انمٹ نقوش چھوڑکر شب جمعۃ المبارک (۲۸ /ربیع الاول ۱٤٤٠ھ مطابق ۷ دسمبر ۲۰۱۸ )راھی ملک بقاء مولانا اسرارالحق قاسمی

*ایک نہایت افسوسناک خبر*

بقیة السلف ، عارف باللہ، ہندوستان کے معروف ومقبول عالم دین، ممتازقومی وملی رہنما،دارالعلوم دیوبندکے رکن شوری اورکشن گنج کے ممبرپارلیمنٹ حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے، آج صبح ساڑھے تین بجے اچانک دل کادورہ پڑنے سے مولاناکاانتقال ہوگیاہےـ اناللہ واناالیہ راجعون
حضرت کی طبیعت بالکل اچھی تھی، کل شام کوانھوں نے اپنے قائم کردہ ادارہ دارالعلوم صفہ، ٹپو،کشن گنج میں منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کی اوروہاں طلباواساتذہ سے خطاب بھی کیاتھاـ مگرموت وحیات اللہ عزوجل کی مرضی ومقدرات میں سے ہیں، چنانچہ بقضائے الہی حضرت مولانااس دارِ فانی سے رخصت ہوگئےہیں ـ حضرت مولانانے تقریباپچاس سال قوم وملت کی علمی، دینی، سماجی ورفاہی خدمات میں گزارا، آپ نے بہار،بنگال وجھارکھنڈمیں سیکڑوں مدارس ومکاتبِ دینیہ قائم کرکے جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں علم کاچراغ روشن کیا اورآخری سانس تک قوم وملت کی ہمہ گیر خدمات میں مصروف و سرگرم رہےـ آپ صاحبِ تصوف وسلوک بھی تھے اور کبارمشائخ اوراولیاء اللہ کے ہاتھوں پربیعت وسلوک کی منزلیں طے کی تھیں ـ
   ان شاء اللہ حضرت کی نمازجنازہ بعدجمعہ تین بجے ان کے آبائی وطن تاراباری، ٹپوضلع کشن گنج میں اداکی جائے گی اورمقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئے گی ـ رنج والم کی اس سخت گھڑی میں تمام برادرانِ اسلام سے گزارش ہے کہ حضرت کی مغفرت وبلندیِ درجات کی دعاؤں کے ساتھ حضرت کے اہلِ خانہ وجملہ پسماندگان کے لیےصبراستقامت کی خصوصی دعافرمائیں ـ
والسلام علیکم ورحمةالله وبركاته
نوشیراحمد
خادم حضرت مولانااسرارالحق قاسمی رحمةالله عليه وسکریٹری آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن

Phone & whatsapp: 9818893994



آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے :

 اخلاص کے چراغ اور بےلوث جدوجہد کی مجسم تصویر، حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی، سفر آخرت پر ایسے روانہ ہوئے ہیں کہ، یقین نہیں آتا ۔
 آپ، ملت اسلامیہ ہندیہ کے ان عظیم قائدین میں سے تھے جن کی تعلیمی، سیاسی اور سماجی خدمات و سرگرمیاں بظاہر خاموش ہوا کرتی تھیں لیکن درحقیقت ان کے نتائج پُر اثر اور پر شور ہوا کرتےتھے، ان کی عظیم خدمات سے ایک نسل رہتی دنیا تک فائدہ اٹھائے گی، غمِ امت میں تڑپنے اور کڑھنے والے اور طعن و تشنیع کی برسات میں بھی قومی ترقیات کے لیے فکرمند اور جواں عزم رہنے والے اس قحط الرجالی کے دور میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں، اور یہی دراصل اندھیروں کے چراغ ہوتےہیں، مولانا اسرار الحق صاحب ؒ کی وفات حسرت آیات ہے، ملت اسلامیہ ہندیہ کے درخشاں پہلوﺅں کی تاریخ آپکے بغیر نامکمل ہوگی_
ہماری دعا ہیکہ، رب عز و جل ان کی روح کو اپنے الطاف و انعام میں ڈھانپ لے، پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور ان کے کاز کو آگے بڑھانے کی ہمت عطا فرمائے ۔
 حضرت مرحومؒ طبقۂ علما سے کیا چاہتےتھے؟  آج کے انقلاب میں اس بابت آپکا مضمون شائع ہوا ہے، دیکھ کر اور پڑھ کر عجیب سا احساس ہورہاہے کہ، آج ہی آپکا مضمون شائع ہوا، اور آج ہی چل بسے_ ہمیں چاہيے کہ طبقۂ علما سے مرحوم کی گذارشات کو عام کریں اور ان پر عمل پیرا ہوں، یہی ان کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔
" آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے "
" سبزہء نورستان اس گھر کی نگہبانی کرے"

شریک غم: 
 #سمیعاللهخان
جنرل سیکرٹری: کاروانِ امن و انصاف


مولانا اسرارالحق قاسمی کا انتقال ملت کا عظیم نقصان :

مفتی اسماعیل
مولانا اسرارالحق قاسمیؒ کا انتقال، ملت اسلامیہ ہند اپنے ایک عظیم قائد سے محروم: لقمان ندوی
مولانا اسرار الحق قاسمی ایک گھنا سایہ دار درخت تھے: شمس الہدی قاسمی
آہ! حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ
مرد آہن کی رحلت!
جو جان انجمن تھا وہ کہاں چلا گیا!
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ
قائد و رہبر تھا جو اسرار وہ جاتا رہا
’مولانا اسرار الحق قاسمی کا انتقال ایک عہد کاخاتمہ ‘
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ

وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

امام و خطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی

اس دنیائے فانی میں بے شمار لوگ آنکھیں کھولتے ہیں، زندگی کی رہ گذر پر ان کا سفر جاری ہوتا ہے،

اور ایک حد پر پہنچ کر خاموشی سے مکمل ہوجاتاہے، ایک بے نام سی رہ گذر،جس کی کوئی منزل نہیں،ایک خاموش زندگی جو پانی کے بلبلے کی طرح سطح سمندر پر بلند ہوئی اور لمحوں میں فنا کی سرنگوں میں غائب۔

مقاصد حیات سے ناآشنا، محدود دائرے میں مقید،

کسی کارناموں کے تصور سے آزاد،کسی تاریخ میں داخل ہونے کے جذبوں سے یکسر لاتعلق،

انسانوں کی اس بھیڑ میں کچھ وجود ایسے بھی اس سینۂ گیتی پر رونما ہوتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں،فطری استعدادوں اور تعمیر وتہذیب کے بے پناہ جذبوں کے ذریعے عظمتوں کا قدم قدم پر مینار کھڑا کردیتے ہیں،اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے ماحول اور زمانے کو روشن کر جاتے ہیں،

حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب کی ذات انہیں تاریخ ساز لوگوں میں سے تھی جنھیں تاریخ نہیں بلکہ وہ زمانے کی پیشانیوں پر تاریخ رقم کرتے ہیں، مولانا اسرار الحق صاحب نے عام بچوں کی طرح اس عالم رنگ و بو میں آنکھیں کھولی تھیں مگر جب اس دنیا کو خیر باد کہا تو ان کی پشت پر کارناموں کی ایک کہکشاں تھی،ان کی رحلت سے ایک عالم میں ارتعاش پیدا ہوگیا،علمی دنیا سوگوار ہو گئی، دانشکدہ فکر و فن میں تاریکیوں کے سائے پھیل گئے،زبان خلق سے ہر سو یہ آواز آئی کہ أفق علم و فضل کا ایک تابناک ستارہ ٹوٹ کر بکھر گیا،

قدرت نے مولانا کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا،

وہ ایک ممتاز عالم دین بھی تھے اور اقلیم قلم کے بے تاج بادشاہ بھی،

ایک فیض رساں مدرس بھی تھے اور میدان خطابت کے بہترین شہسوار بھی،

سیاسی دشت کے کامیاب اور امانت دار رہنما بھی تھے اور سوداگران ضمیر وظرف کی بھیڑ میں حق وصداقت کا پرچم لہرانے والے بے باک صحافی بھی،

امت مسلمہ کا درد رکھنے والے عظیم داعی بھی تھےاور تزکیہ واحسان کی راہوں سے آشنا ایک مرد قلندر بھی،غرض ایک شخصیت تھی جو مختلف اوصاف وکمالات کے جلو میں راہ ارتقاء پر ہمہ دم رواں دواں تھی، آپ کی سرگرمیوں کے تسلسل،حرکت وعمل اور جہد ومشقت کے ہجوم کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی حیات،،

جاوداں،پیہم دواں ہردم رواں ہے زندگی،، کا مکمل آئینہ تھی،

اس سطح ارض پر ناموران زمانہ کی کمی نہیں ،خاندانی بلندیوں اور نسبی شہرتوں کی لہروں پر جو دنیا سے عظمتوں کا خراج وصول کرتے ہیں

مگر ایسی شخصیات خال خال وجود میں آتی ہیں جو خاندانی سناٹوں،ماحول کی کج ادائیوں،اور اسباب شہرت وناموری سے تہی مائیگی کے باوجود کارناموں کی ایک دنیا بساتی ہیں’

مولانا مرحوم کی زندگی نے اسی مؤخر الذکر صف میں رہ کر اپنے علمی ادبی سیاسی دعوتی سفر کا آغاز کیا اور اپنی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر زندگی کے ہر محاذ پر عظمتوں کے پرچم نصب کئے،

آپ کی ملی دینی تعلیمی، تصنیفی، صحافتی اور سیاسی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے’کہ مختصر سے لفظوں میں اس کا سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے،

مولانا مرحوم نے ابتدائی اور متوسط تعلیم علاقے کے مدرسے میں حاصل کی بعدازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1964میں اساطین امت سے اکتساب فیض کے بعد فراغت حاصل کی

فراغت کے بعد مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے میں کچھ عرصہ تک تدریس سے وابستہ رہے۔

مگر قوم مسلم کی پسماندگی نے زیادہ دن تک مدرسہ کی فضا میں رہنے نہیں دیا اور معاشرتی وسیاسی دشت میں پہونچا دیا،آپ نے محسوس کیا کہ امت کی ارتقاء علم میں پوشیدہ ہے اس علم کی ترویج کے لئے آپ نے جگہ جگہ مکاتیب قائم کئے،

عصری علوم کی دانش گاہیں قائم کیں،

اسلامی نظریات کی اشاعت اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے جذبات کے تحت صحافت کا سہارا لیا اور مختلف اخبارات ورسائل میں زندگی کے آخری مرحلے تک مضامین لکھے،جنھیں شوق کی نگاہوں سے لوگوں نے پڑھا،ان سے استفادہ کیا،اس سلسلے میں آپ کی تحریریں انتہائی سلیس،خوبصورت ،

ادبی محاسن اور خوبیوں سے معمور اور جاذبیت سے بھر پور ہوتی تھیں،کون جانتا ہے کہ کتنے لوگوں نے ان تحریروں سے اپنے قلوب کو منور کیا ہے’،کتنے بھٹکے ہوئے آہو کو حرم کا پتہ ملا ہے’،کتنے دلوں میں انقلاب کی ہوائیں چلی ہیں’،

جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے برسوں تک جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے آپ نے رفاہی اور ملی خدمات پیش کی ہیں’،

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی معیت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی ایک عرصے تک آپ کی زندگی معاشرتی وسماجی سرگرمیوں میں مصروف رہی،

آپ کی صلاحیتوں سرگرمیوں اور بے خدمات کے پیشِ نظر بورڈ نے رکنیت پیش کی،ملک کے مختلف

معتبر اداروں نے سرپرست بنایا۔چنانچہ آپ جہاں دارالعلوم دیوبند کے شوری کے ممبر تھے وہیں مسلم اقلیت کا مائہ ناز ادارہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بھی کورٹ کے ممبر تھے،

کشن گنج حلقہ سے دس سال تک پارلیمنٹ کے کامیاب ممبر ی بھی آپ کے حصہ میں رہی ہے،لیکن ان تمام بلندیوں کے باوجود آپ کی زندگی اس طرح سادہ تھی اور اس طرح بے نفس تھی کہ عام فرد یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی شخصیت ہے’جس کے روشن کردار کا پورے ملک ڈنکا بج رہا ہے۔

صحیح یہ ہے مولانا فطرتاً قلندر صفت تھے یہی وجہ تھی کہ شہرتوں اور عظمتوں کے ہفت آسماں پر پرواز کے باوجود بھی آپ کے طرز معاشرت آپ کی گفتگو،آپ کی نشست وبرخاست تمام تر تکلفات سے پاک اور قلندرانہ شان کے مطابق تھی،ہٹو بچو اور دیگر کروفر کا کہیں نام آپ کی رہ گذر میں نہیں تھا،اس کی ایک وجہ اغلبا یہ بھی تھی کہ آپ کی زندگی میکدہ معرفت کے بادہ و جام سے بھی سرشار تھی،فراغت کے بعد ہی آپ نے اپنا ہاتھ وقت کے ولی کامل مفتی مظفر حسین صاحب کے دست حق پرست میں دے دیا تھا ان کے انتقال کے بعد مولانا قمر زمان صاحب الہ آبادی کے آستانے سے آپ وابستہ ہوگئے تھے،

اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے

کہ زندگی موت کی تمہید ہے’لیکن کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے روشن کرداروں سے وقت کے چہرے پر اپنی عظمت کی تحریر لکھ جاتے ہیں، جو چراغوں سے بے شمار کارناموں کے سورج تراشتے ہیں،

وہ حسی اعتبار سے روپوش ضرور ہوتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوجاتے ہیں

وہ موت جو اوروں کے لئے گمنامی کا باعث ہے وہی ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی جاوداں زندگی کا پیغام بن جاتی ہے،

مولانا مرحوم بھی یقینا خاک وجسم کے اعتبار سے رخصت ہوچکے ہیں مگر اس حقیقت کو کون سمجھائے کہ یہ رحلت درحقیقت اس زندگی کی تمہید ہے’جسے فنا نہیں ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔۔۔۔۔۔لوگوں کے دلوں میں۔۔۔

تاریخ کے سنہرے اوراق میں۔۔۔۔

طالبان علوم کے اذہان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔


۔۔۔فکر و فن کے دانشکدوں میں۔۔۔۔۔۔فرشتوں کی محفلوں میں



آپ بہت یاد آٸیں گے حضرت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مولانا أسرار الحق صاحب قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جنازے اور مٹی سے ابھی کچھ دیر پہلےگھر پہونچا ہوں،ہمارے قافلے میں ضلع ارریہ کی بڑی بڑی شخصیات شریک جنازہ تھیں۔جنازہ عالم ربانی حضرت مولانا انوار عالم صاحب نے پڑھائی،حضرت والا کے جنازے میں شریک ان کے شیدائی اور چاہنے والے انسانی سروں کا سمندر امڈ پڑا تھا،ہمیں ٹریفک کے پیش نظر تقریباً چار کلومیٹر پیدل چلنا پڑا،نظر جدھراٹھتی مردانہ وار قافلے کا قافلہ جنازہ میں شرکت کے لئے رواں دواں تھا،ہجوم کی وجہ سے جنازے کو کندھا تو نہ دے سکا البتہ ہاتھ کا سہارا لگا کر ہں قلب مضطر کو سکون دے دیا۔
بحمد اللہ لاکھوں کے مجمع میں نمازِ جنازہ کے بعد تین لپ مٹی دینے کی سنت بھی ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا۔
مٹی دینے کے بعد تین چیزوں نے حضرت والا کی عقیدت مندی میں مزید اضافہ کردیا اور میرے صبح کے لکھے ہوئے مضمون کو حرف بہ حرف سچ ثابت کر دیا۔یقینا انہیں آپ بھی پڑھیں گے اور دیکھیں گے تو دم بخود رہ جائیں گے۔
{01} حضرت والا کا گھر
{02} حضرت والا کی مسجد
{03} حضرت والا کا مدرسہ
جنازہ کے بعد حضرت مولانا کے گھر سے متصل مسجدمیں عصر کی نماز ادا کی تومعلوم ہوا کہ یہ صرف نماز پنجگانہ کے لئے مسجد نہیں تھی بلکہ حسب موقع شب بیداری اور اصلاحی نسبت کے لئے اسے حضرت والا کے خانقاہ کی حیثیت بھی حاصل تھی۔
مغرب کے وقت حضرت کے مدرسہ دارالعلوم صفہ پہونچا جو ان کے گھر سے متصل ہے اور وہاں کے ناظم حافظ محمد عمر صاحب سے ملاقات کی تو مدرسہ کے معصوم بچوں نے گھیر لیا،چھوٹے چھوٹےبچوں نے کہا کہ مولانا صاحب!
حضرت کل مغرب بعد یہاں آۓ تھے،ہم سبھوں کو بٹھا کر نصیحت کرنے لگے اور عشا سے پہلے جلسے میں جانے لگے تو ہم بچوں سے مصافحہ کیا اور ناظم صاحب سے کہا کہ ہم سے جو غلطی ہوئی ہے آپ معاف کر دیجئے۔ناظم صاحب سے میں نے بات کی تو بہت ساری باتوں میں سے ایک بات یہ فرمایاکہ میں نے حضرت سے آج رات بہت ضد کیا کہ حضرت آپ سے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ایک وقت کا کھانا ہم لوگوں کے ساتھ کھا لیجئے تو آپ ہنس کر ٹال دیتے ہیں مگر آج تو کھانا ہوگا۔۔۔تواس پر حضرت نے فرمایا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ میرا گھر سامنے ہو اور میں مدرسہ کا کھانا کھالوں!
آخری بات:                           مجھے اشتیاق ہوا کہ پھر کبھی یہاں آنے کا موقع ملے نہ ملے حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کا گھر بھی دیکھ لینا چاہیے۔اچانک میری نظر رفیق مکرم مفتی انعام الباری صاحب قاسمی پر پڑی،میں ان کے ساتھ اندر کیا گیا کہ اس بندۂ درویش اور فنا فی اللہ MP کی سادگی و قناعت پسندی دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہو گیءں۔
پکے مکان کے صحن میں چھپر کا چولہا گھر،چولہے گھر کے اندر مکئی کے چھلکوں کا جلاون،غسل خانے کی طرف گیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک کنارے میں ایک بوسیدہ بیت الخلاء،بیت الخلاء کے سامنے دوتین پرانی بالٹی،پلاسٹک کے ایک دو لوٹے،اور وہیں دوسرے کونے میں چاول اور گیہوں کوٹنے والی زمانہ قدیم کی اوکھلی اور لکڑی اور مٹی سے بنے ہوئے ایک دو سامانِ زندگی۔
رفقاء گرامی!
آپ یقین کریں۔ یہ موجودہ وقت کے ایک MP کے گھر کے استعمال کی چیزیں ہیں۔ میرے سامنے ہزاروں لوگ اپنے اپنے موبائل سے مذکورہ بالا ایک ایک سامانِ زندگی کا فوٹو لے رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے ٹپک ٹپک کر گر رہے تھے۔
میں راستہ بھر سوچ رہا تھا کہ احادیث کی کتابوں میں حضرات صحابہ کرام کے طرزِ زندگی اور اکابرین کی سادگی و قناعت پسندی کے جو ناقابل یقین واقعات اپنے اساتذہ کرام سے ہم نے پڑھے یا سنے ہیں،لگتا ہے کہ حضرت مولانا أسرار الحق صاحب قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی ذاتی زندگی میں اسی کی عملی تصویر تھے۔اسی لئے راستہ میں واپسی پر پیدل چلتے ہوئے ایک بدو نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب!یہ بھیڑMP صاحب کے جنازے کی نہیں ہے بلکہ ایک درویش اور ولی کامل کے جنازے کی ہے۔حضرت والا سے بیسیوں اجلاس میں ملاقات ہوئی اور جب بھی ملتے اپنی پیاری مسکراہٹ سے دل جیت لیتے تھے اور ہمیشہ دعائیں دیتے ہوئے فرماتے:بہت خوب،بہت خوب*۔
اب اس دنیا میں حضرت سے کبھی ملاقات نہ ہوگی۔خدا آخرت میں ملا دے۔ان سے بعید نہیں ہے.
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!
اللہ مجھے معاف کرے!میں ان میں سے کچھ تصویریں آپ کے لئے شیر کررہا ہوں.
آپ جملہ احباب سے اس عاجز کے لئے بطور خاص خاتمہ بالخیر کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
       محمد اطہر القاسمی
07/12/2018

       ساڑھے نو بجے شب


جس کی زندگی جھد مسلسل سے۔۔۔

         از : محمد عفان منصور پوری 

۔ایک مرد قلندر جس کی زندگی جھد مسلسل سے عبارت رھی ، تعلیمی ملی ، سیاسی اور سماجی میدانوں میں زریں خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑکر شب جمعۃ المبارک (۲۸ /ربیع الاول ۱٤٤٠ھ مطابق ۷ دسمبر ۲۰۱۸ )راھی ملک بقاء ھوگیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ، تغمده الله بواسع رحمته ويسكنه فسيح جنانه .
     مولانا اسرار الحق قاسمی رحمہ اللہ نے غیر معمولی جد و جہد ، انتھک کوشش و لگن اور مقصد حق کی خاطر رات دن ایک کرکے بلندیوں اور کامیابیوں کے بام کو چھویا دو دو مرتبہ عوامی نمائندگی کرتے ھوئے پارلیمنٹ تک پہونچے لیکن عام نمائندگان سے بالکل مختلف مولانا اس ایوان میں بھی جہاں اچھے لوگ تلاش کرنے کے بعد بھی بہت کم مل پاتے ھیں نہ صرف یہ کہ اپنی شرافت و وضعداری کے اعتبار سے نمایاں و ممتاز رھے بلکہ اپنے قابل فخر اکابر کی روایات کو مضبوطی سے تھامے ہوئے عالمانہ شان کے ساتھ حق و صداقت کا آئینہ بھی دکھاتے رھے ۔
سب سے بڑی خوبی کی بات یہ کہ بلندیوں کے یہ مقام مولانا کے طرز و انداز اور معیار زندگی میں تبدیلی نہ لاسکے ، پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی شانہ پر رومال ڈالے ھوئے وہ اسی سادہ لباسی کے ساتھ موجود دکھائی دیتے جس کو پہن کر وہ اپنے علاقے کے غریب عوام کے درمیان جاتے تھے ( جب کہ عموما پارلیمنٹیرین اس ھاؤس کے لئے بیش قیمت جوڑے تیار کراتے ھیں ) یقینا آج ھمارا ملک ایک مثالی پارلیمنٹیرین سے بھی محروم ھوگیا ۔
        آپ اخیر تک عام لوگوں کے درمیان رھے اور انہی جیسی زندگی بسر کرنا اپنے لئے بھی پسند کرتے رھے ، آل انڈیا دینی تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے زیر اھتمام پسماندہ علاقوں میں مکاتب مدارس اور عصری تعلیم گاہوں کے قیام کے ذریعہ قوم کو زیور علم سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے رھے ، کشنگنج میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی شاخ کا قیام آپ ھی کی غیر معمولی دلچسپی اور تحریک کا نتیجہ ھے۔

      دارالعلوم دیوبند اور جمعیت علماء ھند آپ کے علمی فکری اور نظریاتی مراکز تھےاول الذکر تو آپ کا مادر علمی تھا اور اسی کی پاکیزہ فضاؤں میں پروان چڑھ کر آپ نے علمی کمالات اور اسلاف کی روش کو سینہ سے لگایا تھا اور ثانی الذکر یعنی جمعیت علماء ھند کا متحرک پلیٹ فارم  آپ کی ھمہ جہت جہد عمل کا وہ اولین مرکزی میدان تھا جس سے وابستہ ھوکر آپ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ، ملک وملت کے مخلص و باشعور قائدین کے ساتھ ملکر حالات کا مقابلہ کیا ، قوم و وطن اور انسانیت  کی خدمت کے طریقہ کار کو جانا ، تادم آفریں اسی پر کاربند رھے اور ملک وملت کے تئیں وہ طویل اور قابل قدر خدمات انجام دیں جن کو فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔

     فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کا حد درجہ اعتماد آپ کو حاصل تھا ، طویل زمانہ تک سرد و گرم حالات میں قوم وطن کی خاطر دونوں کو پگھلتے سلگتے راتوں کی نیند اور دن کے چین کو قربان کرتے دیکھا گیا ، مولانا مرحوم اخیر تک حضرت فدائے ملت نور اللہ مرقدہ کی جرأت و بے باکی اور ھنگامی حالات میں انسانیت کی حفاظت کے لئے بے خطر میدان عمل میں کود پڑنے کو تفصیل سے ذکر کرتے واقعات کا تو ان کے پاس ایسا سلسلہ تھا جو ختم ھونے کا نام نہ لیتا تھا ، اعتراف کرتے تھے کہ حضرت فدائے ملت کے ساتھ رہ کر ھمیں دنیا کو سمجھنے کا اور کام کرنے کا طریقہ معلوم ھوا ۔

       دینی ملی سیاسی ھر طرح کے عناوین پر بکثرت آپ کے سنجیدہ مضامین بھی اخبارات و رسائل کی زینت بنتے اور ان کو توجہ کے ساتھ پڑھا بھی جاتا۔
تقریر بھی آپ کی معلومات افزا ھوتی تھی ، اسلوب خطیبانہ تھا اور آواز میں بھی کڑک تھی ، ھر طرح کے جلسوں میں بلائے جاتے اور تقاضائے حال کے مطابق بہترین گفتگو فرماتے ۔


 زندگی کے بیاسی سال تک  انتھک محنت کرنے والا مرد مومن محنت کرتے کرتے آرام کی ابدی نیند سوگیا اور اپنے ساتھ نیکیوں کا ایسا دفتر لے گیا جس کی جزاء رب ذوالجلال انشاءاللہ اپنی شان عالی کے مطابق مرحمت فرمائیں گے  
*پٹنہ میں حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی کی ملی ،دینی و سیاسی خدمات کے اعتراف میں’محسنِ ملت سیمینار‘30 دسمبر کو*
*اہم علمی،سماجی و سیاسی شخصیات کی شرکت یقینی،اہل علم ودانش سے شرکت کی اپیل*
کشن گنج:گذشتہ نصف صدی کے دوران جن علما ودانشوران کی خدمات ملی وحدت،قومی ترقی،سماجی فلاح وبہبود اور مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی کی جدوجہد کے لئے وقف رہی ہیں ان میں مولانامحمداسرارالحق قاسمی کا ایک نمایاں نام ہے۔مولانا مرحوم متنوع خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل تھے، ان کے خدمات کئی جہتوں سے قابل توجہ ہیں۔انہوں نے سیاسی، سماجی، فلاحی، تعلیمی ،صحافتی اور تصنیفی ہر میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ملک وملت کے لئے انہوں نے گراں قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ مرحوم کی 50سالہ دینی،علمی،سماجی ،سیاسی،صحافتی اورتعلیمی خدمات کے اعتراف میں وژن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ کے زیراہتمام اورنورایجوکیشنل اینڈویلفئرسوسائٹی،جمالپور دربھنگہ کے اشتراک سے ’’محسنِ ملت سیمینار‘‘مورخہ :30دسمبر2018،بروز اتوار ،10:30AM بہار اردواکادمی،اشوک راج پتھ، پٹنہ کے سیمینار ہال میں منعقد کیا جائے گا۔یہ اطلاع نورالسلام ندوی نے دی۔انہوں نے کہا کہ سیمینار کی صدارت مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ،پٹنہ کریں گے،سیمینار میں مولانا ابو طالب رحمانی رکن مسلم پرسنل لا بورڈ،مولانا مشہوداحمد قادری ندوی،پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ ،مولانا خالد نیموی قاسمی،احمد اشفاق کریم رکن راجیہ سبھا،محبوب علی قیصررکن پالیمنٹ،سرفراز عالم رکن پالیمنٹ،مولانا مطیع الرحمن سلفی،چیئر مین توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ، کشن گنج،الحاج محمد ارشاد اللہ چیرمین بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ پٹنہ،امتیاز احمد کریمی ڈائرکٹراردو ڈائرکٹوریٹ،محکمہ کابینہ سکریٹریٹ،پٹنہ،قاری صہیب صدر آر جے ڈی یوتھ،بہار،ڈاکٹر عبد الرحمن تیمی،جامعہ امام ابن تیمیہ،چمپارن، مولانا شاہنواز بدر قاسمی ڈائرکٹر وژن انٹر نیشنل اسکول،سہرسہ شرکت کریں گے اور اپنے مقالے اور تقاریر پیش کریں گے۔ *ان کے علاوہ حضرت رح کے خادم* مولانا نوشیر احمد اور *صاحبزادہ مولانا سعود عالم ندوی ازہری* خصوصی طورپراس سیمینار میں شرکت کریں گے۔مولانانوشیراحمد ان دنوں کشن گنج میں ہیں ،انہوں نے کہاکہ اب تک پورے سیمانچل میں اور اس سے باہر ملک بھر کے مختلف علاقوں میں مولانا مرحوم کے لئے جس بڑے پیمانے پر تعزیتی جلسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیاجارہاہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ انہیں مسلمانوں میں غیر معمولی مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی اور لوگوں کے دلوں میں ان کی بے پناہ قدرومنزلت تھی اور لوگوں کوبھی احساس ہورہاہے کہ مولانا مرحوم اپنی قوم و ملت کے ایک عظیم قائدورہبر اور ان کا دردرکھنے والے رہنماتھے۔انہوں نے کہا کہ پٹنہ میں منعقد ہونے والے اس سیمینار میں مولانامحمد اسرارالحق قاسمی ؒ کی زندگی اور کارناموں کے علاوہ ان کے فکر وعمل کے بعض وہ گوشے جن سے عموما لوگ نا آشنا ہیں ان پر بطور خاص روشنی ڈالی جائے گی۔یہ سیمینار مولانا کی شخصیت اور خدمات سے نئی نسل کو متعارف کرانے میں سنگ میل ثابت ہوگا ۔انہوں نے تمام علم دوست اور ملی وسماجی شخصیات سے سیمینار میں شرکت کی گزارش کی ہے۔
*اس موقع پر ٹیرھا گاچھ کشن گنج کے مشہور نعت خواں حافظ اسجد امینی حضرت رح کی حیات و خدمات پر مرثیہ پیش کریں گے*

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی