کچھ مسلم مفکرین بھی بندر کی اولاد تھے

کچھ مسلم مفکرین بھی

انسان کی ابتداء کو بندرتسلیم کرتےہیں 

قرآن سے نظریہ ارتقاء پر استدلال کی کوشش
یاسر ندیم الواجدی

مسلمانوں میں ہمیشہ ایک طبقہ ایسا رہا
 ہے جو بیرونی افکار کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے رکھتا ہے۔ وہ یونان کا فلسفہ ہو، یا پھر دور جدید میں مغربی تہذیب اور اس کے افکار۔ ایسے لوگ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو ان افکار کے سامنے اپنے عظیم ورثہ کو ناقص سمجھتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اسلامی نصوص کو ان اجنبی افکار سے ہم آہنگ کرکے یہ ثابت کردیا جائے کہ ہم بھی پروگریسیو ہیں۔ 

گزشتہ چند سالوں سے ایسے مفکرین جگہ جگہ دستیاب ہورہے ہیں جو نظریہ ارتقاء کو بر حق جانتے ہوے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان اور ایپس (بندروں کی ایک قسم) کے آباء و اجداد ایک ہی تھے، کیوں کہ ڈارون نے اپنے متبعین کو یہی فلسفہ دیا تھا۔ ڈارون کی اس تھیوری کے بعد مغرب میں دو گروہ ہوگئے، ایک گروہ ارتقائی (ایوولوشنسٹ) کہلایا اور دوسرا گروہ تخلیقی (کرییشنسٹ) کہلایا۔ عہد حاضر کے کچھ مسلمانوں نے بھی یہی سوچا کہ مغرب میں نظریہ ارتقاء کیوں کہ ایک عقیدہ کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اب یہ کہنا کہ اسلام کا ڈارون کی تھیوری سے کوئی تعلق نہیں ہے رجعت پسندی کی دلیل ہے، لہذا انھوں نے اس نظریے کو اختیار کیا اور قرآن وحدیث میں اس کے دلائل وقرائن کی تلاش میں جٹ گئے۔ 

ان حضرات نے قرآن کریم کی سورہ سجدہ کی مندرجہ ذیل آیات سے استدلال کیا ہے:
( الذي أحسن كل شيء خلقه وبدأ خلق الإنسان من طين ( 7 ) ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهين ( 8 ) ثم سواه ونفخ فيه من روحه وجعل لكم السمع والأبصار والأفئدة قليلا ما تشكرون ( 9 ) ) .
ترجمہ: اس نے جو چیز بھی پیدا کی خوب بنایا، اور انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اس کی نسل نچوڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی، پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے لیے کان آنکھ اور دل پیدا کیے۔ 

مسلم ارتقائیوں کے مطابق نوع انسانی کے پہلے فرد کی تخلیق گارے سے کی اور پھر اگلی آیت میں لفظ ثم اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے انسان کی نسل بھی چلی، لیکن ابھی اس نسل کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا نہیں کیا گیا تھا، انسان کو اس مرحلے میں ہوموسیپین کہا جاتا ہے جس کا ذکر آیت نمبر آٹھ میں ہے۔ پھر آیت نمبر نو میں لفظ ثم جو کہ ترتیب کے لیے ہے یہ بتارہا ہے کہ ہوموسیپین میں سے ہی ایک فرد کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا کیا، جس کو ہم آدم علیہ السلام کہتے ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام بھی ارتقاء کے مراحل سے گزرے تھے۔ 

اس استدلال کی دو بنیادیں ہیں: ایک لفظ تسویہ اور دوسرا لفظ ثم۔ مگر بیرونی فلسفہ کی ہم نشینی اگر انسان کا مقصد بن جائے تو پھر وہ ایسے ہی شگوفے کھلاتا ہے جیسے اس استدلال میں کھلائے گئے ہیں۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم ارتقائیوں نے آیت نمبر سات میں انسان سے مراد نوع انسانی کا پہلا فرد لیا ہے جو ان کے مطابق آدم علیہ السلام نہیں ہیں، مگر آیت نمبر نو میں ثم سواہ کی ضمیر الانسان کے بجائے حضرت آدم کی طرف لوٹادی جب کہ ان آیات میں ان کا نام نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ضمیر بھی اسی انسان کی طرف راجع ہے جس کا تذکرہ آیت نمبر سات میں ہے، لیکن اس سے ان لوگوں کا مقصد حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ مقصد کے حصول کے لئے ضروری یہ ہے کہ پہلا انسان وہ نہ ہو جس کو خدا نے سیدھا بنایا ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ آیت نمبر آٹھ میں لفظ جعل درحقیقت قرّر کے معنی میں ہے اور قرآن میں دیگر جگہوں پر بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اللہ نے انسان کی تخلیق گارے سے کی اور یہ طے کیا کہ اس کی نسل نچوڑے ہوئے حقیر پانی سے چلے گی۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہوموسیپین نامی اس کی نسل بھی بنا دی۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر ارتقائیوں کے اس دعوے کو مان لیا جائے تو پھر لفظ ثم جو کہ ترتیب کے لیے ہے اور آیت نمبر نو میں بھی ہے اس بات کا متقاضی ہوگا کہ اللہ نے ہوموسیپین کے ایک فرد کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا بنانے کے بعد اس کے کان ناک اور دل کی تخلیق فرمائی۔ گویا کہ یہ اعضاء انسان کو حضرت آدم کے دور سے ملے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے، تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہوموسیپین کے کان ناک اور دل وغیرہ اعضاء نہیں تھے، جبکہ یہ چیز نظریہ ارتقاء کے خلاف ہے۔ لہذا اس آیت سے استدلال کرنے کا مطلب خود اپنی کھڑی کی گئی کمزور عمارت کو منہدم کرنا ٹھہرا۔ 

ان کے اس نظریے کے خلاف قرآن و حدیث کی بہت سی نصوص سے استدلال کیا جا سکتا ہے، مگر اس تحریر کا مقصد اس بے ہنگم نظریے کا جائزہ لینا نہیں ہے، بلکہ مسلم ارتقائیوں کے اس باطل استدلال کا تجزیہ ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر کسی مغربی فلسفہ کی عبادت کرنی ہے تو کریں، مگر قرآن وحدیث کو تختہ مشق نہ بنائیں۔ ہم ان باطل اور فرسودہ نظریات کو اختیار کیے بغیر ہی مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی پوزیشن رکھتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی