جمیعۃ علماء ہند کا موجودہ بیان اور ان کا سیاسی نظریہ


جمیعۃ علماء ہند کا موجودہ بیان | اور ان کا سیاسی نظریہ | مولانا محمود مدنی | مولانا سجاد نعمانی | مولانا اشرف علی تھانوی

جمیعۃ علماء ہندکی میٹنگ 

جمیعۃ علماء ہند کے موجودہ صدر چاہے جو بھی ہو ہمیں اس
 سے بحث نہیں لیکن دیو بند عیدگاہ کے موجودہ میٹنگ اور اس میں پاس کیے گئےامور اور مولانا محمود مدنی کے بیانات سے ملک کے طول و عرض میں کافی بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے بے چینی اس بیان سے ہے کہ مولانا محمود مدنی نے علی الاعلان کہا کہ ہمارے لئے ملک پہلے اور ملت بعد میں ہے جس پر مولانا سجاد نعمانی کی طرف سے کافی تنقید دیکھنے کو ملی اور ان کی یہ تنقید بجا بھی تھی پتہ نہیں کس ضمن میں مولانا مدنی نے یہ بات کہی کیا مقصد حکومت وقت کو خوش کرنا تھا یا کچھ اور واللہ اعلم۔ 

سب سے اہم ترین مسئلہ ہے جمعیت کے سیاسی نظریے کا جس اثر اب بھیانک انداز میں نظر آرہا ہےآپ نے بارہا سنا ہوگا مولانا محمود مدنی کی زبانی کہ مسلمان نان ہند صبر سے کام لیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اسلام امن و سلامتی محبت کا درس دیتا ہے ،ہمیں گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنا ہے، وطن کی حفاظت کے لیے اگر ہمیں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹیں گے،اسی طرح فی الحال نوپور شرما کا مسئلہ میں بھی ملک کی سالمیت اور گنگا جمنی تہذیب کی راگ الاپ کر خاموش ہو گئے۔


جمیعت علماء ہند اور ہمارا سوال

لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر جمعیت مسلمانان ہند کے لیے قائدانہ رول کر رہی ہے تو ہمارا سوال ہے کہ کیا جمعیت کا کام صرف مذمت،بے گناہ مسلم نوجوان قیدیوں کا کیس لڑنا ،آفات و مصائب زدہ علاقوں کا دورہ کرکے ان پر مال خرچ کرنا،دنگوں میں تباہ شدہ مسلمانوں کو سہارا دینا ،مساجد اور مدارس کے تعلق سے تھوڑا متحرک رہنا، مسلمانوں کی تاریخی مقامات اور عبادت گاہوں کے بارے میں کورٹ کے فیصلے پر 
راضی رہنا، وغیرہ وغیرہ سب ہی کام رہ گیا ہے ؟

جمیعت علماء ہند اور سیاسی اتحاد


برادران وطن کو ساتھ لے کر چلنے کا نظریہ ہو یا برادران وطن کو خوش رکھنے کا نظریہ ہو یہ اپنی جگہ وقتا فوقتا تو خوبصورت معلوم ہوتا ہے لیکن ہر وقت اسی نظریے کا راگ الاپنا بزدلی کی دلیل ہے اور اسلام نے بزدلی اور کم ہمتی کا سبق قرن اول میں اس وقت بھی نہیں دیا جب مسلمان مٹھی بھر تھے،قرآن تو کہتا ہے کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آگئ اللہ کے حکم سے ،،ظاہر سی بات ہے کہ چھوٹی جماعتوں نے جب انسداد فتنہ کی کوشش کی تو اللہ کی مدد شامل حال ہوئی ،،اگر ہم اپنی تعداد پر نظر ڈالتے ہیں تو اگر چہ فی زماننا ہذا ہماری تعداد مٹھی بھر ہے لیکن قرن اول کے زمانے کے مقابلے میں ہم کئی گنا زیادہ ہیں پھر خوف چہ معنی دارد۔

جمیعت علماء ہند اور ہمارا شرعی نقصان


اگر سیاسی مصلحت ہے تویہ کیسی سیاسی بھائی چارگی ہے کہ
 مسلمان تو ہندو برادری کے دھارمک معاملے کا خیال کریں ،جانوروں کی قربانی کا مسئلہ ہو یا موبلنچنگ کا معاملہ ،یا طلاق کا معاملہ ہو،یا بابری مسجدہو یا گیان واپی مسجد،ہر حال میں مسلمان ہی ہندوکا خیال کیوں کرے،کیا ان ہندو کو مسلمانوں کے دھرم کا خیال نہیں آتاہے،مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سیاسی نظریہ اسلام کی بیخ کنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ودکثیر من اہل الکتاب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا غیر مسلم اہل ایمان کو کافر بنا نے کے لیے ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں عجیب مسئلہ ہے کہ ہم ان ہندووں کی ان کاروائیوں کو نادانی سمجھیں جب کہ قرآن ان کو دشمنی سے تعبیر کر رہا ہے،،یہ کون سا سمجھوتا ہے نہیں معلوم۔
لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ ہمارا یہ سیاسی نظریہ سراسر غیر اسلامی ہے۔

4 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام16 جنوری

    جمعبت علماٗ هند سوال تو بهت زبردست هے

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام16 جنوری

    دل كو تسلي نهيں هوٗي

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام16 جنوری

    اس آخری نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. گمنام21 جنوری

    اللہ جمیعت کی محنت کو قبول فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی