اسلام میں عورت کا مقام

اسلام میں عورت کا مقام
اسلام  میں  عورت  کا  مقام


جب کسی عورت کا خاوند، باپ، بھائی یا بیٹا اسکی معاشی کفالت کا پورا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے، گھر سے باہر آتے جاتے وقت 
اسکے تحفظ کی خاطر اسکے ساتھ ھونے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ھے، اسکی ضرورت کی ہر شے اسے گھر پرلاکر دیتا ہے، اپنی عمر بھر کی 
کمائی ہنسی خوشی اس پر خرچ کردیتا ھے، اسے اچھا کھلاتا اور پہناتا ھے، اسکی عزت کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک قربان کردینے کیلئے تیار رھتا ھے، صرف اس لیے کہ ہمارے گھر کی آبرو اور عزت ہے۔

اسلام میں عورت بازاری نہیں

  اگرگھر کے معاملات بھی اسی عورت کی جھولی میں ڈال دیتا ھے توعورت اپنی معاشی کفالت کی خود ذمہ دار ھے، گھر اور بچوں کی 
ذمہ داری بھی اسی کے کاندھوں پر ھے، صبح ناشتہ بھی بناتی ھے، بچوں کو تیار بھی کرتی ہے، انکے لنچ کا بندوبست بھی کرتی ہے، آفس کے جبر کو بھی برداشت کر تی ہے، دوران ملازمت باس کی باتیں بھی سنتی ہے، شام کو سب کیلئے کھانا بھی بناتی ہے، لانڈری بھی کرتی ہے۔ اگر قسمت نے ساتھ دیاتو شاید زندگی میں ساتھ نبھانے والا کوئی شوھر مل جائے وگرنہ یہ سارا بوجھ اکیلے ہی اٹھائے پھرے گی۔ یہ صورت حال ہے جدید و ترقی یافتہ عورتوں کی زندگی کا۔ اس عورت کو اپنے تحفظ و بقا کیلئے  مارکیٹ جانا پڑتا ھے لہذا یہ عورت اس نظام کے تحت مجبور ھے کہ اپنی قوت خرید کو برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ کا حصہ بنی رھے۔ یہ اس ترقی یافتہ نظام کا عورت پر ظلم ھے۔صورت مسلہ یہ ہے کہ ہیومن رائٹس جمہوری مساوات کا چولا اوڑھ کے عورت کی کفالت کی ذمہ داری خود عورت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں عورت پر ھونے والے بدترین مظالم میں ھے، یہ اس لئے کہ یہ اس نازک اندام پر ایک ایسا بوجھ ڈال دینا ھے جو اسکی طاقت سے باہر ہے، دوئم اس لئے کہ جدید نظام اس ظلم کو مساوات کے پردوں میں چھپا کر انسانوں کیلئے قابل قبول بناتا ھےاس پر خود مختاری اور آزادی کا رنگ ڈال کر خوشنما بنا دیتا ہے۔  ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں ریپ (rape) کے مواقع بہت بڑھ جاتے ہیں۔ 
اس کے مقابلے میں اسلامی نظام معاشرت کے تحت عورت محرم رشتہ داروں کےساتھ رہنے کی وجہ سے ریپ کی وارداتیں انتہائی شاذونادر ھوتی ہیں کیونکہ کسی کے ہاتھ یہ موقع آجانا ہی خاصا مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایک اکیلی عورت کو اس حالت میں کہیں پالے کہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ ان دونوں میں سے کونسی عورت زیادہ محفوظ و آسودہ زندگی گزار رھی ھے؟ آخر ان دونوں کے حال میں اس قدر فرق کیوں ھے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ھے کہ ایک عورت اس نظم کا حصہ ھے جواسلامی معاشرت میں زندگی بسر کررھی ھے، وہ معاشرت جو محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تعمیر ھوتی ھے، دوسری عورت تسکین لذات و بڑھوتری سرمایہ کی خاطر اغراض کی بنیاد پر تعمیر کی گئی معاشرت کا ایک پرزہ بنا دی گئی ھے اور جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ یہ نظام اسے فراھم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی لئے پہلی عورت محفوظ ھے جبکہ دوسری غیر محفوظ ۔

 
اسلام میں نان و نفقہ اور عورت

جدید معاشرت میں عورت بیوہ یا طلاق یافتہ ھوجائے اور اسکے باپ یا بھائی اسکی کفالت کی ذمہ داری نہ اٹھائیں یا اٹھانے لائق نہ ھوں تو اس عورت کیلئے تو مارکیٹ کا حصہ بننا ایک نعمت ھے، گویا مارکیٹ ایسی خواتین کیلئے بہترین متبادل فراہم کررھی ھے۔ مگر اعتراض کرنے والے نے خاندان کا نقشہ بس ‘ماں باپ اور بچوں’ تک محدود سمجھا، ظاھر ھے جسے خاندان کہتے ہیں وہ محض ان تین تعلقات کا نام نہیں بلکہ اس سےبہت وسیع تر تصور ھے۔ تو پہلی بات یہ کہ خاندانی نظم اگر وہ واقعی موجود ھو تو عورت کی قوت اسکی برادری و خاندان والے ہیںاکیلی عورت نہیں، لہذا اسے دبوچ کر اس پر ظلم کر لینا کوئی آسان کام نہیں ھوتا۔ دوسری بات یہ کہ جو عورت بیوہ ھوجائے یا اسے طلاق ھوجائے تو اس کا مداوا بھی یہی اسلامی نظام کردیتا ھے۔ مثلا ہمارے یہاں آج بھی اس امر کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ اور اسکے بچوں کو سہارا دینے کیلئے (اپنی تمام تر خواہشات کی قربانی دے کر) اس سے نکاح کرلیتا ھے، اگر نکاح ممکن نہ ھو تب بھی دادا یا دیگر بھائی وغیرھم ملکر خاتون خانہ اور اسکے بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے اور خاندانوں میں ہر سو پھیلی یہ مثالیں نظر نہیں آتیں، ہاں چند ظلم کرنے والے مرد نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر طلاق ھوجائے تو بھی عورت بے یارومددگار نہیں ھوجاتی۔ 

مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

3 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی