سوشل میڈیا مذہب اسلام کی نظر میں

میڈیا اور مذہب  اسلام

‏مذہب  اسلام  کے علم و تعلیم میں استاد یا معلم کو مرکزیت نہیں،اسی طرح علم کالفظ مرکزہےیہ کسی خاکے کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ کسی متقی پرہیز گار شخص کے عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے،مذہب اسلام میں جدیدیت کا تصور علم خارج میں روایت کو نشانہ بنانا ہے،اسی طرح نظام تعلیم میں تصویر و خاکے یا امیج کی بہت اہمیت ہے، غیب کا کوئی تصور کام نہیں کرتا، انسان image directed یا تحریر کے بجائے تصویر کے ذریعہ سیکھنے والا ہوتا چلا جاتا ہے، ٹیلی ویژنی 
اقدار television values اسلامی نظام عمل پر غالب ہوجاتی ہیں اور وہ مذہبی تعلیمات کی بالادستی کے بجائے ان اقدار کے ماتحت ہوتا چلا جاتا ہے ۔

 جدید ٹیکنالوجی اور مذہب اسلام

  مستشرقین نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ مذہب اسلام جیسا مربوط و سیع دفتر کسی اور مذہب کے ہاں نہیں، اسلام وہ واحد مذہب ہے جن کے ہاں تصویریں کھنچوانا حرام ہے، ڈرامہ کا وجود نہیں، مذہب اسلام میں تبلیغ قول و فعل کے ذریعہ ہوئی، یہی وجہ ہے کہ مستشرقین کے مطابق مسلمانوں کا مذہب سب سے زیادہ محفوظ و مامون ہے، دورِ حاضر کے مسلمانوں نے مذہب کو بہت visualize کر دیا ہے،

مذہب اسلام میں تصویر سازی اس لیے حرام ہے

 عیسائیت کے زوال کی تھیوریز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں تصویر سازی بہت عام ہوگئی تھی، چودہویں صدی تک عیسائیت میں تصاویر کا وجود بہت عام نہ تھا، مسیحی مشنریز نے بائبل کے الفاظ کو سمجھانا جب مشکل پایا تو انہوں نے پینٹنگز اور منظر کشی کے ذریعہ سے عیسائی تعلیمات و شخصیات اور آخرت کو سمجھانا شروع کیا کیونکہ image فوری توجہ کھینچتا تھا اور فہم کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی تھی، ڈرامہ بھی داخل ہوا تاکہ دین سمجھایا جا سکے، اہم بات یہ کہ ان کے مخاطبین بھی عام مسیحی ہی تھے سیکولر یا لادین نہیں تھے، اس سے لوگوں کا رجحان یہ ہوگیا کہ وہ صرف اسے حقیقت تسلیم کرنے لگے جو ”نظر آنے والی ہو“ ذہن یہ بن گیا کہ ”پڑھنا“ یا مطالعہ کرنا مشکل ہوگیااور ”امیج مرکز“ بنتا چلا گیا، لوگ ورڈ آف گاڈ (بائبل) سے دور ہوتے چلے گئے، ان میں reality of things کی بحثوں پر زور دیا جانے لگا اور بتدریج تصویر سازوں painters کی اہمیت بڑھنا شروع ہوگئی، پینٹرز کی کلاس مقدس ہوتی گئی،نتیجے کے طور پر لوگوں کا تعلق دو سو سال کے اندر اندر بائبل سے ٹوٹ گیا، یہ visual image کی نہیں بلکہ paintings کی بات ہو رہی ہے جو کبھی کبھار اور کہیں کہیں ہی ہوتی اور نظر آتی تھیں، گویا یورپ میں عیسائیت کے زوال اور سیکولرائزیشن کا ایک تھیسس یہ بھی تھا جو عیسائیت کے تصویر مرکز ہونے کا شاخسانہ تھا۔ اس کے برعکس دورِ حاضر میں تو ہر طرف ویژول امیج کی گویا ہر فرد پر اور سماج پر یلغار ہے، حد سے زیادہ اشتہار بازی کی وجہ سے بصارتی آلودگی visual pollution کی اصطلاح وجود میں آچکی ہے ،

مذہب اسلام میں کارٹون اور تصویریں

سرمایہ دارانہ نظام میں یہ سب سے بڑی commodity یا تجارتی جنس ہے بچوں کو مسلسل کارٹونز کے بجائے اسلامی کارٹونز دکھانا کوئی درست طرزِ عمل نہیں ہے، بچوں سے بات چیت کرکے اس میں لفظ کی اہمیت کا احساس اجاگر کرنا چاہئے، بچوں کو image oriented ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے اگر وہ مذہب اسلام کارٹونز وغیرہ سے سیکھ رہا ہے تو وہ ہر مذہب کی ہر بات کےلئے تصویر کا مطالبہ کرے گا اور اس کو دین (مذہبی شعائر) سمجھنا سمجھانا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا، واٹس ایپ پر بیک گراؤنڈ میں چلنے والے امیج کی وجہ سے بات سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے ،ایک عالمِ دین یا اس کے بھائی کے انتقال پر بھی غمگین تصویر لگانا ضروری سمجھتا ہے اور رِقت آمیز دعا پر روتی تصویر لازمی ٹھہری ہے، اس بلا وجہ کی تصویر یا ویڈیو یعنی visualization کے بہت نقصانات ہیں ہر چیز میں تصویر کی موجودگی اسلامی علمیت کےلئے بڑا امتحان ہے،ہر بندہ اسلامی فلم اور اسلامی کارٹون بنانے کے درپے ہے، کارٹون اسلام پر نہیں کارٹون پر پرکھا جائے گا، اسی طرح فلم فلم کے معیار پر جانچی پرکھی جائے گی، ایک ایسی اسلامی فلم جس میں پیغام تو اعلیٰ اورمذہب اسلام کےمطابق ہو مگر اداکاری گھٹیا ہو اور اچھا کیمرہ ورک نہ ہو تو اسے اچھی اسلامی فلم نہیں بلکہ گھٹیا اور بے کار فلم قرار دیا جائے گا کیونکہ فلم کو فلم ہی کی کسوٹی یا معیار پر پرکھا جائے گا ،لوگ نعتیں کم اور گانے زیادہ سنتے ہیں، لہذا نعتیں بھی گانوں کی طرح بنائیں لیکن لوگ نعتیں اس لئے بھی کم سنیں گے کہ اگر نعتیں بھی گانوں کی طرح ہیں اور ان کو بھی گانوں کی طرز پر پیش کیا جائے اور ان کو بھی پرکھنے کا معیار گانا ہے تو پھر گانا ہی کیوں نہ سنوں،اس قسم کی نعتوں پر یہی رد عمل دیکھنے سننے میں آتا ہے کہ گانے کی طرز پر نعتیں پڑھنا درست نہیں مگر چونکہ یہ نعت گو حضرات مذہب اسلام سے وابستہ ہو تے ہیں تو عام پیروکار و مقلد یہی سوچتا ہے کہ کیا ان مولویوں کو معلوم نہیں کہ کیا جائز اور کیا ناجائز! وہ نعتوں کو گانوں پر نہیں پرکھتا بلکہ ایک مذہبی جماعت کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے،اسی طرح فلم ایک ٹکنیکل چیز ہے، اگر مغرب اسلام کے خلاف سو فلمیں بنا ڈالے تو دنیا یہی کہے گی کہ پروپیگنڈہ ہے، اگر وہ تاریخی فلم بناتا ہے تو مسلمان کہہ سکتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈہ ہے اور وہ مغرب میں تسلیم کیا جائے گا کیونکہ مغرب نے مخالف کی نیت و احوال کو فلم کے ذریعہ پیش کیا ہے، اگر کوئی اگلی فلم آگئی اور وہ مسلمان کی فلم سے زیادہ مقبول ہوگئی تو وہ پروپیگنڈہ نہیں رہے گی بلکہ حقیقت بن جائے گی ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی اتباع سے منع فرمایاہے: آپ نے فرمایاتم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں کی بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ اتباع کروگے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں داخل ہوجا  ییں تو تم بھی اس میں داخل ہوں گے، اس پر صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پہلے والوں سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یہود ونصاریٰ ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اور کون(متفق علیہ)

در حقیقت سوشل میڈیا نے سرمایہ دارانہ سماج میں ایک نئی معیشت یا اکانومی کا تصور پیش کیا ہے جسے attention economy کہا جاتا ہے، اس وقت میڈیا کی تعمیر شدہ ڈیجیٹل دنیا digital constructed world میں سب سے بڑی commodity (جنس) انسانی توجہ human attention ہے، اس ڈیجیٹل ورلڈ میں یہ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ انسان کتنا مصروف ہے؟ کتنا وقت سوشل میڈیا کو دیتا ہے؟ اور اس کی اسی توجہ سے سرمایہ capital جمع ہوتا ہے The age of surveillance in capitalism by sociana zobof زوبوف نے بتایا کہ اس وقت سب سے بڑا ڈیٹا انسانی رویہ human behavior ہے۔ یاد رہے! یہودی مؤرخ اور مقبول لکھاری پروفیسر یوول نوح حریری Yuval Noah Harari اپنی کتاب 21 lessons for the for 21 st century (2018) میں انٹرنیٹ پر انسانی سرگرمیوں سے متعلق معلومات کو "بڑا big data کہتا ہے جس کی مالک دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جیسے گوگل و فیس بک وغیرہ ہیں، اس کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں میں زیادہ سے زیادہ انسانی ڈیٹا یا کوائف و معلومات جمع کرنے کی دوڑ یا مقابلہ بازی شروع ہوچکی ہے اور یہ کہ اب اجارہ داری انسانوں کے بجائے ڈیٹا یا ’الگوریتھم algorithm‘ کو منتقل ہورہی ہے مثلا اشتہار کی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا خریدار گوگل سرچ انجن ایلگوریتھم ہے، 
شوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے نزدیک روایتی میل ملاپ والے دوستانہ تعلقات کے بجائے ورچوئل فرینڈ شپ زیادہ بہتر ہے، نفسیاتی طور پر اصل تعلقات پر سوشل میڈیائی تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے اور لوگ اپنے سبسکرائبرز، لائکس اور رائے وغیرہ کےلئے پریشان رہتے ہیں، وہ عام طور پر ویڈیو وغیرہ نہیں دیکھتااور مستقل پریشان و بے چین رہتا ہے۔در حقیقت سوشل میڈیا ایسا پنجرہ ہے جس میں موجود لوگوں یا افراد کا مطمح نظر یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح ٹاپ ٹرینڈ پر جگہ بنا لیں، ٹیوٹر انقلاب یہی ہے کہ ٹاپ ٹرینڈ تک رسائی پا لینا اور پھر واپس نیچے آجانا یہی دائرے ہیں، یہاں ذات اور صحبت ناپید ہوتی ہے، معنی یا معنویت meaning پیمائش measurement سے کم تر ہوجاتی ہے، مذہبی لوگ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ سبسکرائبر subscribers، لائکس likes اور کمنٹس comments کیسے بڑھیں، لفظ سے تصویر کو بدل دیا گیا ہے، سوشل میڈیا سسٹم کا خاصہ ہے، سبسکرائبر کس کے زیادہ ہیں؟ مثلاً مشہور ہوجانے والے چائے والےکو ایک رات میں اتنے likes ملے جو کسی دوسرے کو نہ ملے، در حقیقت اس نے اس کی کوئی پلاننگ نہیں کی تھی، اسی طرح کوئی باہر برہنہ کھڑا کو پیشاب کر رہا ہو اور اس کی ویڈیو بنا لی جائے تو اس کو بھی کئی لوگ لائک کر دیں گے، اتنی گری ہوییٴ حرکت کو جو اس برے طریقہ سے حاصل ہو رہی ہے اسے حاصل کرنے کےلئے مذہبی لوگ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ سبسکرائبر subscribers، لائکس likes اور کومنٹس comments کیسے بڑھیں، 

سوشل میدیا اور علماء کی ذمہ داری

علماء اور خطباء حضرات کو سوشل میڈیا کے بجائے علاقائی سطح پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا کی دعوت سے مبلغ و خطیب کی ذات پر، اس کے کردار پر کوئی اثر نہیں پڑےگا لیکن اگر میں اپنے پڑوسی کو نماز کی دعوت دوں گا تو مجھے نماز پڑھنی پڑے گی اور اگر کوئی گھر والوں کو تو خوب پند و نصائح کرے مگر خود سارا وقت اس کے خلاف کرے تو گھر والے اس کی بات نہیں مانیں گے۔ آج ہر معاملہ میں عقلی دلیل rational arguments کا مطالبہ کیا جاتا ہے؟ اب چونکہ مثالی بلکہ کردار ہی ختم ہوچکا ہے لہذا اب صرف دلیل کام کرے گی، ہر مسئلہ کے حل کےلئے دلیل کا مطالبہ اسی لئے کیا جاتا ہے، دلیل دینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر کردار کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے، گویا انفرادی سطح پر مسائل کو تو اس کے ذریعہ مخاطب کیا جا سکتا ہے مگر اجتماعی سطح پر اسے چھوڑنے کی ضرورت ہے جو شخص ہر وقت سوشل میڈیا پر مصروف ہو وہ غور و فکر کب کرے گا ۔

راقم :ابوالحبیب

5 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی