دین وشریعت پر ثابت قدمی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


دین وشریعت پر ثابت قدمی

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل
اس وقت کئی مسائل اُمت اور بالخصوص علماء اُمت کے سامنے ہیں ، ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم مفتوح ہوتی ہے تو زمینی اور عسکری شکست آہستہ آہستہ اس کو ذہنی شکست تک پہنچادیتی ہے ، اس کا اثر شکست خوردہ حکمرانوں پر تو زیادہ ہوتا ہے ؛ لیکن قوم کے اہل علم پر
حکمرانوں پر قبضہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ایسے مغرب زدہ لوگوں کو تخت ِاقتدار پر بٹھادیا جاتا ہے ، جو خود اپنے عوام کے
اب اس کے بعد علماء کی باری آتی ہے ؛ چوںکہ عام مسلمانوں کے دل میں قرآن و حدیث کی عظمت دین و شریعت کی وقعت اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے ، اور بہت سی عملی کوتاہیوں کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آج بھی اپنے دین سے والہانہ تعلق رکھتی ہے ، اس لئے
مسلمانوں کا عہد بھی ایسے واقعات سے خالی نہیں رہا ؛ بلکہ یہاں تک ہوا کہ بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے حدیثیں گھڑی جانے لگیں ، غیاث بن ابراہیم عباسی خلیفہ مہدی کے دربار میں آیا اور اس کو کبوتر بازی میں مشغول دیکھا تو بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے اپنی طرف سے ’’ أوجناح‘‘ (کبوتر بازی) کا اضافہ کرتے ہوئے روایت نقل کردی : ’’ لا سبق الا فی نصل أو خف أو حافر أو جناح ‘‘ ( نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر : ۲۲۴) تاکہ بادشاہ کی کبوتر بازی کا جواز پیدا ہوجائے ، اسی طرح بنو ہاشم اور بنو اُمیہ کے مناقب و مثالب پر مشتمل روایتیں وضع کی گئیں ۔
اموی اور عباسی دور میں بادشاہوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ جس سفاکیت اور درندگی کا ثبوت دیا اور من چاہے احکام جاری کئے ، درباری علماء ان پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے ، یزید بن عبد الملک کو چالیس شیوخ نے آکر فتویٰ دیا کہ خلیفہ جو مرضی ہو، کرے ، خلفاء سے اللہ کے
’’خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت سلطان الاسلام کہف الانام امیر
شیخ مبارک کے بارے میں خواجہ باقی باللہ کے صاحبزادے خواجہ کلاں کا بیان ہے کہ وہ سلطان ابراہیم لودھی کے عہد حکومت میں کٹر سنی، سوریوں کے دورِ حکومت میں مہدوی ، ہمایوں کے زمانہ میں نقشبندی اور اکبر کے عہدِسلطنت میں صلح کل کا علمبردار بن کر مشرب اباحت
شیخ مبارک کے بیٹے ابوالفضل و فیضی بڑی علمی لیاقت کے مالک اور کئی زبانوں سے واقف تھے ، جس کا اندازہ قرآن مجید کے غیر منقوط ترجمہ سے لگایا جاسکتا ہے ، ابوالفضل نے مہا بھارت کا فارسی ترجمہ کیا اور اس کے مقدمہ میں اکبر کی تعریف و توصیف میں
نو روز کے جشن کی محفلوں میں علماء و صلحا ؛ بلکہ قاضی اور مفتی بھی شراب نوشی کرتے، اور بد دین بادشاہ علمائے سو کی اس کیفیت کو دیکھ کر بڑے ناز سے یہ شعر پڑھتا تھا :
در عہد بادشاہ خطا بخش و جرم پوش
حافظ قرابہ کش شد و مفتی پیالہ نوش
(منتخب التواریخ : ۳۰۹)
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر أو أمیر جائر ۔ ( ابوداؤد ، عن ابی سعید الخدریؓ ،
بہترین جہاد ظالم سلطان یا امیر کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے۔
علامہ خطابی نے ظالموں کے سامنے حق کی ترجمانی کو افضل الجہاد قرار دینے کی حکمت پر بڑا اچھا نکتہ لکھا ہے :
إنما صار ذلک أفضل الجہاد ؛ لأن من جاھد العدو کان متردداً بین رجاء وخوف ، لا یدری ھل یغلب أو یغلب ؟ وصاحب السلطان مقہور فی یدہ فہو إذا قال الحق ، وأمرہ بالمعروف ، فقد تعرض للتلف ، فصار ذٰلک أفضل أنواع الجہاد من أجل غلبۃ الخوف ۔ (معالم السنن : ۴؍۳۵۰)
یہ اس لئے افضل جہاد ہے کہ جو دشمن سے جہاد کرتا ہے، وہ امید اور خوف کے درمیان ہوتا ہے، اس کو نہیں معلوم کہ وہ غالب رہے گا یا مغلوب؟ اور جس کا سامنا سلطان سے ہوتا ہے، وہ بادشاہ کے ہاتھ میں قہر کا شکار ہوتا ہے، اگر اس نے حق بات کہی اور اس کو
’’ کلمہ حق ‘‘ کا لفظ عام ہے اور اس میں مظلوم کی نصرت کے ساتھ ساتھ دین حق اور شریعت کی نصرت بھی شامل ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ان علماء کو پسند نہیں فرمایا جو دربار شاہی کا چکر لگاتے رہتے ہوں ؛ کیوںکہ جو لوگ حکمرانوں کے یہاں آمد و رفت رکھتے ہیں وہ فتنہ
فتنہ کا شکار ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان کا مداہنت سے بچنا دشوار ہوتا ہے ؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’فمن دخل علیھم فصدقھم بکذبھم وأعانھم علی ظلمھم فلیس منی ولست منہ ولیس بواردٍ علیّ الحوض ، ومن لم یدخل علیھم ولم یعنھم علی ظلمھم ولم یصدقھم بکذبھم فھو منی وأنا منہ، وھو وارد علَیّ الحوض ۔ ( رواہ النسائی : ۴۲۰۷- ۴۲۰۸ ، ترمذی : ۲۲۵۹ ، مسند احمد : ۱۸۱۲۶)
اسی لئے اگرچہ ایسے علماء ربانیین بھی اُمت میں رہے ہیں ، جنھوںنے حکومت کے قرب کو حکمرانوں کی اصلاح اور شریعت کی حفاظت و تنفیذ کے لئے استعمال کیا ، جیسے امام ابویوسفؒ ؛لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم رہی ، اکثریت ان لوگوں کی تھی ، جو حکومت وقت کے مطعون رہے اور
یہ امام مالکؒ ہیں جنھیں جعفر بن سلیمان نے اَسّی کوڑے لگوائے ، صرف اس لئے کہ وہ حالت اکراہ کی بیعت کو نامعتبر قرار دیتے تھے اور ایک موقع پر ان کے ہاتھ اس طرح کھنچوائے کہ بازو مونڈھوں سے الگ ہوگیا ، ( ترتیب المدارک : ۲؍۱۳۳) یہ امام شافعی ہیں قریب تھا کہ عباسی خلیفہ
اور یہ امام محمد بن حسن ہیں جنھوں نے ایک مظلوم کی حمایت میں فتویٰ دیا اور حسن بن زیاد نے ان کے فتوے کی تائید کی ؛ لیکن قاضی وہب ابن وہب نے خوشامد میں اس مظلوم کے خلاف فتویٰ دیا ، جس کو بادشاہ قتل کرنا چاہتا تھا ؛ چنانچہ ہارون نے اپنے سامنے پڑی ہوئی دوات اُٹھاکر
علامہ ابن تیمیہ ؒ بھی ایسی ہی آزمائش سے گذرے ، علامہ سرخسیؒ نے اوزجند کے قید خانے میں ایک مدت گذاری
امام سعید بن جبیرؒ کو حجاج ابن یوسف نے جانور کی طرح ذبح کرادیا ؛ لیکن ان کے لہجہ میں کہیں باطل کے سامنے سرنگوں ہونے کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوسکا ، ( وفیات الأعیان : ۲؍۳۷۳) امام سعید بن مسیبؒ کو عبد الملک بن مروان نے سرد موسم میں پانی ڈلواکر پٹوایا اور ایک اور موقعہ پر پچاس کوڑے لگاکر سربازار تشہیر کرائی ، ( وفیات الأعیان : ۲؍۳۷۶) عمیر بن ہبیرہ یزید بن عبد الملک کی طرف سے عراق و خراسان کا والی بنایا گیا اور اس نے حضرت حسن
’’اے ابن ہبیرہ ! یزید کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملہ میں یزید کا خوف مت کرو ، اللہ تعالیٰ تجھ سے یزید کے شر کو دفع کرسکتا ہے ، مگر یزید اس احکم الحاکمین کے قہر کو نہیں روک سکتا ۔ ( وفیات الاعیان : ۲؍۱۷)
والی مصر ابن سہیل امام یزید ابن حبیب تابعی کی عیادت کو آیا اور دریافت کیا کہ جس کپڑے کو مچھر کا خون لگا ہو
غرض کہ سلف صالحین اور علماء ربانیین کی پوری تاریخ ایسے واقعات پُر ہے جو ہمیں استقامت اور ثابت قدمی کی راہ دکھاتی ہے ، افسوس کہ سائنسی اور صنعتی ترقی کے اس دور میں بھی بیشتر مسلم ممالک میں جمہوریت و شورائیت کے فقدان اور آمرانہ نظام کے غلبہ کی وجہ سے صورت حال میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے ، ان کے یہاں سیاسی قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے اور ان قیدیوں میں بڑی تعداد علماء کی ہے ؛ اسی لئے وہاں کے اہل علم کی ایک اچھی خاصی

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی