کورونا حقیقت کے آئنے میں

بی بی سی  کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کروناوائرس کی سونامی آنے کا شدید خطرہ ہے جس سے 300 ملین لوگ متاثرہوسکتے ہیں۔ ان میں چارسے پانچ ملین لوگوں کی حالت زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس بلا کو ٹالے اور سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اس وقت دنیا میں ہرجگہ اس وبا کے پھیلنے کا شدید  خطرہ لاحق ہے، برطانوی اخبار انڈیپینڈینٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کیونکہ ہندوستان میں لوگ مشترکہ کنبوں میں رہتے ہیں جن میں ایک دوسرے سے  جراثیم لگنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور عمررسیدہ لوگوں کو خاص طورپر خطرہ ہے۔ 
اٹلی میں کرونا وائرس کی وجہ سے بے شمار اموات ہوچکی ہیں, اٹلی میں اس وقت جہاں کورونا اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔  اٹلی میں اموات کی تعداد چین سے زیادہ ہوچکی تھی ۔ اب وہاں یہ حال ہے کہ میتیں اٹھانے کے لیے گاڑیاں نہیں ہیں سو فوجی ٹرکوں میں میتیں بھر کر بغیر کسی غسل وکفن اور آخری رسومات کے دفن کی جارہی ہیں،  ایران میں ہر دس منٹ میں کورونا سے ایک موت ہورہی ہے۔ وہ دوائیں خریدنے کے لیے ساری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے کہ بس پابندیاں ہٹالو۔۔
ہندوستان میں تعداد بڑھتی جارہی ہے, عرب ممالک نے بہت عوامی مقامات بند کرنے کا فیصلہ بہت صحیح وقت پر لیا ہے, ہندوستان کافی پسماندہ ملک ہے, یہاں خود سے ہی احتیاط کرنا پڑے گا, ورنہ یہ کتنے لوگوں میں پھیل جائے گا پتہ بھی نہیں چلے گا, وائرس کے پھیلاؤ کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا, اور جو ایکسپرٹس کے ذریعہ جو احتیاطی تدابیر بتائے جا رہے ہیں, انہیں اپنانا بہت ضروری ہے, ورنہ حالات جب قابو سے باہر ہوجائیں گے, تو ہماری ہندوستانی گورنمنٹ بالکل کنٹرول نہیں کر سکے گی, کیونکہ وہ اس کی اہل نہیں ہے, 
اٹلی اور ایران نے بھی احتیاط نہیں برتی تھی جب ان کے یہاں شروعات میں ایک دو کیسیز درج کئے گئے تھے, تو انہوں نے بھی سوچا ہوگا کہ بس یونہی ہی ہے, اب دیکھ لیجئے, سیچویشن ایسی ہو چکی ہے کہ وہ بالکل بھی کنٹرول نہیں کر پارہے ہیں, اور ہمارے ملک میں تو ماشاء اللہ ہے, ہماری گورنمنٹ کے پاس علاج کے نام پر بالکنی میں کھڑے ہوکر تالی بجانے کے سوا کچھ نہیں ہے,  یہاں بہت سارے اسٹیٹ میں ایسی شکایتیں درج کی گئی ہیں کہ جب لوگ چیک اپ کے لئے جاتے ہیں, تو انہیں یہ کہہ کر بھگا دیا جاتا ہے کہ جب طبیعت زیادہ خراب ہوجائے گی تب آنا, اور بہت ساری جگہوں پر تو چیک اپ کے لئے ضروری بھی نہیں ہیں, یہاں لوگ انفیکٹیڈ ہو جائیں گے, اور انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا,
 اس لئے بہتر ہے کہ آپ اپنی احتیاط آپ کریں, پبلک پلیسیز پر جانے اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ میں سفر کرنے سے اجتناب کریں, اور اسی طرح بھیڑ وغیرہ سے بھی بچیں, اگر آپ ان شہروں میں ہیں جہاں کرونا وائرس کے کیسیز درج ہوئے ہیں, جیسے کیرلا کا ایرناکلم جہاں تقریبا چالیس کیسز درج کئے گئے ہیں, تو ایسی جگہوں میں مسجدوں میں بھی جانے سے احتیاط کریں, نماز مسجد میں ضروری نہیں ہے, بہت سارے وجوہات کی بنیاد پر ہم اپنے کمروں میں یا گھروں پر ہی نماز پڑھ لیتے ہیں, تو جب حالات اس طرح کے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ مسجد ضروری ہی ہے کیونکہ پھر سوشل ڈِسٹینسگ کا کوئی مطلب نہیں نکل پائے گا, آپ کو ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ دار انسان بھی بننا پڑے گا, اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے.
اللھم احفظنا من كل بلاء الدنيا.
.
عالمی صحت ادارے کی مانیں تو کورونا روئے زمین کی خطرناک وباؤں میں ایک خطرناک وبا ہے لیکن ہم میں سے بہت اس وبا کا مذاق بنا رہے ہیں یا اسے ہلکے میں لے رہے ہیں، میری ان تمام حضرات سے درخواست ہے کہ ایک مرتبہ اپنے ارد گرد کے ہسپتالوں کی حالت دیکھ لیں اور سوچیں کہ خدا نخواستہ اگر یہ وبا چین و ایران کی طرح ہمارے یہاں پھیلنے لگے تو کیا ہماری سرکار اس لائق ہے اور اسکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ  ایمرجینسی میں آئے کورونا متاثرین مریضوں کا علاج کر سکے؟؟؟
اکنامکس ٹائمس کی 18 مارچ 2020 کی خبر کے مطابق 2 کروڑ کی آبادی والے شہر ممبئی میں کورونا ٹیسٹ کے لئے صرف ایک ہاسپٹل ہے پورے مہاراشٹر میں صرف دو اور 130 کروڑ آبادی والے پورے بھارت میں صرف 52 سینٹر ہیں.
بہار جیسی بچھڑی اور کثیر آبادی والی ریاست میں صرف ایک سینٹر ہے
صرف کرناٹک میں کورونا ٹیسٹ کے لئے پانچ
راجستھان میں چار
اتر پردیش اور کیرالا میں تین تین اور بقیہ ریاستوں میں صرف دو یا ایک ایک سینٹر ہیں.
اسی لئے سرکار پر بالکل اعتماد نہ کرتے ہوے اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کی ذمداری خود کریں اور کورونا یا ان جیسی کسی بھی ناگہانی آفت سے بچنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں
گھر کے راشن کا تھوڑا زائد سٹاک جمع کر لیں
اپنے پڑوسیوں اور رشتداروں میں اس تعلق سے بیداری لائیں، دعاؤں کا اہتمام کریں اور طبی ماہرین کی صلاحوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں.، چند لوگوں کی جذباتی تقریروں اور تحریروں سے متاثر نہ ہوں!، اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے!!
احتیاط بہت لازمی ہوچکی ہے۔ 
.


میں آپ کو بتاؤں اصل خطرہ کیا ہے؟  اصل خطرہ یہ ہے مرض جب بگڑتا ہے تو سوائے وینٹی لیٹر کے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا اور وینٹی لیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔ اب مجھے بتائیں ہندوستان کتنے وینٹی لیٹرس ہیں اور کتنے کرونا ٹیسٹنگ کٹس ہیں، اس لیے اسکول بند کیے، کالج یونیورسٹی بند اور مارکیٹیں بھی بند ہونے والی ہیں 
یہ سب مذاق نہیں ہے،  یہ ساری دنیا پاگل نہیں ہے جو اپنے کاروبار سمیٹ کر بیٹھ گئی ہے،  آپ اللہ توکل کریں لیکن اپنے انتظامات کرنے کے بعد۔۔ یہ فتویٰ بازی یا فیس بک پر میمز بنانے اور ٹویٹر پر مذاق اڑانے کا نہیں ایک قوم بن کر اس بحران سے نبٹنے کا ہے ۔۔ یہ وبا ہے،  یہ تیسری عالمی جنگ کے درجے کی ایمرجنسی ہے،  اسے سمجھیں اور اپنا کھلنڈرا پن ایک طرف رکھ کر پوری قوم سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔۔
تنگی تو یقیناً ہوگی،  غذائی قلت اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑی ہے۔۔ ایسے حالات میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں خوراک کے معاملے میں محتاط ہونا ہے،  فضول ضیاع کو روکیں۔۔ فالتو کی دعوتیں بند کردیں، فوڈ کا بحران اس وقت دوسرا بڑا چیلنج ہے وینٹی لیٹر کے بعد ۔۔ یاد رکھیں حکومت تنہا اس معاملے سے نہیں نبٹ پائے گی ۔۔ آپ کو،  مجھے ہم سب کو مل کر ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔۔۔
باقی آپ سب کی مرضی ۔۔ وما علینا الاالبلاغ
کورونا تمہیں مارنے نہیں جگانے آیا ہے، تمہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے افیم نے مدھوش و مغرور کر رکھا تھا کہ کورونا نے جھنجھوڑ کر جگا دیا اور بتا دیا کہ میرا حجم دیکھ اور میری تباھی دیکھ، اور میرے خالق کی عظمت دیکھو اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن وہ اپنے ہاتھوں تمہیں تباہ کرنے پر تل گیا ۔ یہ وارننگ بلا تفریق ہر ملک اور ہر مذھب یعنی پوری انسانیت کے لئے ہے ۔ 
اب آخری بات یہ عرض کرنا ہے کہ، احتیاطی تدبیر اپنانا حکمت ہے خوف اور بزدلی نہیں۔۔۔ 
بقلم خود : محمد شعیب اکمل
.
طلبۂ مدارس سے دردمندانہ درخواست
غلام رسول قاسمی 
موجودہ حالات کے پیش نظر پورے ملک کی ٹرینیں اور بسیں بند ہیں، دوسری طرف نیپال کی سرحد کے ساتھ ساتھ ملک کی اکثر ریاستی (صوبائی) سرحدیں آمد و رفت کے لیے بند کر دی گئیں ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ راستے میں پھنسے ہوئے ہیں، مدارس کی تعطیل کا اعلان ہوتے ہی دور دراز کے جو طلبۂ مدارس گھروں کو نکل چکے ہیں وہ بھی ریلوے اسٹیشنز پر رکے ہوئے، اسٹیشنوں سے باہر ہوٹلیں بند ہیں، بہت سے طلبہ آدھے رستے میں پھنسے ہوئے ہیں. اس لیے جن مدارس کی تعطیل
غلام رسول قاسمی
نوٹ: اس تحریر کا اشتراک کریں تاکہ سب طلبہ واقف ہو سکے. 
=======
واذا جاءھم امر من الامن اوالخوف اذاعوا بہ
سورہ نساء

اور جہاں انھیں امن کی یاخوف کی کوئی خبر ملی اسے پھیلانا شروع کردیا

اس ایت میں ان لوگوں کے لئے وارننگ ہے جو کسی خبر کی تحقیق کئے بغیر اس کو پھیلانے لگتے ہیں۔ 
یہ کام نبی کے زمانے میں منافقین کیا کرتے تھے
گویا یہ حرکت منافقین کی ہے

نکات۔ 
غور فرمائیں۔ یہاں امن کی خبر کو۔ خوف کی خبر پر مقدم کیا گیا ہے
نکتہ یہ ملا۔ التسرع فی خبر البشائر اخطر منہ فی المخاطر

بلا تحقیق اچھی خبر  پھیلانے میں جلدی کرنا بری خبر  پھیلانے میں جلدی کرنے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
کیونکہ لوگ مطمئن ہوکر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے غافل ہو جاتے ہیں اور مصیبت میں پھنس جاتے ہیں

دوسرا نکتہ یہ ملا۔ کہ جب بلا تحقیق خبر پھیلانا منافقین کی صفت ہے تو ان کا کیا حال ہوگا جو ایسی خبر گھڑتے ہیں

تیسرا نکتہ۔ بعض میڈیا اپنے اسٹیج سےایسی خبریں دیتا ہے جو حقیقت وانصاف سے ہٹی ہوئی ہوتی ہیں۔تو ان کی خبروں کو ان کی فکر کے چشمے سے مت دیکھو بلکہ قرانی دور بین سے دیکھو
فتنے کے موقع پر زبان تلوار کے وار کی طرح ہے اور اس موقع پر ایک مومن کا رویہ زبان کو قابو میں رکھنا ہے اور معاملے کوعلماء اور ذمہ دار اشخاص کے سپرد کر دینا ہے
=========
اُف ، یہ اندھ وشواس !

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

       شام پانچ بجتے ہی غُل مچنے لگا _ تالیاں پیٹی جانے لگیں _ تھالیوں کی آوازیں کھنکنے لگیں _  لوگ اپنے گھروں کے باہر سڑکوں پر اور گھروں کے اندر صحنوں ، برامدوں اور بالکنیوں وغیرہ میں کھڑے ہوکر شور کرنے لگے ، اس لیے کہ ملک کے وزیر اعظم نے کورونا وائرس کی خطرناکی سے نمٹنے کے لئے ایسا کرنے کا مشورہ دیا تھا _ ملک کا میڈیا ان مناظر کو عام کرنے لگا اور سوشل میڈیا پر اس کی تصویریں وائرل کی جانے لگیں _ ایسا کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس طرح وہ دراصل جگ ہنسائی کا سامان فراہم کررہے ہیں _ سائنسی دور میں ایسے غیر سائنسی عمل کا مظاہرہ پوری ڈھٹائی اور بے باکی سے کیا جائے گا _ اُف خدایا ! اتنی بد عقیدگی ! اتنا اندھ وشواس !!

         دو روز قبل جب یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کرونا وائرس کے قہر کے تدارک کے لیے قوم سے خطاب کرنے والے ہیں تو امید بندھی تھی کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات کا اعلان

           اس عمل کی مختلف توجیہات کی جا رہی ہیں _ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اس مہلک مرض پر قابو پانے کی جدوجہد کرنے والے ڈاکٹروں ، طبی عملہ اور انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک علامت ہے _ بعض لوگ یہ سائنسی نکتہ نکال رہے ہیں کہ اجتماعی آوازوں سے جو وائبریشن پیدا ہوگا وہ اس مرض کو محدود کرنے میں معاون ہوگا _ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کی جڑ اس میتھالوجی میں ہے جس کے مطابق شور و غل کرنا پوجا و پرستش قرار پاتا ہے ، جس میں دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے گھنٹے بجائے ، تالی پیٹی اور سیٹی بجائی جاتی ہے _

    اہلِ عرب اسی طرح کی بد اعتقادیوں کا شکار تھے _ قرآن مجید نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌ (الانفال :35) 
 "بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں _"

        یہ صورت حال اہل ایمان سے دو کاموں کا تقاضا کرتی ہے : ایک یہ کہ وہ شکر ادا کریں کہ ان کے دین نے انھیں اس طرح کی بداعتقادیوں اور خرافاتی اعمال سے محفوظ رکھا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے برادرانِ وطن کو اس طرح کے اندھ وشواس سے نکالنے کی کوشش کریں اور ان کے سامنے اسلام کی سیدھی سچّی اور فطری تعلیمات پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں

کرونا وائیرس
( جاوید چوہدری)

وکٹر اٹلی کے شہر میلان سے تعلق رکھتا ہے، گارمنٹس فیکٹریوں کو کپڑا سپلائی کرتا ہے، عمر 62 سال ہے اور یہ مضافات میں چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہے، وکٹر دو ماہ شدید بیمار رہا، اسے بخار بھی تھا، نزلہ بھی، زکام بھی اور اس کے جسم میں بھی درد ہوتا تھا لیکن یہ بیماری کے باوجود کام کرتا رہا۔

چالیس سال سے ایکسرسائز کا عادی ہے، بخار کے عالم میں بھی جاگنگ اور سوئمنگ کرتا رہا، بخار ٹھیک ہو گیا اور یہ روٹین کے مطابق زندگی گزارنے لگا، دسمبر 2019میں چین سے کرونا وائرس کی اطلاعات آنے لگیں، دنیا وائرس کی طرف متوجہ ہوگئی، یورپ میں تحقیقات شروع ہوئیں تو پتا چلا چین کے بعد اٹلی میں سب سے زیادہ مریض سامنے آ رہے ہیں۔

اطالوی حکومت نے مزید تحقیقات کیں، پتا چلا کرونا وائرس کے زیادہ تر مریضوں کا تعلق میلان اور وینس کے علاقوں سے ہے، حکومت نے فوراً خطرے کا الارم بجا دیا، آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کرونا اٹلی کے صوبے گوریزیاکے شہر ماریانو ڈیل فرولی کاایک چھوٹاسا گاؤں ہے، کرونا کا مطلب تاج (کراؤن) ہوتا ہے، یورپ میں 1918 میں انفلوئنزا کی خوف ناک وباء پھوٹی تھی، پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے۔

یورپ کے ساتھ امریکا میں بھی 6 لاکھ 75 ہزارلوگ مارے گئے تھے، میڈیکل

ہمیں نزلہ بھی ہوتا تھا، گلے میں سوزش بھی ہوتی تھی اور بخار بھی ہوتا تھا لیکن یہ چند دن رہ کر ٹھیک ہو جاتا تھا چناں چہ میڈیکل سائنس نے کرونا کو غیر مضر قرار دے دیا لیکن پھر چین کے شہر ووہان میں دسمبر 2019میں ایک نیا وائرس سامنے آیا، یہ وائرس کرونا کی ایڈوانس قسم تھی چناں چہ سائنس دانوں نے اسے نوول کرونا وائرس کا نام دے دیا، یہ ہلاکت خیز بھی تھا اور تباہ کن بھی، کرونا وائرس اٹلی سے چین گیا تھا یا پھر یہ چین سے اٹلی آیا یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا تاہم مارچ 2020 تک یہ حقیقت ضرور سامنے آ گئی کرونا وائرس کا مرکز چین نہیں اٹلی ہے اور یہ اٹلی سے تیزی سے یورپ اور سینٹرل ایشیا میں پھیل رہا ہے۔

یہ اٹلی کے شمالی علاقوں کے لوگوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے،

یہ انڈسٹری دو ماہ میں زمین بوس ہو گئی، ایئر لائینز دیوالیہ ہو رہی ہیں، ایئرپورٹس پر سناٹا ہے،

میلان کے ڈاکٹروں نے عوام کا معائنہ شروع کیا تو پتا چلا وکٹر اپنے پورے گاؤں میں کرونا کا پہلا شکار تھا، یہ دو ماہ شدید بیمار رہا، اس کے خون میں اس وقت بھی کرونا کے وائرس موجود ہیں لیکن یہ اس کے باوجود موت سے بھی بچ گیا اور صحت یاب بھی ہو گیا، کیوں اور کیسے؟ ڈاکٹروں نے اسے سینٹرل اسپتال میں شفٹ کیا اور اس کے انٹرویوز شروع کر دیے، یہ انٹرویوز ہفتہ بھر جاری رہے۔

ان انٹرویوز میں ملک کے تمام اہم وائرس ایکسپرٹس نے حصہ لیا، انٹرویو کی فائنڈنگ بڑی دل چسپ تھی، وکٹر نے ایکسپرٹس کو بتایا "میں کیوں کہ اخبارات نہیں پڑھتا تھا، ٹیلی ویژن نہیں دیکھتا تھا اور میں سوشل میڈیا پر بھی ایکٹو نہیں تھا چناں چہ مجھے پتا ہی نہیں چلا دنیا میں کرونا وائرس آ چکا ہے اور میں اس کا شکار ہو چکا ہوں لہٰذا میں اسے معمول کی کھانسی اور بخار سمجھتا رہا  اور صحت یاب ہو گیا" یہ انکشاف حیران کن تھا، ڈاکٹروں نے مزید تحقیق کی تو پتا چلا وہ تمام مریض جو ٹیلی ویژن نہیں دیکھتے تھے یا وہ سوشل میڈیا پر ایکٹو نہیں تھے وہ کرونا سے صاف بچ گئے۔

وہ جلد صحت یاب ہو گئے جب کہ میڈیا کے ساتھ چمٹے رہنے والے لوگ کرونا کے جلد شکار بھی ہوئے اور ان میں فوتگی کی شرح بھی زیادہ تھی، یہ کرونا وائرس کی پہلی فائنڈنگ تھی، دوسری فائنڈنگ اس سے بھی زیادہ دل چسپ تھی، دنیا میں اس وقت 103 ملک

نوجوان، خواتین اور بچے اس سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ بھی پتا چلا مارچ میں جوں جوں موسم گرم ہو رہا ہے کرونا کا وائرس بھی کم ہو رہا ہے چناں چہ میڈیکل سائنس دانوں کا خیال ہے کرونا 15 مارچ کے بعد مرنا شروع ہو جائے گا اور اپریل تک صورت حال کنٹرول میں آ جائے گی لیکن کرونا کے ختم ہونے سے پہلے پوری دنیا کا معاشی دیوالیہ نکل چکا ہو گا، بلوم برگ کے مطابق یہ وائرس گلوبل اکانومی کو 2.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچا سکتا ہے، دنیا کی تمام بڑی اسٹاک ایکس چینجز زمین بوس ہو جائیں گی، ایئر لائینز اور امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ختم ہو چکا ہو گا اور پٹرول کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی آچکی ہو گی چناں چہ کرونا ختم ہو یا نہ ہو لیکن سیاحتی، معاشرتی اور معاشی سرگرمیاں ضرور دم توڑ جائیں گی اور دنیا میں دیوالیہ لوگوں کی پوری کلاس پیدا ہو جائے گی اور یہ لوگ "کرونا" کہلائیں گے۔

ہم پاکستانیوں کو اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے، ہم اب اس طرف آتے ہیں، پہلی خوش خبری وزیراعظم نے توقیر شاہ کو سیکریٹری صحت لگا دیا، یہ زبردست فیصلہ ہے، توقیر شاہ آٹھ سال میاں شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہے ہیں، یہ پنجاب حکومت کی ریڑھ کی ہڈی تھے، ایمان دار اور کارآمد افسر ہیں، وزیراعظم نے انھیں کرونا کنٹرول کی ذمے داری دے کر بہت اچھا فیصلہ کیا، یہ ان شاء اللہ چند دن میں صورت حال کنٹرول کر لیں گے، دوسرا پاکستان میں کرونا کے دنیا میں سب سے کم مریض سامنے آئے ہیں چناں چہ ہم محفوظ ہیں، ہم 15 مارچ کے بعد مزید محفوظ ہو جائیں گے اور ان شاء اللہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ہم خطرے سے مکمل باہر ہوں گے۔

تیسرا کرونا کی خوف ناک یلغار جب بھی ہو گی یہ اٹلی سے پاکستان پر ہوگی، اٹلی بالخصوص میلان میں ہزاروں پاکستانی خاندان ہیں، میری ان سے درخواست ہے یہ اگر واقعی اپنے خاندان اور ملک سے محبت کرتے ہیں تو یہ اپریل تک خود بھی پاکستان نہ آئیں اور اپنے کسی عزیز اور رشتے دار کو بھی نہ بھجوائیں، یہ ان کا احسان عظیم ہو گا، چوتھا آپ احتیاط ضرور کریں لیکن پینک نہ ہوں، پاکستان مکمل طور پر محفوظ ہے، آپ اگر گرم ملکوں میں سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ ضرور کریں لیکن پہلے خود کو چیک کر لیں، آپ کو اگر نزلہ، زکام یا شدید بخار ہے تو آپ اپنا ٹیسٹ کرا لیں۔

آپ اگر کرونا سے محفوظ ہیں تو آپ سفر پر روانہ ہو جائیں ورنہ گھر سے باہر نہ نکلیں، پانچ سوشل میڈیا سے دور رہیں، سوشل میڈیا کی نوے فیصد خبریں جعلی ہیں، ٹیلی ویژن بھی ضرورت سے زیادہ خوف پھیلا رہا ہے، آپ یقین کریں آپ اگر چند دن کے لیے فیس بک، ٹویٹر اور

جدید تر اس سے پرانی