اسلام میں خاندانی نظام کی ترتیب

 

خاندانی نظام ویسے تو پوری دنیا کی تمام اقوام میں پای جاتی ہے ہرقوم میں خاندان نسب قبایل کی بنیاد پر اونچ نیچ  کے فیصلے کیے جاتے ہیں نسب کی بنیاد پر کبھی کوی اونچا کوی ابتر مانا جاتا ہے نسب کی بنیاد پر چھوت چھات جیسے رواج پیدا ہوتے ہیں جو انتہای نفرت آمیز معاملہ ہے،

اسلام نے بھی خاندانی نظام دیا ہے وجعلنکم شعوبا وقبایل لتعارفوا یعنی ہم نے انسانوں کے درمیان قبایل اور شاخیں بنای ہیں ظاہر سی بات ہے کہ قبایل اور حسب نسب کا احساس اسلام نے تو دیا ہے لیکن نفرت کی دیوار کھڑی کرنے اور آپسی بھای چارہ کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک مقدس اور حسین مقصد ہے اسکے پیچھے ،

لتعارفوا کہہ کر قرآن نے اس حسین مقاصد کی طرف اشارہ کر دیا کہ ہاں ہم نے خاندانی اور نسبی نظام کو تشکیل تو دیا ہے لیکن آپسی تعارف اور آپسی بھای چارے کے لیے تاکہ صحیح ڈھنگ سے ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں مان لیجے اگر کسی کے پانچ بیٹے ہوں تو پانچوں بیٹوں کو پہچاننے کے لیے انہیں کوی علامت اور نشان متعین کرنا ہوگا اسکے بغیر ایک باپ کے یہ طے کرنا مشکل ہوگا یہ کون اور وہ کون ہے،

اسکے لیے ایک باپ اپنے بچوں کے درمیان پہچان اور تعارف کے لیے ہر ایک کا ایک خاص نام طے کرتا ہے اور جب جسکو بلانا ہوتا ہے تو اسے اسکے خاص نام سے پکارا جاتا ہے اس خاص نام کو سن کر بچے کی قوت فکر فیصلہ کرتی ہے کہ یہ تمہاری نشانی ہے جس کے ذریعے تمہیں بلایا جا رہا ہے تو دیکھیے مقصد پہچان کرنا ہے نہ کہ اسکے ذریعے اونچ نیچ کا فیصلہ کرنا بالکل نہیں،

مگر افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ میں اس چیز کو اونچ نیچ کا ذریعہ سمجھ لیا گیا اور اسی حسب نسب کی بنیاد پر اچھے برے غلط صحیح کے فیصلے کیے جانے لگے اور اسکے ذریعہ نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کر دی گیی ہے جسکا توڑپانا ہرکس و ناکس کے لیے مشکل تر ہےگھریلو پروگرام ہو شادی بیاہ ہو مجلس ہو ملاقات ہو ان تمام چیزوں میں اسی ہندوانہ رسم کو سامنے رکھ کر بھای کو بھای سے الگ کر دیا جاتا ہے اسلام نے بلا تمیز کہا المسلم اخوالمسلم مسلمان مسلمان کا بھای ہے اب چاہے وہ ذات کا چمار ہو انصاری ہو شیخ ہو لیکن نعمت اسلام نے ان کے درمیان بھای چارگی کا رشتہ قایم کر دیا ہے،

ابھی ایک صاحب بتا رہے تھے کہ میں ایک لڑکی سے رشتہ کرنا چاہتا ہوں لیکن میں سب سے نچلی ذات کا ہوں اور لڑکی سید خاندان سے تعلق رکھتی ہے لڑکی بھی چاہتی ہے کہ مجھ سے ہی اسکی شادی ہو لیکن ماں باپ نہیں ہونے دے رہے ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ خاندان کا مسلہ آجاتا ہے انکی ناک کٹ جاتی ہے عزت چلی جاتی ہے اسلیے چاہے جو ہو جاے سید خاندان سے ہیں تو سید ہی میں رشتہ کریں گے،

یہ انتہای ضدی سوچ پر مبنی ہے حالانکہ اسلام نے نکاح کے تعلق سے کفو کا حق دیا ہے یعنی برابری کا حق اسلام خود دیتا ہے لیکن یہ مسلہ کوی واجب نہیں فرض نہیں سنت نہیں ہے بلکہ اختیاری ہے آپکو جیسی سہولت ہو ویسا کریں لیکن ہاں اگر شادی بیاہ کا مسلہ ہو تو ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ حسب نسب مالداری دیکھنے کے بجاے سیرت پر فیصلے ہونے چاہیے لڑکا یا لڑکی اگر کیرکٹر کے حساب سے عمدہ ہے اچھی زندگی کے گذر بسر ہونے کا امکان زیادہ ہے تو ایسی صورت میں کیرکٹر کی بنیاد پر آپس میں شادی کر دینی چاہیے،

سب سے بہتر اور افضل بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی راے معلوم کرلے اس لیے آگے زندگی لڑکا اور لڑکی کو گذارنی ہے نہ کہ بوڑھا اور بوڑھی کو یہ دونوں رواج کے بوجھ تلے لڑکا لڑکی کی آنکھوں پر پٹی ڈال کر شادی تو کر دیتے ہیں لیکن پوری زندگی پچھتانا ان دونوں کو پڑتا ہے جب کہ شادی بے جوڑ ہو،

ہمارے ایک دوست ہیں جو عالم دین ہیں انتہای گورا چٹا خوبصورت اور خوب سیرت دونوں نعمتوں سے مالا مال ہیں لیکن ان ہوں نے شادی کی اپنے ماں باپ کے دباؤ میں آکر ،ماں باپ نے انکی شادی ایک ایسی لڑکی سے کروای جو اس عالم دین سے بالکل میل نہیں کھاتی تھی پہلی ہی رات سے یہ عالم دین بے چین ہیں اب انہیں ان سے چار بچے ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی وہ پریشان ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ انہوں نے ماں باپ کی فرماں برداری کی نتیجہ میں بے جوڑ بیوی ملی،

اسلیے اسلام نے لڑکا اور لڑکی دونوں کو اپنی راے رکھنے کا حق دیا ہے اور ماں باپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کے اپنے بچوں کی شادی کرنے کے وقت ان سے انکی راے معلوم کر لے کیا پتہ ماں باپ کی خواہش کچھ اور ہو اور بچوں کی خواہش کچھ اور ہو بہت سے ایسے واقعات بھی ہوے ہیں کہ ماں باپ نے بغیر مرضی کی شادی کی دوسرے دن لڑکی اپنی مرضی والے کے ساتھ بھاگ گیی اور ماں باپ شرمندہ ہو کر رہ گیے،

اس لیے حالات کو دیکھ کر شادی بیاہ کو انجام دینا چاہیے لڑکا اور لڑکی کی شادی انکی مرضی کے مطابق کرنا انکا اپنا حق واجبی بھی ہے اور شریعت کا اصول بھی ہے،

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی