اسلام اور الیکشن



’سچ کا بول بالا، جھوٹے کا منہ کالا‘ اور ’غرور کا سرنیچا‘ تلنگانہ اسمبلی الیکشن کانتیجہ سامنے آنے سے کوئی ۴۸ گھنٹے قبل بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے بڑے ہی غرور کے ساتھ کہا تھا کہ ’ہم تلنگانہ راشٹر یہ سمیتی (ٹی آر ایس) کی حمایت کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ اویسی کو چھوڑ دے اور ہم سے عوامی سطح پر حمایت طلب کرے‘۔ انہوں نے انتہائی فخر کے ساتھ ایک جھوٹ بولا تھا ’بی جے پی کی حمایت کے بغیر کوئی بھی سیاسی پارٹی تلنگانہ میں حکومت سازی نہیں کرسکتی‘ ۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ تلنگانہ میں امیت شاہ بھی غرق ہوگئے اور اپنے ساتھ بی جے پی کو بھی لے ڈوبے۔ وہاں کی مجموعی ۱۱۹ سیٹوں میں سے بی جے پی کو صرف ایک ہی سیٹ پر کامیابی مل سکی ہےجھوٹ  بولے  کوا  کاٹے  کی  کہاوت  صادق  آیی۔
    اب ۲۰۱۹ کا انتظار ہے۔ بی جے پی لوک سبھا جیتنے کےلیے گاے ، مندر ، مسجد، کے جن کو آزاد کرسکتی ہے، تانڈو مچ سکتا ہے، اس لیے بے حد احتیاط  کی ضرورت ہے۔ اشتعال میں آنے سے لازمی بچنا ہوگا۔ ہاں، کانگریس کا واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہے پر اسے یاد رکھنا ہوگا کہ اس کی جیت اس کی ’نرم ہندو توا‘ پالیسی کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے بلکہ عوام نے ’ہندو توا‘ کو ٹھکرا کر اسے منتخب کیا ہے۔ ان میں ہندو عوام کی بڑی تعداد ہے ۔اسے مذکورہ ریاستوں میں بھی او رملک میں بھی امن وامان لانا ہوگا، ماب لنچنگ کے متاثرین کو انصاف دلانا ہوگا اور ایک ایساماحول بنانا ہوگا کہ ۲۰۱۹ میں بی جے پی کی گاے  مندر  مسجد  کی  پالیسی  کا جنازہ نکالنے میں سارا ملک بلالحاظ مذہب اس کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔
اسلام  اور  الیکشن
    جمہوریت  میں  تو  سر  گنے  جاتے  ہیں  کہ  کتنے  لوگو  ں  نے  ووٹ  دیا  ہے  چاہے  ووٹ  دینے  والا  شرابی  کبابی  ہی  کیوں  نہ  ہو  لیکن  اسلام  میں  ووٹنگ  کا  سسٹم  نہیں  ہے  وہاں  تو  ووٹ  دینے  والے  انسان  کی  کوالیٹی  دیکھی  جاتی  ہے  تب  ہی  انہیں  ووٹ  کرنے  کی  اجازت  ہوتی  ہے  کاش  یہ  نظام  رایج  ہوتا  تو  کتنا  بہتر  ہوتا۔

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی