دین اسلام میں ذکر کی برکت

ذکرالہی اورمولانا اشرف علی تھانوی | شیخ الہند | زمانے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں شیخ الہند کے پاس جلالین پڑھا کرتا تھا ایک رات تکرارکرانے بیٹھا ( تکرار طلبہ کیلئے ضروری ہے " لکل باب و باب العلم التکرار ) فرماتے ہیں ایک اشکال ایسا وارد ہوا وہ رفع ہی نہیں ہوتا تھا ۔ بڑی کوشش کی حتی کہ حاشیہ بھی دیکھا پھر بھی سمجھ میں نہ آیا اوروں سے بھی پوچھا پھر بھی سمجھ میں نہ آیا اب چونکہ میں تکرار کرایا کرتا تھا اس لیے طلبہ نے کہا کہ میاں کل کا در س شرو ع ہونے سے پہلے اسے تم حضرت شیخ الہند سے پوچھ لینا تاکہ پچھلا سبق کلیر ہوجائے ( بات صاف ہوجائے ) پھر اگلے سبق میں دشواری نہ ہو میں نے زمہ داری قبول کرلی

ذکرالہی سے فیضان باری کا ورود

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اپنے زمانے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں شیخ الہند کے پاس جلالین پڑھا کرتا تھا ایک رات تکرارکرانے بیٹھا ( تکرار طلبہ کیلئے ضروری ہے " لکل باب و باب العلم التکرار ) فرماتے ہیں ایک اشکال ایسا وارد ہوا وہ رفع ہی نہیں ہوتا تھا ۔ بڑی کوشش کی حتی کہ حاشیہ بھی دیکھا پھر بھی سمجھ میں نہ آیا اوروں سے بھی پوچھا پھر بھی سمجھ میں نہ آیا اب چونکہ میں تکرار کرایا کرتا تھا اس لیے طلبہ نے کہا کہ میاں کل کا در س شرو ع ہونے سے پہلے اسے تم حضرت شیخ الہند سے پوچھ لینا تاکہ پچھلا سبق کلیر ہوجائے ( بات صاف ہوجائے ) پھر اگلے سبق میں دشواری نہ ہو میں نے زمہ داری قبول کرلی

ذکر کی لذت میں سردی کا احساس

کہنے لگے صبح فجر کا وقت ہوا میں اپنی کتاب لے کر مسجد میں آ گیا فجر کی نماز پڑھی اور سلام پھیر کر میں جلدی اٹھا مگر حضرت شیخ الہند اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے جہاں وہ فجر کے بعد سے لے کر اشراق تک تخلیہ میں وقت گزارتے تھے جب میں دروازے پر پہنچا تو کنڈی بند پائی مجھے بڑی کوفت ہوئی میں نے اپنے نفس کو بہت ہی کوساکہ تو نے سستی کی حضرت اندر چلے گئے اب وہ اشراق پڑھ کر باہر آئیں گے اور بعد میں سبق پوچھنے کا وقت ہی باقی نہیں رہے گا میں نے سوچا کہ اب نفس کو سزا دینی چاہے وہ سخت سردی کا موسم تھامیں نے کہا یہیں باہر کھڑے ہو کر انتظار کر و تا کہ جب حضرت باہرآئیں تو فور اپوچھ لیا جائے اور سب سے پہلے پوچھنے کا کام مکمل ہوجائے فرماتے ہیں کہ میں باہر کھڑا ہوگیا اور حالت میری یہ تھی کہ میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا میں نے سنا کہ اندر سے لا الہ الا اللہ کے ضرب لگانے کی آواز آرہی تھی حضرت ذکر کررہے تھے اور مزہ مجھے آرہا تھا ایسا ذکر تھا ,
یہاں تک کے ذکر کی لذت میں مجھے سردی کا احساس بھی نہ رہا لیکن جب حضرت نے دروازہ کھولا تو میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ اس موسم میں حضرت نے اس شدومد کے ساتھ ذکر کیا تھا کہ جب دروازہ کھولا تو پیشانی پر پسینے کے قطرے قطرے نظر آرہے تھے کہنے لگے کہ حضرت نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ اشرف علی تم یہاں کیسے ؟ عرض کیا کہ حضرت ایک اشکال وارد ہوا ہے اس کا جواب آپ سے پوچھنا ہے حضرت نے فرمایا کہ کون سی جگہ ؟ تو میں نے کتاب کھولی حضرت نے وہیں کھڑے کھڑے تقریرفرمانی شروع کر دی جب حضرت نے تقریر شروع کی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ الفاظ نہ مانوس تھے اور نہ معانی سمجھ میں آ رہے تھے ایسا کلام فرمارہے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہ آ یا بات ختم کرنے پر فرمایا اشرف علی کچھ سمجھ میں آیا ۔ اب میں نے اپنے دل میں کہا کہ حضرت تھوڑ انزول فرمائے تا کہ میں بھی بات سمجھ میں آئے میں نے کہا حضرت بات سمجھ میں نہیں آئی جب حضرت نے وہیں دوبارہ کھڑے کھڑے تقریر شروع کر دی اب کی بار جوتقریر کی اس کے الفاظ تو کچھ مانوس لگے لیکن معنی اب بھی پلے نہیں پڑ رہے تھے دوسری مرتبہ حضرت نے پوچھا کہ سمجھا میں نے پھر عرض کیا کہ حضرت میں تو نہیں سمجھ سکا تو فرمانے لگے کہ اچھا اشرف علی ! میری اس وقت کی باتیں تمہاری سمجھ سے بالاتر ہیں کسی اور وقت میں مجھ سے پوچھ لینا یہ کہہ کر حضرت اندرچلے گئے
فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ اتناذکر کا اہتمام کرتے تھے اور اس کی وجہ سے اس وقت معارف کا اتنا نزول ہوتا تھا کہ ایک لفظ کو کئی رنگ سے باندھتے تھے جو طلبہ کی استعداد سے بھی بالاتر ہوتا تھا ۔

8 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام16 جنوری

    اولائک آبائی فجئنی بمثلھم

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام18 جنوری


    ماشاء اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام19 جنوری

    اللہ تعالٰی ھمیں بھی ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  4. گمنام21 جنوری

    اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. گمنام25 جنوری

    اللہ سے ملوا جاتی ہے صحبت اللہ والوں کی اپنا رنگ دکھا جاتی ہے صحبت اللہ والوں کی

    جواب دیںحذف کریں
  6. گمنام02 فروری

    روزانہ ایک دو مضمون نیے ملتے رہیں تو بہت اچھا ہو یہ میری ناقص رائے ہے

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی