اسلام میں چور کی سزا | چور چور ہی ہوتا ہے

چور چور ہی ہوتا ہے چاہے وہ ملک کے حکمران ہی کیوں نہ ہو،ویسے  اسلام  میں  چور  کی  سزاانتہایی  سخت  ہے  ڈایرکٹ  ہاتھ  کاٹ  دیا  جاتا  ہے  چوری  ثابت  ہونے  کے  بعد  اگر  یہ  قانون  یہاں  بھی  لاگو  کیا  جاے  تو  کسی  بھی  چور  کی  ہمت  نہیں  ہوگی  کہ  وہ  ہمارے  خزانے  پر  ڈاکہ  ڈالے  اسی  لیے  دنیا  اسلامی  قانون  سے  خوف  کھاتی  ہے  کہ  چوری  ڈاکہ  سب  بند  ہو  جاے  گا  ویسے ہماری بد قسمتی ہی کہ لیں کہ یہ پانچ سال ہمارے ملک کے لئے کسی دردزہ سے کم نہیں تھا ،
اگر چہ ابھی بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے امید ہے کہ بی جے پی ٢٠١٩ میں جیت جائے،
سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے ملک کے سیاہ و
فسادی انکے قبضے میں ،
RBI انکے قبضے میں ،
ملک کے حسّاس شعبہ پر انکا قبضہ ،
میڈیا پر انکی دستگیری،
ان تمام چیزوں کو اپنے قبضہ قدرت میں لیکر انہوں نے تقریبا ملک کو کنگال بنا دیا ابھی متوسط طبقوں کا جو حال ہے وہ وہی لوگ جانیں ،
اور ابھی بھی جو کچھ بچا کھچا باقی ہے شاید اسکا بھی صفایا ہو جائے اور اسکی کوشش بھی چل رہی ہے ،
اس پر ایک
کی طرف سے موصول پیش خدمت ہے،
پردےکےپیچھےکیاچل رہاہے

ریزروبینک آف انڈیامیں گھس پیٹھ : 
ارجت پٹیل، شکتی کانت داس اور مہروں کے پردے میں کیا چل رہاہے؟؟

سنگھ کے مودی راج نے اپنے پورے دور میں کچھ کیا ہو یا نہیں، لیکن ایک قلابازی مارتا پیغام ضرور دیا ہے کہ: ہندوستان میں چاپلوس بنو، بھکت بنو اور ضمیر فروش بنو، ان ڈگریوں کی حصولیابی کے بعد قابل بننے کی ضرورت نہیں ، ان تین ڈگریوں کے پیچھے کامیابی " جھک مارتی " ہوئی آئےگی_
اس نسخے کے تازہ ترین اور کامیاب آزمودہ ہیں نومنتخب آر بی آئی گورنر " شکتی کا نت داس " یہ جناب اصلاً تاریخ پر درک رکھتےہیں اور
آر بی آئی، یعنی کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے حوالے سے ہر چند سالوں میں ٹکراﺅ کی صورتحال نظر آتی ہے، خبریں گردش میں ہوتی ہیں، سوشل میڈیائی مفکرین زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، سوشل میڈیا پر ہزاروں حکومتی ہرکارے اپنی پسندیدہ حکومتوں اور پارٹیوں کی طرف سے لڑتے بھی ہیں، لیکن بلامبالغہ
RBI ریزرو بینک آف انڈیا دراصل ہندوستان کا ایک خودمختار ادارہ ہے، جس پر کسی بھي سیاسی پارٹی کی حکومت سے کوئی تاثر اور کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
لیکن افسوس کہ یہ ادارہ بھی ویسا ہی ہوتا جارہاہے، جیساکہ صدر جمہوریہ کے عہدے کا، حشر ہمارے سامنے ہے، جبکہ جمہوریت میں یہ دو ستون ایسے ہیں جن کے پاس بگڑے ہوئے سیاستدانوں اور کرپٹ حکمرانوں سے زیادہ قانونی و مالی پاور ہوتی ہے، لیکن اپنے گھٹیا سیاسی مفادات کے چلتے حکومتوں نے ان اداروں اور عہدوں کی خودمختاری کا ناس ماردیا ہے، اگر ان سیاستدانوں میں ملک کی حقیقی محبت ہوتی، ملک کی سالمیت سے واقعی پیار ہوتا، ملک کی معاشی اور بینکنگ سسٹم کی ترقیات سے لگاؤ
Custodian Of Cash reserves if commercial banks,
Lender of last Resort 
Banker to Government 
یہ آر بی آئی کے اہم امور میں سے ہے، پھر اس پورے سسٹم کے ذریعے جو کچھ منافع آر بی آئی کو ہوتاہے، آر بی آئی اس میں سے طے شدہ حصہ حکومت کو بھیجتی ہے، اس کے علاوہ اگر منافع زیادہ بھی ہوا ہو تو By The legal act گرچہ حکومت کو بصورت مطالبہ مزید رقم دینا پڑسکتی ہے، لیکن آر بی آئی گورنر کے اپنے اختیارات ہیں اور خود آر بی آئی کے بھی حدود اربعہ اور پروٹوکول ہیں جن کے تحت اضافی رقم کے مطالبے پر آر بی آئی جائزہ کاران تحقیق کرینگے کہ آیا واقعی ضرورت ہے یا نہیں؟ اسی موڑ پر ٹکراﺅ کا آغاز ہوتا ہے، اگر بینک گورنر کٹھ پتلی نہیں ہوتاہے تو اصولی طورپر کام کرتاہے جیساکہ سابق آر بی آئی گورنر " رگھو رام راجن " کے اصولی تیور نے مرکزی حکومت کو رگڑ
یہ مہان ہستی پہلے سے ہی اپنا دامن داغدار کرچکی ہے، بھاجپا ہی کے سینیئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے ان پر گھوٹالے کے الزامات عائد کیے ہیں، ان کی قابلیت تاریخ کے موضوع پر ہے لیکن مفادپرستی نے عقل کو گروی کردیاہے، چنانچہ نریندرمودی جیسے ظالم اور رسوائے زمانہ حکمران کے چہیتے ہیں یہ، عوامی
اسی نوٹ بندی کو مودی کے ساتھ پردے کے پیچھے سے کھیلنے والے مہرے " سکتی کانت داس " ہیں، اب یہ مہان آدمی پورے ملک کی ریزرو بینک پر بٹھا دیا گیا ہے، خدا جانے اب کیسے کیسے دن اور کیسی کیسی مہنگائی دیکھنے کو مل سکتی ہے، لیکن جو بھی ہوگا تاریخی ہوگا اس پر یقینِ کامل ہے، اور اسی
دو لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ اس حکومت نے اپنی ساری حدیں پار کردی ہیں اور ملک کے بیشتر جمہوری اداروں پر شب خون مارنے کے بعد اب یہ حکومت ریزرو بینک آف انڈیا کو بھی زیر دست کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنی مرضي کے مطابق ملک کے فنڈ کو استعمال کرسکے اور اگر ایسا ہوا تو اس کے تباہ کن
مؤرخ لکھ رہا ہے : دنیا میں ايک انسانی مخلوق ہندوستان میں ایسی بھی آباد ہے کہ جنہیں یہ تو معلوم ہوتاہے کہ غیر واقعی دنیا میں ان کے ہیرو کون
لیکن انہی لوگوں سے جب ان کی حقیقی دنیا اور اس کی بنیادوں سے متعلق معلوم کیا جائے تو یہ پورے طورپر کورے نکلتے ہیں، موجودہ وزیراعظم چونکہ کچھ زیادہ ہی بدنام ہوئے ہیں اسلیے ان کے متعلق بہت سارے عام انسان واقف ہوچکےہیں ورنہ ان سے پہلے تو وزیراعظم کے متعلق بھی یہاں کے انسان بےخبر ہوتےتھے، جبکہ دنیا بھر کی ترقی یافتہ قومیں اپنے ملک و سسٹم کی بنیادوں سے پورے طورپر واقف ہوتی ہیں اور کم از کم ان شعبوں سے متعلق تو لازمی طورپر باخبر ہوتےہیں جو ان کی روزمرہ زندگی کا اٹوٹ حصہ ہوں ، یہ واقفیت ہی دراصل زندگی کی علامت ہے، ورنہ انسانی معاشرے کا

سمیع اللّٰہ خان
جنرل سیکرٹری: کاروان امن و انصاف

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی