الله معاف کرے گلی گلی کوچے کوچے مانگنے والوں کی بھیڑ ہوتی ہے ان میں غیر مسلم اور مسلمان بھی ہوتےہیں ،
لیکن تقسسیم کا نظام بھی عجیب ہے ایک زیپ کور میں ایک ہڈی کا ٹکڑا اور دو گوشت کے ٹکڑے اور بس ،
جب کہ آج بھی کوئی انسان خرید کر بھی گوشت کھاتا ہے تو کم سے کم پاؤ کیلو خریدتا ہے اپنی ضرورت کے حساب سے ،،،
پتہ نہیں ایک ہڈی کا ٹکڑا اور دوگوشت کے ٹکڑے سے گھر کے کتنے افراد سیراب ہوتے ہونگے ؟!!!!
جب کہ تقسیم کرنے والوں کا ماننا ہے کہ ایک ایک گھر میں کئی کئی جگہوں سے گوشت آنے کی وجہ سے انکے پاس گوشت کی کافی مقدار جمع ہو جاتی ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے ایسے بہت سے گھر ہیں جن گھروں میں صرف وہی ایک ہڈی اور دو گوشت کے ٹکڑے پہونچ پاتے ہیں اور اسکے علاوہ کچھ نہیں ورنہ کتنے ہی ایسے ہی گھر اڑوس پڑوس میں ہوتے ہیں جن گھروں میں وہ تین ٹکڑے بھی نہیں پہونچ پاتے ہیں ،اور ان بیچاروں کی عید بس تین ٹکڑوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے ورنہ وہ بھی نہیں ،،،
جہاں تک میرا اپنا ماننا ہے کہ اکثر و بیشتر احباب تین تین ٹکڑوں میں پیکنگ کر کے صرف چند لوگوں کو برائے نام دیتے باقی سب اپنے گھروں میں کھانے کے لئے جمع کر کے رکھ لیا جاتا ہے حالانکہ یہ سراسر غریب کے ساتھ نا انصافی ہے ،
مزید اس پر یہ ظلم !!!!!!!!کے !!!!دینے کے انداز !!!اگر گھر کراوپر والی منزل میں ہیں تو اوپر سے ڈول لٹکا کر نیچے لائیں میں کھڑے رہنے والوں کو دیا جاتا ہے جوغربت کے ساتھ انتہائی مذاق ہے ہاں اگر کوئی پریشانی ہے تکلیف ہے تو کوئی حرج کی بات نہیں ،،،،
ہم نے ایک عالم دین کو بھی دیکھا کہ وہ بھی باقی غریبوں کی طرح لائن لگا کر نیچے کھڑے ہوے اوپر سے ڈول لٹکنے کا انتظار کرتے ہیں دل میں تو آتا ہے کہ ایسے لوگوں کے گوشتکو لیکر انکے منہ پر ہی مار دینا چاہہے کہ لے بھائی تو ہی تیرا گوشت کھا ،،،،
اسکے بر عکس الحمد لللہ ہم نے بہت ساری جگہوں میں خصوصا بہار کے علاقوں میں دیکھا ہے کہ وہاں اتنی غربت اور افلاس ہونے کے با وجود قربانی کا گوشت تین تین چار چار کیلو سے زیادہ ایک ایک گھر کو دیا جاتا ہے اور ہر گھر سیراب ہو کر کھاتا ہے ،،،،
!!!!!!!!!کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا !!!!!!
کے بموجب دور دراز سے آئیے ہوے صاحب استطاعت حضرات بھی مقامی لوگوں کی نقل کرتے ہوے ایک زیپ کور میں ایک ہڈی کا ٹکڑا اور دوگوشت کے ٹکڑے ڈال ڈال کر تقسیم کرنے لگتے ہے اور اس چیز کو فیشن کو طور پر اپنایا جاتا ہے اور قربانی کے نام پر سب کھانے کے لئے جما کر لیا جاتا ہے ،،،،،،
حالانکہ سوچنا چاہئے کے قربانی سنت ابراہیمی ہے اور قربانی کی مکمل فضیلت اسی وقت مل سکتی ہے جب آپ کی قربانی کے غوشت غریبوں تک آسانی سے اور عزت کے ساتھ پہونچ جائیں غریبوں کو آپ کے در پر لینے کے لئے آنا نہ پڑے بلکہ آپ خود غریبوں کے گھر پر پہونچ کر انکو اپنی قربانی کے گوسشت پہونچائیں ،،،،
!!!!!!!!!کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا !!!!!!
کے بموجب دور دراز سے آئیے ہوے صاحب استطاعت حضرات بھی مقامی لوگوں کی نقل کرتے ہوے ایک زیپ کور میں ایک ہڈی کا ٹکڑا اور دوگوشت کے ٹکڑے ڈال ڈال کر تقسیم کرنے لگتے ہے اور اس چیز کو فیشن کو طور پر اپنایا جاتا ہے اور قربانی کے نام پر سب کھانے کے لئے جما کر لیا جاتا ہے ،،،،،،
حالانکہ سوچنا چاہئے کے قربانی سنت ابراہیمی ہے اور قربانی کی مکمل فضیلت اسی وقت مل سکتی ہے جب آپ کی قربانی کے غوشت غریبوں تک آسانی سے اور عزت کے ساتھ پہونچ جائیں غریبوں کو آپ کے در پر لینے کے لئے آنا نہ پڑے بلکہ آپ خود غریبوں کے گھر پر پہونچ کر انکو اپنی قربانی کے گوسشت پہونچائیں ،،،،