جنگ آزادی کے ہیرو

قارئین کرام میں سے جن حضرات کو 48۔ 1947ء کے واقعات یاد ہوں گے ، ان کے حافظہ میں یہ بات بھی ہوگی کہ ملک کو آزادی ملی اور ہندوستان و پاکستان میں آزادحکومتیں قائم ہو جانے کے ساتھ ہی دونوں طرف فسادات کی وبا پھوٹ پڑی تھی ، وہاں بے قصور ہندو اور سکھ ، اور یہاں بے گناہ مسلمان اس بیدردی سے کانٹے اور مارے جاتے تھے جس کی یاد اتنی مدت گذر جانے کے بعد آج بھی روح انسانیت کولرزہ براندام کر دیتی ہے ۔ معلوم ہوتا تھا کہ انسانوں میں سے روح آدمیت بالکل نکل گئی ہے اور ان کے دلوں میں بھیڑیوں ، چیتوں ، سانپوں اور بچھوں کی روحیں آگئی ہیں عورتوں ، بچوں اور معصوم بچوں تک کو بے دریغ قتل کیا جاتا تھا چلتی ٹرینوں میں سے آدمیوں کوڈھیلوں اور پتھروں کی طرح باہر پھینک دیا جاتا تھا ۔ ان حالات میں کچھ مدت تو ایسی گذری کہ شمالی ہند کے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کے لئے ریل کا سفر بالکل بند ہی رہا ، اس کے بعد حکومت کی طرف سے ہی انتظام کیا گیا کہ ہر ٹرین میں ایک دو ڈبے مسلمانوں کے لئے مخصوص کر دیے جاتے تھے ، ان میں صرف مسلمان سوار ہوتے ، اور ان کی حفاظت کے لئے صلح پولیس کا ایک دستہ ساتھ ہوتا تھا ۔ اسی زمانہ کی بات ہے میں نے لکھنؤ سے سہارن پور اور دیوبند جانے کا ارادہ کیا ، اس وقت کے دستور کے مطابق لکھو اسٹیشن پر مجھے اسی مخصوس ڈبہ میں سوار ہونا پڑا ، اخبارات اور دوسرے ذرائع سے مجھے یہ بات معلوم تو تھی کہ مسلمان مسافروں کے لئے اس طرح کا خاص انتظام ہے اور ان کو ایک مخصوس ڈے میں پولیس کی حفاظت میں بیٹھنا پڑتا ہے لیکن اس کے تجربہ کا یہ پہلا موقع تھا ۔ تھوڑی دیر بعدٹرین چل پڑی ۔ ڈبہ میں مسلمان مسافر اس کی گنجائش سے بہت زیادہ تھے اس لئے وہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ، میں خاموش بیٹھا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ جس آزادی کی جد و جہد میں ہمارا بھی حصہ تھا اور جس کی مد میں ہمارے بزرگوں 

نے بے حساب قربانیاں دی تھیں ، اس کے حاصل ہونے کے بعد آج ہم اس حال میں ہیں کہ سہارن پور تک کا سفر بھی اس بند پنجڑے میں اور مسلح پولیس کی حفاظت میں کرنے پرمجبور ہیں ۔ قدرتی طور پر مجھے اس احساس سے بڑی تکلیف تھی ۔ اور ڈبے کے دوسرے مسلمان جس قسم کی سادہ لوحی کی باتیں ان حالات ہی کے تعلق اس وقت آپس میں کر رہے تھے ان میں سن سن کر میری اس تکلیف میں اور اضافہ ہو رہا تھا ، ان کی ان باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ نہ تو ان بیچاروں کو ان حالات کے دنیوی اور ظاہری اسباب کا کچھ پتہ ہے اور نہ ان سے نپٹنے اور نجات پانے کی تدابیر اور جد و جہد کی طرف ان کی کوئی توجہ ہے ، اور نہ اللہ سے اپنا رابطہ کرنے اور اس کی مدد حاصل کرنے کی کوئی فکر ہے ۔ کچھ دیر بعد ہردوئی اسٹیشن آیا ، میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے نیچے پلیٹ فارم پر اترنے لگا ، یہ سارے مسلمان بھائی مجھے سے اصرار کرنے لگے کہ میں نیچے نہ اتروں ، انھیں خطرہ تھا کہ شاید میں بیچ قدم رکھتے ہی مارڈالا جاؤں گا ۔ میں نے انھیں ہر چند بجھانے کی کوشش کی لیکن میں کسی طرح انھیں نہیں سمجھا سکا ۔ وہ اس پر مصر رہے کہ میں باہر قدم نہ رکھوں ، بلکہ ان میں سے بعض کرم فرما تو غصه گرمی کا اظہار کرنے لگے ۔ میں نے ان کے اس خوف اور اصرار کو دیکھ کر گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر ہی نماز پڑھنا ضروری سمجھا ، اور بالآخر میں اتر گیا ، پانی کا دور تھا ، میں وہاں جا کر پانی نایا ، اطمینان سے وضو کیا اور پلیٹ فارم پرمصلی بچھا کر نماز شروع کر دی ، جیسے ہی نماز سے فارغ ہوا ، گاڑی چھوٹے گی اور میں اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا ۔ اب میں نے ان مسافروں سے کہا کہ میں ڈبہ کے اندر بھی نماز پڑھ سکتا تھا لیکن صرف آپ لوگوں کا یہ خوف دور کرنے کے لئے میں نے نیچے اتر کر نماز پڑھنا ضروری سمجھا ، آپ نے دیکھ لیا کہ میں نے پلیٹ فارم پرنماز پڑھی اور دور جا کرئیل سے پانی بھی لایا اور میرا بال بھی بیکا نہیں ہوا ، آپ کو اگر اس ملک میں رہنا ہے تو دلوں سے خوف کو نکال کر رہے ورنہ کی ایسی دنیامیں چلے جائے جہاں موت آپ کے پاس نہ آسکے ۔ اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ اللہ کے بندو ! دنیا میں قوموں پرسخت سے سخت وقت آتے ہیں-

لیکن اگر ان میں حوصلہ ہو اور وہ ان کے مقابلے میں سوچ سمجھ کر یخ رویہ اختیارکریں تو حالات بدل جاتے ہیں ۔ آپ لوگ حالات کو بجھنے کی کوشش کیئے ، ان بوتونوں اور غلطیوں کو مجھے جو پچھلے دنوں میں آپ نے کہیں اور آپ کے ناعاقبت اندیش لیڈروں نے آپ سے کرائیں اور آئندہ کے لئے یا طرزعمل اختیار کیے اور اس سب سے پہلے ہے مسلمان بن کر الله تعالی سے اپنے تعلق کو کیے ۔ اس کے بغیر اللہ تعالی کی مدد ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی ۔ بہر حال یہ باتیں اس وقت میں جس طرح کہہ سکتا تھا اور جس طرح اللہ تعالی نے کہلوائیں میں نے ان لوگوں سے کہیں لیکن میں نہیں سمجھ سکا کہ میری ان باتوں سے انھوں نے کتنا اثر لیا ۔ اس کے بعد میں نے طے کر لیا کہ اب ٹرین جب اگلے اسٹیشن پر کے گی تو میں مغرب کی نماز بھی نے اتر کر بھی پڑھوں گا ۔ اور حفاظتی پولیس والے ڈبہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے عام ڈبہ میں بیٹھنے کی کوشش کروں گا ۔ میں محسوس کرتا تھا کہ پولیس کی رائفلوں کی حفاظت میں اس طرح ڈنہ میں بند ہو کر سفر کرنا انتہائی ذلت کی بات ہے ، اور اگر خدانخواستہ یہ رواج قائم رہ گیا تو مسلمان اس ملک میں ہمیشہ کے لئے مرعوب اور دہشت زدہ ہو کر رہ جائیں گے ۔ بہر حال اپنے اس احساس اور خیال کے مطابق میں نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا ۔ اب ٹرین شاہجہاں پور کے اسٹیشن پر کی ۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا ، میں اپنے منصوبہ کے مطابق نیچے اترا اور پلیٹ فارم پر مصلی بچھا کر نماز شروع کردی ، مجھے اندازہ تھا کہ پولیس کے سپاہی اپنی ذمہ داری محسوس کر کے کسی دوسرے ڈتہ میں مجھے سوا نہیں ہونے دیں گے ، اس لئے میں نے طے کر لیا کہ ٹرین چھو ٹے تک نماز پڑھتا رہوں گا اور جب ٹرین چل دے گی تب دوڑ کر کسی دوسرے ڈبہ میں بیٹھ جاؤں گا ، چنانچہ میں نے ایسائی کیا ٹرین جب تک چھوٹ نہیں گئی میں نے نمازم نہیں کی ، اور جب وہ چل دی تو ماتم کر کے میں تیزی سے دوڑ کر ایک دوسرے ڈبہ میں بیٹھ گیا ، پارے محافل سپاہی چیختے چلاتے رہے لیکن میں نے سنی ان سنی کر دی ۔ ایک مسلمان بلکہ مولوی صورت داڑھی والے مسلمان کو اس طرح عام ڈبہ میں گھستا رکھ کر اس وقت ڈبہ کے سب مسافروں کو حیرت ہوئی ، سب میری طرف دیکھنے لگے میں نے محسوس کیا کہ بعض بھلے آدمی اور شریف ہندو مجھے اس نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ بھول بج کا مسلمان یہاں کیسے آگیا معلوم نہیں اب اس کے ساتھ کوئی کیا کرے گا ، میں نے ان کی نگاہوں کو جھ کے فورا اطمینان سے کہا ۔ اطمینان رکھنے میں بھول او غلطی سے نہیں آیا ہوں ، میں مسلمانوں والے ڈبہ ہی میں تھا ، بلکہ میرا سامان اب بھی وہیں ہے لیکن میرے دل نے کہا کہ یہ بہت غلط ہے ، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ساری ٹرین میں انسان نہیں درندے ہیں ، میرے دل نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ، اور میں اس بات کو غلط ثابت کرنے ہی کے لئے آیا ہوں ، میں سب کو اپنا جینا آدی اور شراب انسان سمجھتا ہوں ، دوسری بات یہ ہے کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ میرے پیدا کرنے والے نے جس وقت تک کے لئے میرا دنیا میں زندہ ربنا لے کر دیا ہے اس وقت تک کوئی میری زندگی ختم نہیں کرسکتا اور جس گھڑی کے لئے میری موت لکھ دی ہے اس گھڑی مجھے کوئی موت سے بچ نہیں سکتا ، اس لئے خوب سوچ مجھکر اور جان بوجھ کر آیا ہوں ۔ میں نے یہ بات ڈبہ میں داخل ہونے کے بعد کھڑے کھڑے کہی تھی ، بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ میری نگاه میں ھی بھی نہیں لیکن میری اس بات کا سب پراتنا غیر معمولی اثر پڑا کہ قریب قریب ہرشخص مجھے اپنے پاک بٹھانے کے لئے جگہ نکالنے لگا ، ان میں سے میں نے ایک بڑے میاں کو تری دی اور ان کے برابر بیٹھ گیا ۔ اس کے بعد ان میں سے ہرشخص اس وقت کی فسادی فضا اور انسانیت کشی کے خلاف اپنے اپنے انداز میں نفرت کا اظہار کرنے لگا تقریبا ایک گھنٹے کے بعد بریلی کا اسٹیشن آیا ، شاہجہاں پور کے اسٹیشن پر محافظ پولیس والوں نے دیکھ لیا تھا کہ میں کس ڈبہ میں سوار ہوا ، بریلی اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین کی ، ان میں کے ایک صاحب گھبرائے ہوئے اور ساتھ ہی غصہ میں بھرے ہوئے آئے ۔ انھوں نے کہا آپ نے ہمیں پریشان کر دیا ، ہماری ڈیوٹی ہے اور ہم آپ کے ذمہ دار ہیں ، میں نے ان سے کہا کہ دیکھ لینے میں بالکل

خیریت سے ہوں اور اطمینان رکھئے خیریت سے رہوں گا ۔ اس کے باوجود انھوں نے چاہا کہ میں اس ڈبہ میں چل کر بیٹھوں بلین ڈبہ کے سارے ہندوسکھ مسافروں نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں جائیں گے ، بلکہ ان سپاہی صاحب کے ساتھ جا کر ایک صاحب میرا سامان بھی وہاں سے اٹھا لائے ۔ اس تجربے کے بعد میرابی چاہتا تھا کہ ہر اسٹیشن پر ڈبہ بالوں اور اسی طرح نئے ڈر ہے میں سوار ہوں لیکن اس ڈبہ کے مسافروں نے اصرار کیا کہ میں سہارنپور تک انھیں کے ساتھ رہوں ، ان کے خلوص ومحبت کا احترام کرتے ہوئے نیز بی خیال کر کے کہ اب مسافروں کے سونے کا وقت آ گیا ہے میں نے بھی فیصلہ کر لیا اور رات کے تین بجے کے قریب سہارن پوری جا کر اس ڈبہ سے اترا ۔ پنجاب میں سے رات کے تین بجے کے قریب سہارن پور کے اسٹیشن پر اتر کے میں منبج تک وہیں ویٹنگ روم میں رہا جس ٹرین سے مجھے دیو نہ جاتا تھاو دین کو پنجاب سے آ کر دی جاتی تھی ، اپنے وقت پر وہ آگئی ، اس زمانہ میں جوٹرینیں پنجاب کی طرف سے آئی تھیں ان میں زیادہ تر پاکستان کے مغربی صوبوں فرنٹیر ، سندھ ، اور مغربی پنجاب سے نکلے ہوئے ہندو اور سکھ ہوتے تھے ، اور بہت سے ان میں ایسے بھی ہوتے تھے جن کے عزیز ان کے سامنے ان کیے گئے تھے ، بلکہ خاصی تعداد زخمیوں کی بھی ہوتی تھی ۔ اس لئے ان کے والی مسلمانوں کے خلاف غصہ اور نفرت سے بھرے ہوتے تھے ، اس وجہ سے انٹر بینوں میں اس کی زیادہ پابندی تھی کہ مسلمان خاص اسی ڈبہ میں سفرکر ہیں جو ان کے لئے مخصوص ہوتا تھا اور جس کے ساتھ مسلح پولیس کا محافظ دستہ ہوتا تھا ، میں اس صورت حال سے واقف تھا ، اس کے باوجود سوچ سمجھ کر میں نے یہ طے کیا کہ یہاں بھی کسی عام ڈ ی میں بیٹھے کی کوشش کروں گا ۔ مجھے یاد ہے کہ فیصلہ کے لئے اپنے دل کو بہت کچھ بجھانا پڑا تھا ، اور قرآن مجید کی بہت سی آیتیں میں نے اس کو یاد دل کی تھیں ۔ بہر حال میں نے طے کیا کہ جب ٹرین چل پڑے گی تو میں دوڑ کر کسی عام ڈبہ میں سوار ہو جاؤں گا ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا ، ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے ٹین چھوٹے کا انتظار کرتا رہا ۔ جیسے ہی آخری سیٹی دے کرٹرین روانہ ہوئی میں دوڑ کر ایک ڈبہ میں گھس کیا ، اس ڈبہ میں سخت رش تھا اس لئے مجھے کھڑا ہو جانا پڑا ، میں نے محسوس کیا کہ کچھ مسافروں نے تو مجھے صرف حیرت کی نگاہ سے دیکھا اور کچھ نے سخت غصہ بھری نگاہوں سے ۔ اس ڈبہ میں ز یا دہ تر پاکستان سے آنے والے ہندو اور سکھ ہی تھے ، بلکہ ہند و ز یادہ تھے سکھ تو صرف چار پانچ ہی ہوں گے ۔ دو ہی چار منٹ گزرے ہوں گے کہ اوپر کی سیٹ پر لیٹے ہوئے ایک شخص نے مجھے دیکھ کر چلانا شروع کیا کہ یہ مسلمان یہاں اس طرح پھرتے ہیں اور پاکستان میں ہمارے ساتھ یہ ہورہا ہے ۔ مجھے اس کے الفاظ اچھی طرح یاد نہیں ، مطلب یہی تھا ۔ زبان آدھی پنجابی اور آدھی اردو کی سی تھی ۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ایک بیچارہ زری ہندو تھا ، اس کے زم پرکئی جگہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ، اس کے اس فریادی نعروں نے اکثر مسافروں کو میرے خلاف مشتعل کردیا اور فضا ایسی بنادی کہ میں محسوس کرنے لگا کہ شاید میرے لئے وقت موعود آ گیا ، ڈبہ کی فضا جیسے ہی میرے خلاف مشتعل ہوئی اور بعض مسافروں نے میری طرف بڑھنا چاہا ، ادھیڑ عمر کے کچھ مسافروں نے جو مجھ سے قریب ہی ایک سیٹ کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے ، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کنارے میں بٹھا لیا اور اپنی کر پانوں پر ہاتھ رکھا کے بڑی زور کے ساتھ میری طرف بڑھنے والوں کو ڈانتا اور کہا خبردار ! اگرکسی نے ان پر ہاتھ اٹھایا تو ہم اس کی جان لے لیں گے اور اپنی جان دے دیں گے ۔تم میں ہمت ہوتو جا کر ان سے بدلہ لو جنھوں نے تمہیں ستایا ہے ، انھوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ۔ یہ اللہ کی قدرت کا عجیب وغریب کرشمہ تھا ، ورنہ اس وقت عام ہوا تھی اور یہی سنا اور سمجھا جاتا تھا کہ مسلم دشمنی میں اور مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی مارکاٹ میں سکھوں کا درجہ ہندوؤں سے بڑھا ہوا ہے ۔ بہرحال جب ان دوسکھ بھائیوں نے گرج کر یہ بات کہی اور مجھے اپنے بغل میں بٹھالیا ت جودو تین آدمی کسی بری نیت سے میری طرف بڑھنا چاہتے تھے آگے نہ بڑھ سکے ۔ اور تھوڑی دیر کے لئے ڈبہ میں سکوت کی کی فضا ہوئی ، اس وقت میں نے اوپر سیٹ پر لیٹے ہوئے اس زنی مسافر کو مخاطب کر کے کہا کہ میرے بھائی ! تم ستائے ہوئے ہوتمھیں بے قصور زخمی کیا گیا ہے ۔

تمہارا غصہ برحق ہے لیکن یہ سوچو کہ وہاں کے ظلم کا بدلہ یہاں کے مسلمانوں سے لیا جائے ، اور یہاں کے ظلم کا بدلہ وہاں کے بے قصور ہندوؤں اور سکھوں سے لیا جائے اور یہ شیطانی چکر اسی طرح چلتا رہے تو ہم سب کا اور دونوں ملکوں کا انجام کیا ہوگا ، اسی پاگل پن نے دونوں طرف کے لاکھوں گھر اجاڑ دیے ۔ اب ہمیں عقل آجانی چاہئے ۔ اس کے بعد میں نے عام مسافروں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں کسی بھول چوک سے اس ڈبہ میں نہیں آیا ، بلکہ جان بوجھ کے آیا ہوں اور اس یقین کے ساتھ آیا ہوں کہ میرے پیدا کرنے والے نے میری موت کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے ، اس سے پہلے کوئی مجھے مارنہیں سکتا اور اس کے آجانے پر کوئی مجھے موت سے بچ نہیں سکتا ۔ یہ میرا ایمان ہے ، اور آپ لوگ بھی شاید ایسا ہی سمجھتے ہوں گے ، پھر ان دونوں سکھ بھائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا ، نہ میں انھیں جانتا ہوں ، نہ یہ مجھے جانتے ہوں گے ، چونکہ میرا وقت ابھی نہیں آیا تھا اس لئے اللہ تعالی نے ان کو میری حمایت اور حفاظت کے لئے کھڑا کر دیا ۔ ڈبہ میں بادامی رنگ کے کھد رکا کر تاپہنے اور کھدر کی گاندھی کیپ اوڑھے ہوئے بابو بھی ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے ، میری گفتگو کے بعد انھوں نے بھی انتقام کے شیطانی چکر اور فسادات کے خلاف اچھے انداز میں کچھ باتیں کہیں ۔ غالبا کوئی لیڈر قسم کے آدمی تھے معلوم ہوتا تھا کہ ان کو تقریر کرنے کی عادت ہے لیکن ان صاحب نے اس آپریشن کی ہمت اس وقت کی جب ڈبہ کی فضا میں سکون پیدا ہوگیا ۔ ٹرین سہارن پور اور دیوبند کے درمیان کسی اسٹیشن پر نہیں رکتی تھی ، آدھے گھنٹہ میں دیوبند کا اسٹیشن آ گیا اور میں اتر گیا ۔ دیوبند سے دہلی دو تین دن دیو بند رہنے کے بعد میرا پروگرام والی جگہ جانے کا تھا ، مجھے اب یاد نہیں کہ دہلی تک کا سفرمیں

نے مسلمانوں والے خاص ڈے میں کیاتھایا کسی عام ڈبہ میں ۔ بہرحال اپنے پروگرام کے مطابق دیوبندے میں دہلی چلا گیا ۔ اس وقت تک دہلی میں مسلمان اپنے خاص علاقوں اور محلوں کے سوا دوسرے محلوں اور بازاروں میں آزادی سے نہیں چل پھر سکتے تھے ، مجھے اسٹیشن سے گلی قاسم جان جمعية العلماء کے دفتر میں جانا تھا ، میں نے اپنے دل میں طے کر لیا تھا کہ میں اسٹیشن سے سیدھے راستہ چاندنی چوک اور بلی ماران ہوتا ہواگلی قاسم جان تک پیدل ہی جاؤں گا ، میرا خیال تھا کہ اب حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ان بازاروں میں چلنا پھرنا چاہئے ، میں سمجھتا تھاکہ یہ بات اسی طرح کھلے گی کہ کچھ لوگ الله پر بھروسہ کر کے اور ہمت کر کے چلنا پھرنا شروع کردیں ، میں نے اسٹیشن سے باہرآ کر اپنے خیال کے مطابق گلی قاسم جان تک چلنے کے لئے ایک مزدور سے بات کی ، اور سامان اس کے سر پر رکھ کر چلنے لگا ۔ گھوڑا تانگے والے چند مسلمان اپنے تانگوں کے ساتھ اسٹیشن کے اڈے پر موجود تھے ، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے ؟ میں نے کہاگلی قاسم جان ۔ انھوں نے کہا ، تانگہ میں سوار ہو جائے ہم پہونچادیں گے ۔ میں نے کہا میں پیدل ہی جانا چاہتا ہوں ، وہ ہے کہ میں حالات سے ناواقف ہوں اور اسی نا واقفی کی وجہ سے پیدل جانے کا ارادہ کر رہا ہوں ، اس لئے از راہ ہمدردی انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ راستہ اس قابل نہیں ہے کہ کوئی مسلمان ادھر سے پیدل جائے ، میں نے ان کی ہمدردی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے کہا کہ مجھے یہ بات معلوم ہے مگر مجھے پیدل ہی جانا ہے ، انشاءالہ کچھ نہیں ہوگا ، ان بیچاروں نے سمجھا کہ یا تو میرے پاس کرایہ کے پیسے نہیں ہیں یا پرخرچ کرنانہیں چاہتا ، اس لئے ان میں سے ایک نے کہا تم پسیوں کا خیال نہ کرو جو دل میں آئے دے دینا لیکن خدا کے لئے تا نگہ میں بیٹھ جاؤ ۔ میں نے کہا میرے بھائی پیسوں کی بات نہیں ہے ، اللہ نے خوب پیسے دیئے ہیں اور خرچ بھی کرتا ہوں لیکن مجھے اس وقت پیدل ہی جانا ہے ۔ ان میں سے ایک بوڑھا تا نگہ والا جس کو میرے ساتھ واقعا پڑی ہمدردی تھی گرج کر بولا ، ارے ملا جی ! ہم جانتے ہیں ہم لوگ بڑے خسیس ہوتے ہیں تم سے پیسہ خرچ نہیں کیا جا تا تمایک پیسہ مت دیجیو ! آؤ میرے تانگہ میں بیٹھ جاؤ ، میں تمہیں پہونچادوں گا ۔ جب اس کے بعد بھی میں نے اس بیچارے کی بات نہیں مانی اور اس کی بات کا کوئی جواب نہ دے کر آگے بڑھنے لگا تو وہ خفا ہو کر بولاء اچھا جا جب تیری موت نے دعوت دیا ہے تو ہم کیا کریں ۔ میں نے اس بیچارے کی ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور مزدور کے سر پر سامان رکھ کر پیدل چل دیا ۔ چندفرلانگ کا یہ راستہ اللہ تعالی کی طرف توجہ کی جس کیفیت کے ساتھ طے کیا شاید ہی عمر میں بھی وہ کیفیت نصیب ہوئی ہو ، کمپنی باغ کی اندرونی سڑک سے نکل کے چاندنی چوک سے گزرا ، میں نے محسوس کیا کہ لوگوں نے میرے اس طرح گزرنے کو تب سے دیکھا لیکن نہ کوئی ناگوار بات میرے کانوں نے سنی ، کسی کی نگاہ بھی دیکھی ۔ بہر حال میں بلی ماران سے گزرتا ہو گلی قاسم جان جمعیت علماء کے دفتر پہونچ گیا ، دیلی میں مجھے دو تین دن قیام کر نا تھا ، جب میں نے واپسی کا ارادہ کیا تو سفر کے لئے وہ گا ڑی تجویز کیا جوصبح دہلی سے چلتی تھی ، اب پھر میں نے یہ طے کیا کہ اسٹیشن تک پیدل ہی جاؤں گا ، فجر کی نماز پڑھ کے سامان کے واسطے مزدور تلاش کرنے کے لئے میں باہر نکل گلی قاسم جان اور بلیماران میں اس وقت کوئی مزدور نہیں مل سکا اس لئے چاندنی چوک جانا پڑا ۔ وہاں پہونچ کر سرحدی پٹھانوں کا لباس شلوار اور میں پینے اور سر پر پٹھانوں والی پگڑی باندھے دو نوجوان نظر پڑے جن میں اس وقت چاندنی چوک میں دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ یہ پٹھان اس زمانہ میں دہلی میں کیوں اور چاندنی چوک میں کیسے کھڑے ہیں ، جہاں کوئی مسلمان قدم نہیں رکھتا لیکن ان سے بات کرنے کے بعد جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہ بیچارے ضلع پشاور کے کسی گاؤں کے رہنے والے مصیبت زدہ ہندو ہیں ، جو آٹھ دس دن پہلے ہی یہاں آئے ہیں ، اور بڑے پریشان حال ہیں کیمپ میں ان کو جو راشن ملتا ہے ، اس سے وہ ایک وقت بھی پیٹ بھی نہیں کر سکتے ، میں نے اس سے کہا کہ مجھے اسٹیشن جانا ہے گلی قاسم جان میں میرا سامان تھوڑا سا ہے ، اس کے لئے مجھے مزدور کی ضرورت ہے ، انھوں نے کہا چلے ہم پہونچادیں ، میں نے ان سے مزدوری طے کرانی چاہی ، انھوںنے کہا آپ جو چاہے دیدیں ، ہم کچھ نہیں کہیں گے ۔ میں نے کہا میرا سامان تھوڑا سا ہے ، مجھے بس ایک آدمی کی ضرورت ہے ، آپ دونوں میں سے کوئی ایک میرے ساتھ چلے ، انھوں نے کہا ، نابھائی ، ہم دونوں ساتھ ہی رہتے ہیں اس لئے ساتھ ہی چلیں گے ۔ میں نے کہا تمہاری مرضی ! میں انہیں لے کر جمعیت کے دفتر آیا اور یہاں سے سامان لے کر اسٹیشن چل دیا ۔ راستہ میں ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے میں نے ان کے حالات پوچھے ، ان میں سے جو نو جوان میراسامان سر پر اٹھائے ہوئے تھا اس نے مجھے بتایا ہم دونوں ایک گاؤں کے ہیں ، میں تو ایک غریب گھر کا ہوں لیکن میرا یہ ساتھی بڑے مالدار کا بیٹا ہے مگر اب ہم دونوں یہاں ایک ہی حال میں ہیں ، یہ کوئی محنت نہیں کرسکتا ، ہم دونوں ساتھ ہی رہتے ہیں ، میں کچھ محنت مزدوری کر لیتا ہوں ، اس سے ہم دونوں کچھ اپنا گزارہ کر لیتے ہیں ، اس نے کہا مجھے اپنی تکلیف کا کچھ خیال نہیں ہے ، اس کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ، اس گفتگو میں اس نے کبھی بتایا کہ ہمارے گاؤں کے مسلمانوں نے ہمارا بڑا ساتھ دیا ، جب پولیس والے ہمیں اپنے گھروں سے نکالنے آئے تو انھوں نے ہمیں نکلنے نہیں دیا اور پولیس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ۔ پھر جب ایک رات کوفوجی موٹر میں لے کر فوج کے سپاہی آئے تو وہ مجبور ہو گئے اور ہم نے بھی ان سے کہا کہ اب ہمیں جانے دو ، جب ہم چلے ہیں تو گاوں کے سارے مسلمانوں کو ہم نے روتا چھوڑا ہے ، اس نے یہ بھی بتایا کہ اس لڑکے کے با پ راستہ میں پنجاب کے کسی مقام پر قتل کر دیے گئے ۔ اب اس نے مجھے اور میں نے اسے بھائی بنالیا ہے ۔ اس کی یہ بات سن کر میرا دل بہت رویا اور آنکھوں نے آنسو بہائے ۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ اس وقت میرے پاس ان کی خدمت کرنے کے لئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی ، بہرحال جو کچھ میرے پاس کرایہ سے زیا دہ تھا وہ ان دونوں کو پیش کردیا ۔ (ماخوذ از : انسانیت زندہ ہے مطبوعہ : الفرقان بکڈ پولکھنؤ )

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی