اسلام میں تبلیغ کی اہمیت

دین  اسلام  کے  خدمت  گذار

مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لیے جن لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں ان میں ایک نام حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ کا ہے۔ آپ کا شمار دنیا بھر کی 500 با اثر ترین شخصیات میں دسویں نمبر پر ہوتا ہے، آپ کی ولادت 1922ء کو دہلی میں ہوئی جبکہ آپ کا آبائی علاقہ سہارنپور تھا، قوم کے لحاظ سے آپ راجپوت کے راؤ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، بچپن ہی سے آپ کا مزاج دینی تھا، اہل علم و فضل کے پاس زیادہ وقت گزارتے تھے۔ کچھ عرصہ تک مجلس احرار اسلام کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1942ء میں آپ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوئے اور بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ کے دست راست بن گئے۔ صبح و شام، دن رات دین اسلام کا درد لیے پروانہ وار محنت کرتے رہے اور برابر محنت کرتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے اکابر سے آپ نے خوب فیض حاصل کیا، مشکل سے مشکل حالات میں بھی دعوت کے کام کے ساتھ اپنی وابستگی کو برقرار رکھا۔
تقسیم برصغیر کے وقت آپ کا خاندان دلوں میں اسلام اور آزادی کی امنگیں لیے ہجرت کر کے پاکستان کے علاقے وہاڑی میں سکونت پذیر ہوا، آپ بھی اپنے خاندان کے ساتھ یہاں تشریف لائے یہاں اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی، بطور تحصیلدار کچھ عرصہ کام کیا اور پھر دین کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ امت کے لیے ہر وقت بے قرار رہتے، محض بے قرار ہی نہیں بلکہ مسلسل محنت سے کام کرتے، بھولے بھٹکے مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے قریب کرتے رہے۔ آپ جس جماعت سے وابستہ تھے وہ جماعت عالمی سطح پر اتحاد کی داعی ہے فرقہ واریت سے پاک ماحول میں امت کو اسلام کی طرف لا رہی ہے۔ چونکہ دین آپ کی سرشت میں تھا۔ پاکیزگی اخلاق، تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لیے آپ نے گلشن رائے پور کے گل
سرسبد شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ نے آپ کو خلعت خلافت سے بھی نوازا اور دینی کام میں ترقی اور برکت کی دعا دی۔ آپ گاہے بگاہے سرگودھا کے نواحی علاقے ڈھڈیاں شریف اپنے مرشد حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ کی خانقاہ میں تشریف لاتے رہتے تھے۔
تزکیہ کی محنت بھی جاری رکھی اور تبلیغ کی محنت میں بھی برابر شریک رہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ کی وفات کے بعد حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ سے استفادہ کیا اور ان کے وصال کے بعد مولانا محمد انعام الحسن رحمۃ اللہ کی خدمت میں رہ کر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے پہلے امیر حاجی محمد شفیع قریشی رحمۃ اللہ کی امارت میں آپ نے دعوت کے کام کو مزید منظم کیا، ان کی وفات کے بعد حاجی بشیر احمد رحمۃ اللہ دوسرے امیر مقرر ہوئے آپ رحمۃ اللہ نے ان کے ساتھ رہ کر دعوت کے کام کو ساری دنیا میں پھیلانے کی ایسی مضبوط اور منظم منصوبہ بندی فرمائی کہ آج اس کے ثمرات ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ حاجی بشیر احمد رحمۃ اللہ کی وفات کے بعد 1992ء میں آپ کو بطور امیر منتخب کیا گیا اور تا دم مرگ آپ ہی اس کے امیر رہے، آپ کا زمانہ امارت 25 سال بنتا ہے۔ اس زمانہ میں آپ نے اندرون و بیرون ممالک میں سفر، بیان، مشورہ، جماعتوں کو ہدایات، حالات کے پیش نظر جماعت کا معتدل لائحہ عمل، انفرادی اور اجتماعی اعمال میں مسلسل مصروف عمل رہے۔ پیرانہ سالی، ضعف، علالت سب کچھ برداشت کر کے اپنے مشن سے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہے۔
میری حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کے ساتھ پہلی ملاقات مولانا خورشید صاحب کے توسط سے ہوئی۔ جب میں ٹنڈو الہ یار میں سبق پڑھا رہا تھا تو مولانا خورشید صاحب (رائے ونڈ) تشریف لائے، ہماری بات چیت ہوئی میں نے اپنے مسلکی کام کا طرز اور اسلوب بتایا کہ ہم دعوتی، اصلاحی طریقے پر ناصحانہ اور واعظانہ طرز پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ آپ رائے ونڈ مرکز تشریف لائیں میں حاضر ہوا تو مولانا خورشید صاحب نے میری ملاقات حضرت حاجی صاحب، مولانا جمشید صاحب، مولانا احسان صاحب اور دیگر مشائخ سے کرائی۔ اس دوران ان حضرات سے بہت ساری اہم باتیں ہوئیں۔ پھر چند سال بعد میری دوسری ملاقات حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تب ہوئی جب انہیں قبر میں ثواب و عذاب کی کیفیت کے بارے علمی اشکال پیش آیا، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خادم مولانا محمد ریاض کی وساطت سے میں حاجی صاحب سے ملا اور اس مسئلہ پر اپنی گزارشات پیش کیں، جب مسئلے پر حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کو شرح صدر ہوا تو آپ بہت خوش ہوئے، دعائیں دیں اور فرمایا: ’’علماء آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ حضرت مولانا
محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ اللہ کی وفات کے بعد دین کا یہ کام شاید کوئی نہیں کر رہا، الحمد للہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ یہ کام لے کر چل رہے ہیں۔‘‘
حضرت رحمۃ اللہ چند دن قبل بیمار ہوئے آپ کو مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا، مرض نے شدت اختیار کی، شوق لقاء وصال محبوب نے غلبہ پایا اور بروز اتوار بوقت صبح صادق 9 ربیع الاول 1440ھ بمطابق 18 نومبر 2018ء کو اس خالق سے جا ملے، جس کی وحدانیت کا ڈنکا ساری زندگی بیان کرتے رہے۔ آج وہ آنکھیں بند ہو گئیں جو امت کے لیے جاگا کرتی تھیں، رویا کرتی تھیں۔ رائے ونڈ کے در و دیوار سے سسکیوں اور آہوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ آج دردمند مصلح، پُر جوش داعی اور فنا فی التبلیغ لاکھوں انسانوں کو جگا کر خود قبر کی پاتال میں سو گیا ہے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ کی جدائی صرف تبلیغی اور دعوتی حلقوں کا نقصان نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے شایان شان اجر عطاء فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

2 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام12 فروری

    اللہ تعالیٰ حاجی صاحب کی محنتوں کو قبول فرمائے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام18 فروری

    اللہ ہمیں اپنی خدمت کی توفیق عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی