں کرام :مبنی بر حقیقت ہے جو خود راقم الحروف کے ساتھ ایک جنوری سے نو جنوری کے درمیانی سفر میں پیش آیا جس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا میرے دل میں خیال آیا کے میں اپنی روئیداد سفر آپ سے بھی شیر کروں ،
حاصل کلام یہی ہے کہ آج لوگوں کی نگاہ میں پیسہ ہی سب کچھ ہے آپ کے جسم پر قیمتی کپڑے ہوں ،چاہے گھر میں گودڑی پر ہی سوتے ہوں ،اور آپ کے جیب میں پیسے ہوں ،چاہے گھر میں فاقے ہوں ،تو آپ کو آپ کا اکرام کرنے والا آپ کو عزت دینے والا بھی مل جائیگا ،لیکن اگر آپ کا پہناوا سہی نہیں ہے تو آپ کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا ،،،
-------------------
قسط نمبر ٢
جب ہم بنگال میں اترے تو ہمیں بلبل بنگال کی یاد آئ (بلبل بنگال کون ہے یہ تو میں باد میں بتاؤنگا )چونکہ مجھے ہاوڑہ سے سیالدہ جانا تھا میں نے باہر نکل کر آٹو والوں سے اور دیگر ٹیکسی والوں سے معلوم کیا تو انہوں نے مجھے ہاوڑہ سے سیالدہ تک کا کرایہ ٤٥٠ روپے بتائے پھر میں نے کچھ دور چل کر ایک دوکان سے گٹکھا خریدا ،چونکہ میں بھی بھاری بابو ہی ہوں تو میرے لئے بھی گٹکھا کھانا بنتا ہے ،اور ایک چاۓ لی ساتھ میں میں نے یہ سوال بھی داغ دیا کہ بھائی یہاں سے سیالدہ کتنا کرایہ ہوتا ہے انہوں نے جواب دیا تیس روپے !!!!کہاں چار سو پچاس اور کہاں تیس روپے !!!یہ آٹو اور ٹیکسی والے نئے لوگوں کو کس انداز سے لوٹ رہے ہوتے ہیں !!قارئیں آپ بھی یاد رکھیں جب بھی آپ کسی نئے مقام پر جائیں تو آپ کبھی بھی ریلوے سٹشن کے قریب آٹو والوں سے پتہ اور کرایہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کریں آپ ایسا کیجیے آپ اسٹشن سے باہر جاکر تھوڑی دور میں کسی دوکان والوں سے کرایہ کی حقیقت معلوم کیجیے پھر کسی گاڑی یا آٹو کا سہارا لیجیے شاید اس طریقہ کار سے آپ لٹنے سے بچ جائینگے بہر حال یہ تو ایک تجویز تھی اپنے کو لٹنے سے بچانے کی ،،،سو میں نے ایسا ہی کیا ،
میں نے قریب سے ایک آٹو والے کو کہا کے مجھے مقامی بس اڈہ پہونچا دیں وہ آٹو والا جیسا کے میرے ہی لئے تیار تھا مجھے بیٹھا لیا اور تھوڑی دور بس اڈہ کے پاس پہونچ کر مجھے اتار دیا گیا سامنے بس کھڑی تھی کہا یہی بس سیالدہ جائیگی میں نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسے نکال کر مقامی آدمی کے سٹائل میں میں نے پوچھا کتنا کرایہ ہوا انہوں نے کہا چالیس روپے دے دیجیے میں نے خوشی سے دے دیا پھر میں بس کی طرف بڑھا ادھر آٹو والا رفو چکر ہو گیا میں بس میں داخل ہو کر بیٹھ گیا بنگالی ڈرائیور نے پوچھا آٹو والے نے کتنے پیسے لئے میں نے کھا چالیس روپے !!!
بس ڈرائیور نے ماتھے پر حیرانی سے ہاتھ رکھتے ھوۓ آٹو والے کی طرف دیکھ کر بنگالی میں گالی دیتے ھوۓ کہا ،،ارے آٹو والے کے دھوربے ،،دھورے ،،دھورے ،،پردیسی آدمی کو لوٹ لیتا ہے سالہ،،پھر بس ڈرائیور نے میری طرف مخاطب ہوتے ھوۓ کہا کے ریلوے سٹشن سے بس اڈہ صرف دس روپے کرایہ ہے ،میں تو حواس باختہ ہو گیا ، یعنی آٹو والا مجھے بڑی محبت سے تیس روپے کا اضافی چونا لگا چکا تھا !! جبکہ ہاوڑہ سے سیالدہ آدھے گھنٹے کا سفر ہے کرایہ صرف بیس روپے ہے ،
بہر حال میں بس میں سوار تو ہو گیا کنڈکٹر کو بھی معلوم ہوگیا کہ یہ آدمی نیا ہے اور ایک بار اسکو تیس روپے کا اضافی چونا لگ چکا ہے تو کنڈکٹر بھی موقع کے انتظار میں رہا میں کنڈکٹر کو کرایہ پیش کر رہا ہوں لیکن وہ لینے کے لئے تیار نہیں ہے جب کہ میرے بازو کی سیٹ پر بیٹھا ہوا آدمی کا کرایہ بھی لے لیا وہ بھی سیالدہ جانے والا تھا لیکن میرا نہیں لے رہا تھا ، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید یہ کسی موقع کی تاک میں تھا لیکن اسے کوئی موقع تو نہیں ملا اس نے مجھ سے بھی اتنا ہی کرایہ وصول کیا جتنا عام مسافر سیالدہ جانے والوں سے کیا تھا عوام الناس کی بھیڑ میں وہ مجھے تو چونا نہیں لگاسکا البتہ بنگال سرکار کو چونا لگانے میں وہ ضرور کامیاب ہو گیا اس طور پر کے اس نے کرایہ وصول کرنے کے بعد مجھے ٹکٹ نہیں دیا جس سے میں نے سمجھ لیا کہ یہ پیسہ کنڈکٹر کے جیب میں جائے گا میں نے ٹکٹ نہ مانگنے میں ہی عافیت سمجھی اگر میں ٹکٹ کے لئے اصرار کرتا تو وہ مجھے مزید کسی نہ کسی بہانے پیسہ نکلوانے پر مجبور کرتا اس لئے میں خاموش رہا ،بہر حال میرے سامنے ہی ایک آدمی نے رعایا کو (مجھکو)اور ایک آدمی نے سرکار کو چونا لگا دیا ،
اور مزید بڑے ہی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہاوڑہ یعنی کلکتہ جسکا شمار ہندوستان کے مایہ ناز شہروں میں ہوتا ہوتا ہے کلکتہ ریلوے اسٹشن کے باہر ہی بر سر عام گٹکھا پان پراگ کی خریدوفروخت دھڑلے سے کی جاتی ہے ،آپ پان پراگ کھا کر کہیں بھی تھوک کر اپنے بہاری ،بنگالی ،یوپی ،وغیرہم ہونے کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں لیکن بمبئی وغیرہ جیسی سٹی میں یہ کام کرنے کی ہر گز کوشش نہ کیجیے گا ورنہ آپ دھڑ لئے جائیں گے ،
ریلوے اسٹشن کے باہر بے ڈھنگے انداز میں دوکانوں کی موجودگی سرکاری آفیسروں کے کرپٹ ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی ،
یہ تھی بنگالی قوم ،لیکن اگر آپ بنگال کو الگ زاویے سے دیکھیں تو بنگال بہت حد تک ترقی کی راہ پر گامزن ہے کرپشن بھی کم ہے اور لوگوں کا زہن کسی حد تک بہت ٹھیک ہے ،،اگلی قسط میں ہم یہ بیان کریں گے کہ ہم نے سیالدہ میں پانچ گھنٹے ایک مسجد کی تلاش میں گزار دی تھی ،،،انتظار کیجیے،،
---------------
قسط نمبر 1
بہار سے چلے آندھرا پردیش دل میں ہزاروں ارمان لئے ھوۓ، پیسے کماؤنگا، گھر والوں کو بھیجونگا،اور اس طرح ہمارے گھروں میں خوشیاں آئیگی ، اور گھر سے تنگی افلاس ختم ہوگی ،سروں پر لوہے کی بڑی سی پیٹی( جو ریلوے والوں کے پاس ہوتی ہے )،گلے میں گمچھا ،منہ میں گٹکھا ،ہونٹوں میں پان کی لالی ،جیب میں تین سو روپے جو گاڑی پر چڑھنے کے وقت ماں نے بڑی محبت سے یہ کہتے ھوۓ دی تھی بیٹے اپنا دھیان رکھنا وہاں پہونچ کر چٹھی لکھ دینا ،چلے بھیا کمانے ،کہاں کوئی لندن انگلینڈ نہیں ،لوگ لندن جاکر باتھروم صاف کر کے نائی کا کام کر کے کہتے ہیں ہم وہاں نوکری کرتے ہیں ،لیکن ہمارے بھاری بابو کے لئے تو سارا انڈیا ہی لندن اور انگلنڈ سے بڑھ کر ہے ،
ہم اپنے گھر کے اخراجات جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کا ہر سامان بھی چاہے وہ رومال ہو یا بالٹی ہو یا پانی کا ڈرم ہی کیوں نہ ہو ہم اسے سوغات سمجھ کر سلیپر بوگی میں بڑے شوق سے لاد کر لے جاتے ہیں ،چاہے دوسرے مسافروں کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو ،
اور گھر پہونچنے کے بعد ہم بڑے شوق سے کہتے ہیں کے یہ سامان بھیا باہر سے لائیں ہیں ،
لگتا ہے بہار میں بالٹی ڈرم ملتا ہی نہیں !!!!!
بہرحال ہمارا سفر بہار سے اندھرا کا ہے، نہ کے اندھرا سے بہار کا،جیسے ہی ہم بہار میں ٹرین میں چڑھے ،ایک ایسی ہرامخوڑ نسل کی برہمن عورت سے ہمارا پالا پڑا کے میں اسے مرتے دم تک نہیں بھول سکتا ،ہماری سائیڈ لویر برتھ ہونے کے باوجود وہ بیٹھنے کے لئے تک نہیں دے رہی تھی چونکہ ہماری سیٹ اوپر تھی لیکن بیٹھنے کے ٹائم میں ہمیں بیٹھنے کا بھی حق ہوتا ہے ،اب وہ اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا کر ہماری سیٹ بھی ہڑپ کر سو گئی ،اب ہم ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کے کریں تو کیا کریں،اتفاق کی بات یہ ہوئی کے ایک بیمار آدمی ہمارے بازو میں تھا جنکو ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لئے اوپر کی سیٹ کی ضرورت تھی ہم نے ان سے سیٹ بدل لی اور ہمارے دماغ کو تھوڑی سی راحت ملی ،
لیکن الله تعالی نے اسے ایک ہی رات میں عجیب انداز سے سزا دی کے جو بندہ اوپر سویا تھا اسے رات میں کافی ٹھنڈی لگی اور اسی ٹھنڈ کی وجہ سے اس نے نیند میں سیٹ پر ہی پیشاب کر دیا ،اس بڑے آدمی کا پیشاب آبشار کی طرح اس عورت کے عضو خاص پر پڑا تو عورت اچھل کر بیٹھ گئی کہ یہ سوغات صبح صبح ہمارے ارتھی پر کہاں سے آیا !
غصّے میں آکر وہ عورت ہم سے جھگڑنے لگی کے یہ تم نے کیا کیا !
ہم نے کہا میڈم یہ ٹھنڈے موسم میں گرم پانی میرا نہیں ہے ،
وہ کہنے لگی کہ تم نے سیٹ کیوں بدل لی ؟ ہم نے کہا میڈم مجھے کیا پتہ کے آپ کو میرا گرم پانی پسند ہے ،اگر یہ بات ہوتی تو مجھے پہلے بتا دیا ہوتا میں آپ کے قریب ہی اپنا آبشار کھول دیتا اور میرے پرساد سے شر شار ہو جاتی لیکن سونا تو دور کی بات آپ نے مجھے بیٹھنے بھی نہیں دیا ،
اور اس طرح ہمارا سفر بہار سے بنگال تک جھگڑا کرتے ھوۓ گزر گیا ہم بنگال میں اترے بنگال میں ہم نے کیا دیکھا اور کیا سیکھا کل کے شمارے میں پڑھیے،،،،
Tags
رؤئیداد زندگی
پڑھکر تو مزہ آگیا بھائ صاحب
جواب دیںحذف کریںآپ کا بہت بہت شکریہ
حذف کریںاپنے دوستوں کو بھی محظوظ کرنے کے لئے شیر کریں
ہم آئے دن نئے حقیقی واقعات مزاحیہ انداز میں پیش کرتے رہتے ہیں