طلباء کےاخراج پرعلامہ ابن باز ؒ کا دانشمندانہ فیصلہ


 ایک بار کی بات ہے کہ اس زمانے میں ایک طالب علم کی شرارت اور یونیورسیٹی کے قوانین کا لحاظ نہ رکھنے کے سبب وہاں کے تمام اساتذہ نے اس کو یونیورسیٹی سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ، کیوں کہ سب اس کی حرکتوں سے تنگ آچکے تھے لیکن اس فیصلے پر آخری رائے علامہ ابن باز کی لینی باقی تھی، تمام اساتذہ اس مسئلہ کو لے کر ان کے پاس پہونچے اور سب نے مل کر کہا محترم ! اس طالب علم کی وجہ سے یونیورسیٹی کا ماحول خراب ہورہا ہے کئی بار ہم لوگوں نے اپنے طور پر چاہا کہ وہ اپنی عادت سے باز آجائے ، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلے ، لیکن وہ اپنی عادت سے باز آنے کا نام نہیں لیتا ، دن بدن اس کی شرارتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں ، اگر اس کو یونیورسیٹی سے نکال باہر نہ کیا گیا تو
اس و اقعہ کو گذرے ہوئے بیس سال کا طویل عرصہ بیت گیا اس بیچ کتنے طالب علم آئے گئے ، یونیورسیٹی کی پچھلی تمام یادیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں ، اس طالب علم کو فراغت حاصل کر کے نکلے ہوئے بھی زمانہ گذرگیا بیس سال کی لمبی مدت کے بعد علامہ ابن باز ؒ افریقہ تشریف لے گئے ،
دوستو! یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ کسی بھی ادارے کے ذمہ دار کو علامہ ابن باز ؒ ہی کی طرح دریا دل ہونی چاہئیے آج بہت سارے اداروں میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے سبب بچوں کا داخلہ کاٹ کر ان کی زندگی کو تباہ کردیا جاتا ہے بلا شبہ اس طرح کا فیصلہ بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ادارہ سے باہر کردینا بہر صورت ایک بڑا قدم ہے ، دیکھا جاتا ہے کہ ایسے حالات میں ذہنی دباؤ کے شکار ہو کر جذبات میں بعض بچے یا تو پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی راہوں کا انتخاب کرلیتے ہیں ، جو ایک بامقصد زندگی جینے والے انسان کا راستہ نہیں ہوتا اسی لئے اداروں کے ذمہ داران کو ایسے فیصلوں سے بچنا چاہئے انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ بچیں کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں ، ایک طالب علم اگر بہتر ہو

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی