سلطان صلاح الدین ایوبی اسلامی کارنامے

جب زکوئ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پہنچی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ "تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک خطرناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھوں" یہ تاریح الفاظ سلطان صلاح الدین نے اپنے چچا زاد بھای حلیفہ الصالح کے ایک امیر سیف الدین کو لکھے تھے، ان دونوں نے صلیبوں کو درپردہ مدد زر و جوھرات کا لالچ دیا اور صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی سازش کی، امیر سیف الدین اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگا، اسکے زاتی خیمہ گاہ سے رنگ برنگی پرندے ، حسین اور جوان رقصایئں اور گانے والیاں ساز اور سازندے شراب کے مٹکے برامد ھوے ، سلطان نے پرندوں گانے والیوں اور سازندوں کو آزاد کردیا اور امیر سیف الدین کو اس مضمون کا خط لکھا "تم دونوں نے کفار کی پشت پناھی کر کہ ان کے ہاتھوں میرا نام و نشان مٹانے کی ناپاک کوشش کی مگر یہ نہ سوچا کہ تمھاری یہ ناپاک کوشش عالم اسلام کا بھی نام و نشان مٹا سکتی تھی۔ تم اگر مجھ سے حسد کرتے ھوں تو مجھے قتل کرادیا ھوتا ، تم مجھ پر دو قاتلانہ حملے کرا چکے ھو۔ دونوں ناکام ھوے اب ایک اور کوشش کر کہ دیکھ لو، ھو سکتا ھے کامیاب ھو جاو۔ اگر تم مجھے یقین دلا دو کہ میرا سر میرے تن سے جدا ھو جاے تو اسلام اور زیادہ سر بلند رھے گا تو رب کعبہ کی قسم میں اپنا سر تمھاری تلوار سے کٹوا دونگا اور تمھارے قدموں میں رکھنے کی وصیت کرونگا میں صرف تمھیں یہ بتادینا چاھتا ھوں کہ کوی غیر مسلم مسلمان کا دوست نھی ھو سکتا، تاریح تمھارے سامنے ھے اپنا ماضی دیکھو، شاہ فرینک اور ریمانڈ جیسے اسلام دشمن تمھارے دوست اسلیئے ھے کہ تم نے انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اترنے کی شہ اور مدد دی ھے۔ اگر وہ کامیاب ھو جاتے تو انکا اگلا شکار تم ھوتے اور اس کے بعد ان کا یہ خواب بھی بھی پورا ھو جاتا کہ اسلام صفحہ ھستی سے مٹ جاے۔ تم جنگجو قوم کے فرد ھوں۔ فن سپاہ گری تمھارا قومی پیشہ ھے ھر مسلمان اللہ کا سپاھی ھے مگر ایمان اور کردار بنیادی شرط ھے۔ تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک حطرناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھوں میں تم سے درخواست کرتا ھوں کہ میرے ساتھ تعاون کرو اور میرے ساتھ جہاد میں شریک ھوجاو، اگر یہ نہیں کرسکو تو میری مخالفت سے باز آجاو، میں تمھیں کوی سزا نہیں دونگا۔۔۔۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کریں۔۔۔۔۔ از صلاح الدین ایوبی" ایک یورپی مورخ لین پول لکھتا ھے " صلاح الدین کے ہاتھوں جو مال غنیمت لگا اسکا کوی حساب نہیں تھا، جنگی قیدی بھی بے اندازہ تھے، سلطان نے تمام تر مال غنیمت تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جنگیں قیدیوں میں تقسیم کر کہ انکو رھا کردیا، دوسرا حصہ اپنے سپاھیوں اور غرباء میں تقسیم کیا، اور تیسرا حصہ مدرسہ نظام المک کو دے دیا، اس نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ نہ خود کچھ رکھا اور نہ اپنے کسی جرنیل کو کچھ دیا، اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ جنگی قیدی جن میں بھت سے مسلمان تھے اور باقی غیر مسلم ، رھا ھوکر سلطان کے کیمپ میں جمع ھوگیے اور سلطان کی اطاعت قبول کر کہ اپنی خدمات فوج کے لیے پیش کردی ایوبی کی کشادہ ظرفی اور عظمت دور دور تک مشہور ھوگئ اس سے پہلے منافق حسب بن صباح کے پراسرار فرقے فدائ جنھیں یورپین مورخین نے قاتلوں کا گروہ لکھا ھے صلاح الدین ایوبی پر دو بارہ قاتلانہ حملے کرچکے تھے لیکن اللہ نے اس عظیم مرد مجاھد سے بہت کام لینا تھا دونوں بار ایک معجزہ ھوا جس میں یہ مرد مجاھد بال بال بچ گیا سلطان پر تیسرا قاتلانہ حملہ اس وقت ھوا جب وہ اپنے مسلمان بھایئوں اور صلیبوں کی سازش کی چھٹان کو شمشیر سے ریزہ ریزہ کرچکا تھا۔ امیر سیف الدین میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا مگر وہ سلطان کے خلاف بعض اور کینہ سے باز نہیں آیا۔ اس نے حسن بن صباح کے قاتل فرقے کی مدد حاصل کی۔ حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کی آستین میں سانپ کی طرح پل رھا تھا۔ اس کا تفصیلی تعارف بھت ھی طویل ھے، مختصر یہ کہ جس طرح زمین سورج سے دور ھوکر گناھوں کا گہوارہ بن گی ھے، اسی طرح ایک حسن بن صباح نامی ایک شحص نے اسلام سے الگ ھوکر نبیوں اور پیغمبروں والی عظمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا وہ اپنے آپکو مسلمان ھی کہلاتا رھا اور ایسا گروہ بنالیا جو طلسماتی طریقوں سے لوگوں کا اپنا پیروکار بناتا ، اس مقصد کے لیے اس گروہ نے نہایت حیسن لڑکیاں نشہ آور جڑی بوٹیاں ھیپناٹزم اور چرب زبانی جیسے طریقے اپناے، بہشت بنائ جس میں جاکر پتھر بھی موم ھو جاتے تھے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کے لیے ایک گروہ تیار کیا، قتل کے طریقے خفیہ اور پر اسرار ھوتے تھے، اس فرقے کے افراد اس قدر چلاک زہین اور نڈر تھے کہ بھیس بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ بن جاتے تھے اور جب کوی پراسرار طریقے سے قتل ھوجاتا تو قاتلوں کو سراغ ھی نہ مل پاتا، کچھ عرصہ بعد یہ فرقہ "قاتلوں کا گروہ" کے نام سے مشہور ھوا یہ لوگ سیاسی قتل کے ماھر تھے زھر بھی دیا کرتے تھے، جو حسین لڑکیوں کے ہاتھوں شراب میں دیا جاتا تھا بھت مدت تک یہ فرقے اسی مقصد کے لیے استعمال ھوتا رھا۔۔ اسکے پیروکار "فدائ" کہلاتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہ تو لڑکیوں سے دھوکہ دیا جاسکتا تھا اور نہ ھی شراب سے۔ وہ ان دونوں سے نفرت کرتا تھا ، سلطان کو اس طریقے سے قتل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کو قتل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جاے ، اسکے محافظوں کی موجودگی میں اس پر حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا، دو حملے ناکام ھو چکے تھے۔ اب جبکہ سلطان کو یہ توقع تھی کہ اسکا چچازاد بھای الصالح اور امیر سیف الدین شکست کھا کر توبہ کر چکے ھونگے انھوں نے انتقام کی ایک اور زیر زمین کوشش کی۔ صلاح الدین نے اس فتح کا جشن منانے کے بجاے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں لیا، ان میں غازہ کا مشہور قصبہ تھا، اسی قصبے کے گردونواح میں ایک روز سلطان صلاح الدین ایوبی ، امیر جاوالاسدی کے خیمے میں دوپہر کے وقت غنودگی کے عالم میں سستا رھے تھے، سلطان نے وہ پگڑی نھی اتاری تھی جو میدان جنگ میں سلطان کے سر کو صحرا کی گرمی اور دشمن کے تلوار سے بچا کر رکھتی تھی۔ خیمے کے باھر اسکے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا، باڈی گارڈز کے اس دستے کا کمانڈر زرا سی دیر کے لیے وھاں سے چلا گیا، ایک محافظ نے سلطان کے خیمے میں گرے ھوے پردوں میں سے جھانکا، اسلام کے عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھی اور پیٹھ کے بل لیٹا ھوا تھا، اس محافظ نے باڈی گارڈز کی طرف دیکھا، ان میں سے تین چار باڈی گارڈز نے اسکی طرف دیکھا، محافظوں نے اپنی آنکھیں بند کر کہ کھولی ایک خاص اشارہ کے ساتھ تین چار محافظ اٹھے اور دو تین باقی باڈی گارڈز کو باتوں میں لگالیا، محافظ خیمے میں چلا گیا۔۔۔ اور خنجر کمر بند سے نکالا۔۔۔ دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوے ھوے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جست لگای۔ خنجر والا ھاتھ اوپر اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔ عین اسی وقت سلطان نے کروٹ بدلی، یہ نھی بتایا جاسکتا کہ حملہ آور خنجر کہاں مارنا چاھتا تھا، دل میں یا سینے میں۔۔۔ مگر ھوا یوں کہ خنجر سلطان کی پگڑی کے بالائ حصے میں اتر گیا، اور سر بال برابر جتنا دور رھا اور پگڑی سر سے اتر گی، سلطان صلاح الدین بجلی کی تیزی سے اٹھا، اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ سب کیا ھے ۔ اس پر اس سے پہلے دو ایسے حملے ھو چکے تھے۔ اس نے اس پر بھی اظہار نہیں کیا کہ حملہ آور خود اسکی باڈی گارڈ کی وردیوں میں تھے، جسے اس نے خود اپنے باڈی گارڈز کے لیے منتحب کیا تھا، اس نے ایک سانس برابر بھی اپنا وقت ضایع نہ کیا ۔ حملہ آور اپنا خنجر پگڑی سے کھینچ رھا تھا۔ ایوبی کا سر ننگا تھا۔۔ اس نے بھر پور طاقت سے ایک گھونسہ حملہ آور کی توڑی پر دیں مارا۔ ھڈی ٹوٹنے کی آواز آی۔ حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا، وہ پیچھے کی طرف گرا اور اسکے منہ سے ہیبتناک آواز نکلی۔اسکا خنجر سلطان کی پگڑی میں رہ گیا تھا، سلطان نے اپنا خنجر نکال لیا تھا، اتنے میں دو محافظ اندر آے ، ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھی، سلطان صلاح الدین نے انھیں کہا کہ ان کو زندہ پکڑو۔ لیکن یہ دونوں محافظ سلطان صلاح الدین پر ٹوٹ پڑے، سلطان صلاح الدین نے ایک خنجر سے دو تلواروں کا مقابلہ کیا۔یہ مقابلہ ایک دو منٹ کا تھا۔ کیونکہ تمام باڈی گارڈز اندر داخل ھو چکے تھے، سلطان صلاح الدین یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے باڈی گارڈز دو حصوں میں تقسیم ھوکر ایک دوسرے کو لہولہان کر رھے تھے، اسے چونکہ معلوم ھی نہ تھا کہ ان میں اسکا دوست کون ھے اور دشمن، سو وہ اس معرکہ میں شامل ھی نہیں ھوا، کچھ دیر بعد باڈی گارڈز میں چند مارے گیے کچھ بھاگ گیے کچھ زخیمی ھوے، تو انکشاف ھوا کہ یہ جو دستہ سلطان صلاح الدین کی حفاظت پر مامور تھا اس میں سات فدائ تھے جو سلطان صلاح الدین کو قتل کرنا چاھتے تھے، انھوں نے اس کام کے لیے صرف ایک فدائ کو اندر خیمے میں بیجھا تھا، اندر صورت حال بدل گی تو دوسرے بھی اندر چلے گیے، اصل محافظ بھی اندر چلے گیے وہ صورت حال سمجھ گیے ، سو سلطان صلاح الدین بچ گیے۔ سلطان صلاح الدین نے اپنے پہلے حملہ آور ھونے والے کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر پوچھا ، کہ وہ کون ھے اور اسکو کس نے بیجھا ھے۔ سچ کہنے پر سلطان نے اسکے ساتھ جان بحشی کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ " فدائ " ھے اور اسکو کیمیشتکن ) جسے بعض مورخین نے گمشتگن بھی لکھا ھے( نے بیجھا ھے کیمیشتکن الصالح کے قلعے کا ایک گورنر تھا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اصل وقعات کی طرف آنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ھوتا ھے کہ ان واقعات سے پہلے کے دور کودیکھا جاے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام عظمت اسلام کی عظمت اور اسکے کارناموں سے مسلم اور غیر مسلم کون واقف نہیں ؟ ملت اسلامیہ تو سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھول ھی نہیں سکتی۔ مسیحی دنیا بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کو رھتی دنیا تک یاد رکھے گی۔ کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی صلیبی جنگوں اور صلیبوں کے دور حکومت میں ایک مسلمان شیر تھا۔جس نے ھزاروں زخم دیے مسیحی برادری کو۔ سو لہذا یہ ضروری معلوم نہیں ھوتا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی شجرہ نسب کو تفصیل سے بیان کیا جاے۔ اسلام اور انسان پر ھم آپکو ایسے واقعات سنانے جا رھے ھیں جس کی وسعت کے لیے تاریح کا دامن بہت ھی چھوٹا پڑ جاتا ھے، یہ تفصیلات وقائع نگاروں اور قلم کاروں کی ریکارڈ کی ہوئی ھے، کچھ سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک پہنچی، تاریح نے صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے کارنامے محفوظ کیے ھے کیونکہ تاریح بہت کم پڑ جاتی ھے سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے آگے، ان سازشوں کا زکر تاریح نے بھت کم کیا ھے، جو اپنوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف کیے اور اسکے شہرت تاریحی عظمت کو داغدار بنانے کے لیے ایسی ایسی حسن والی لڑکیاں بار بار استعمال کی ، جن کا حسن طلسماتی تھا۔ تاریح اسلام کا یہ حقیقی ڈارمہ ٢٣ مارچ ١١٦٩ کے روز سے شروع ھوتا ھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی کو مصر کا واسراۓ اور فوج کا سپہ سالار اعظم بنایا گیا۔ اسے اتنا بڑا ربتہ ایک تو اسلیے دیا گیا کہ وہ حکمرانوں کے گھروں کا نونہال تھا اور دوسرا اسلیئے کہ اوائل عمری میں ھی وہ فن حرب و ضرب کا ماھر ھوگیا تھا۔ سپاہ گری ورثے میں پای تھی، سلطان صلاح الدین ایوبی کے معنوں میں حکمرانی بادشاھی نہیں قوم کی عظمت اور فلاح و بہبود تھا، اسکا جب شعور بیدار ھوا تو پہلی خلش یہی محسوس کی وہ یہ تھی کہ مسلمان حکمرانوں میں نہ صرف یہ کہ اتحاد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بھی گریز کرتے تھے، وہ عیاش ھو گیے تھے، شراب اور عورت نے جہاں انھیں انکی زندگی رنگین بنا رکھی تھی وھاں عالم اسلام اور اور اس عظیم مذہب کا مستقبل تاریک ھوگیا تھا، ان امیروں حکمرانوں اور ریئسوں کے حرم غیر مسلم لڑکیوں سے بھرے رھتے تھے، زیادہ تر لڑکیاں یہودی اور عیسائ تھی جن کو خاص تربیت دیں کر ان حرموں میں داخل کیا گیا تھا، غیر معمولی حسن اور ادکاری میں کمال رکھنے والی یہ لڑکیاں مسلمان حکمرانوں اور سربراھوں کے کردار اور قومی جذبے کو دیمک کی طرح چاٹ رھی تھی، اسکا نتیجہ یہ تھا کہ صلیبی جن میں فرینک) فرنگی( خاص طور پر قابل ذکر ھے مسلمانوں کی سلطنتوں کو ٹکڑے کرتے ھڑپ کرتے جارھے تھے، اور بعض مسلمان تو شاہ فرینک کو سالانہ ٹیکس اور جزیہ بھی دیتے تھے جس کی مثال غنڈہ ٹیکس کی سی تھی، صلیبی اپنی جنگی قوت کے رعب اور چھوٹے چھوٹے حملوں سے مسلمان حکمرانوں کو ڈراتے رہتے کچھ علاقوں پر قبضہ کرتے ٹیکس اور تاوان وصول کرتے۔۔ان کا مقصد یہ تھا کہ آھستہ آھستہ دنیاۓ اسلام کو ھڑپ کر لیا جاے۔ مسلمان رعایا کا خون چوس کر ٹیکس دیتے رھتے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ بس انکی عیش و عشرت میں خلل نھی آجانا چاھیے۔ فرقہ پرستی کے بیچ بو دیئے گیئے تھے، ان میں سب سے زیادہ حطرناک فرقہ منافق حسن بن صباح کا تھا، جو صلاح الدین کی جوانی سے ایک صدی پہلے وجود میں آیا تھا، یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ تھا ، حد سے زیادہ خطرناک اور پراسرار۔ یہ لوگ اپنے آپکو " فدائ" کہلاتے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے مدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی، یاد رھیے کہ نظام الملک دنیاے اسلام کے ایک وزیر تھے یہ مدرسہ انھوں نے تعمیر کیا، جس میں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی، اور بچوں کو اسلامی تاریح اور نظریات سے بہرور کیا جاتا ۔ ایک مورح ابن الاطہر کے مطابق نظام الملک منافق حسن بن صباح کے فدائیوں کا پہلا شکار ھوے تھے کیونکہ وہ رومیوں کی توسیع پسندی کی راہ میں چٹان بنے ھوے تھے رومیوں نے ٩١ہ١ میں انھیں فدائیوں کے ہاتھوں قتل کردیا۔ ان کا مدرسہ قائم رھا، اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے وہی سے تعلیم حاصل کی۔ اسی عمر میں سپاہ گری کی تربیت اپنے حاندان کے بڑوں سے لی۔ نورالدین زنگی نے انکو جنگی چالیں سکھای، ملک کے انتظامات کے سبق سکھاے اور ڈیپلومیسی میں مہارت دی، اس تعلیم و تربیت نے اسکے اندر وہ جذبہ پیدا کیا جس نے آگے چل کر صلیبیوں کے لیے سلطان کو قہر برپا کرنے والی بجلی بنادیا۔ جوانی میں ھی سلطان نے وہ مہارت زھانت اور اھلیت حاصل کی تھی جو ایک سالار عظیم کے لیے اھم ھوتے ھے۔ سلطان صلاح الدین نے فن حرب و ضرب میں جاسوس گوریلا اور کمانڈو آپریشنز کو خصوصی اھمیت دی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی جاسوسی کی میدان میں آگے نکل گیے تھے اور وہ مسلمانوں کے نظریات پر نہایت کارگر حملے کر رھے تھے۔ سلطان صلاح الدین نظریات کے محاذ پر لڑنا چاھتا جس میں تلوار استعمال نہیں ھوتی تھی۔ ان واقعات میں آپ چل کر دکھینگے کہ سلطان صلاح الدین کی تلوار کا وار تو گہرا ھوتا ہی تھا لیکن اسکی محبت کا وار تلوار سے بھی زیادہ مارتا تھا، اس کے لیے تحمل اور بردباری کی ضرورت ھوتی تھی جو سلطان صلاح الدین نے جوانی میں ھی خود کے اندر پیدا کر دی تھی۔ سلطان صلاح الدین کو جب مصر کا وایسراۓ بناکر بیجھا گیا تو وھاں پر سینئر عہدئداروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ سب اس عہدے کی آس لگاے بیٹھے تھے۔ انکی نظر میں سلطان صلاح الدین طفل مکتب تھا ، لیکن جب سلطان صلاح الدین نے انکا سامنا کیا اور باتیں سنی تو ان کا احتجاج سرد پڑگیا۔ یورپین مورخ لین پول کے مطابق سلطان صلاح الدین ڈسپلن کا بہت ھی سخت ثابت ھوا ۔ اسنے تفریح عیاشی اور آرام کو اپنے اور فوج کے لیے حرام قرار دیا۔ اس نے اپنی تمام جسمانی اور زھنی قوت صرف اس میں خرچ کی کہ ملت اسلامیہ کو پھر سے ایک کر سکیں اور صلیبیوں کو یہاں کی سرزمین سے نکال سکے۔سلطان صلاح الدین فلسطین پر ھر قیمت سے قبضہ کرنا چاھتا تھا۔ اور یہی مقاصد سلطان صلاح الدین نے اپنی فوج کو دیئے مصر کا وایسراۓ بن کر سلطان نے کہا۔۔۔۔۔۔۔ " *اللہ نے مجھے مصر کی سرزمین دی ھے اور اللہ ھی مجھے فلسطین بھی عطا کرے گا،"* مگر مصر پہنچ کر سلطان پر انکشاف ھوا کہ اسکا مقابلہ صرف صلیبیوں سے نہیں ھے بلکل اسکے اپنے مسلمان بھائیوں نے اسکی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بنا رکھے ھے جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوتوں سے زیادہ خطرناک ھے تو یہ تھا ہلکہ سا تعارف مصر میں جن زعما نے سلطان کا استقبال کیا ان میں ایک ناجی نامی سالار بہت اھمیت کا حامل تھا، سلطان نے سب کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ سلطان کے ھونٹوں پر مسکراھٹ اور زبان پر پیار کی چاشنی تھی۔ بعض پرانے افسروں نے سلطان کو ایسی نظروں سے دیکھا جن میں طنز اور تمسحیر تھی۔ وہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے واقف تھے یا یہ کہ یہ ایک شاھی حاندان کا فرد ھے اور اپنے چچا کا جانشین ھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نورالدین زنگی کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کیا رشتہ ھے ، ان سب کی نگاھوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی اھمیت بس اسکے خاندان بیک گراونڈ کی وجہ سے تھی یا صرف یہ کہ وہ مصر کا وایسراۓ بن کر آیا تھا اس کے سوا انھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کوی وقعت نہ دی، ایک بوڑھے افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افسر کے کان میں کہا" "بچہ ھے۔۔۔۔۔ اسے ھم پال لینگے،" اس وقت کے مورخ یہ نہیں لکھ پاے کہ آیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکی نظریں بھانپ لی تھی کہ نہیں ۔ وہ استقبال کرنے والے اس ھجوم میں بچہ لگ رھا تھا، البتہ جب وہ ناجی کے سامنے ہاتھ ملانے کے لیے رکا تو اسکے چہرے پر تبدیلی آگی۔ وہ ناجی سے ہاتھ ملانا چاھتا تھا لیکن ناجی جو اسکے باپ کے عمر کا تھا سب سے پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح جھکا پھر ایوبی سے بغل گیر ھوگیا اس نے ایوبی کی پیشانی کو چھوم کر کہا۔ "میری خون کا آخری قطرہ بھی آپکی حفاظت کے لیے ھوگا۔ تم میرے پاس زنگی اور شردہ کی امانت ھوں" "میری جان عظمت اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں محترم اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کر رکھیں، صلیبی سیاہ گھٹاوں کی طرح چھا رھے ھیں۔" سلطان نے کہا۔ ناجی جواب میں مسکرایا جیسے سلطان نے کوی لطیفہ سنایا ھوں، سلطان صلاح الدین اس تجربہ کار سالار کی مسکراھٹ کو غالبا نہیں سمجھ سکا۔ ناجی فاطمی خلافت کا پروردہ سالار تھا، وہ مصر میں باڈی گارڈز کا کمانڈر انچیف تھا۔جس کی نفری پچاس ھزار تھی اور ساری کی ساری نفری سوڈانی تھی۔یہ فوج اس وقت کے جدید ھتیاروں سے لیس تھی اور یہی فوج ناجی کا ھتیار بن گی تھی جس کے زور پر ناجی بے تاج بادشاہ بن گیا تھا، وہ سازشوں اور مفاد پرستوں کا دور رھا ، اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ھوگی تھی، صلیبیوں کی بھی نہایت دلکش تحزیب کاریاں شروع رھی۔ زر پرستی اور تعیش کا دور دورہ تھا۔جس کے پاس زرا سی بھی طاقت تھی وہ اسکو دولت اور اقتدار کے لیے استعمال کرتا تھا۔سوڈانی باڈی گارڈ فوج کا کمانڈر ناجی مصر میں حکمرانوں اور دیگر سربراھوں کے لیے دھشت بنا ھوا تھا۔ اللہ نے اسکو سازش ساز دماغ دیا تھا۔ ناجی کو اس دور کا بادشاہ ساز کہا جاتا تھا بنانے اور بگاڑنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سلطان صلاح الدین کو دیکھا تو اسکے چہرے پر ایسی مسکراھٹ آئی جیسے ایک کمزور اور حفیف بھیڑ کو دیکھ کر ایک بھیڑیئے کے دانت نکل آتے ھے، سلطان صلاح الدین اس کا زھر حندہ سمجھ نہ سکا۔۔ سلطان صلاح الدین کے لیے سب سے زیادہ اھم آدمی ناجی ھی تھا۔کیونکہ وہ پچاس ھزار باڈی گارڈز کا کمانڈر رھا۔اور سلطان صلاح الدین کو فوج کی بہت اشد ضرورت تھی۔ سلطان صلاح الدین سے کہا گیا کہ حضور بڑی لمبی مسافت سے تشریف لاے ھے پہلے آرام کر لیں تو سلطان صلاح الدین نے کہا، " میرے سر پر جو دستار رکھی گی ھے میں اسکے لائق نہ تھا اس دستار نے میری نیند اور آرام ختم کردی ھے کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچھے لیکر نہیں جاینگے جس کے نیچھے میرے فرائض میرا انتظار کر رھے ھیں۔" "کیا حضور کام سے پہلے طعام لینا پسند کرینگے" اسکے نائب نے کہا سلطان صلاح الدین نے کچھ سوچا اور اسکے ساتھ چل پڑا۔۔ لمبے ٹرنگے باڈی گارڈز اس عمارت کے سامنے دو رویہ دیوار بن کر کھڑے تھے جس میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین نے فوجیوں قدبت اور ھتیار دیکھے تو اسکے چہرے پر رونق آگی۔لیکن دروازے میں قدم رکھتے ھی یہ رونق ختم ھوگی وھاں چار نوجوان لڑکیاں جن کے جسموں میں زھد شکن لچک اور شانوں پر بکھرے ھوے ریشمی بالوں میں قدرت کا حسن سمویا ھوا تھا ھاتھوں میں پھولوں کی پتیوں سے بھری ھوی ٹوکریاں لیں ھوے کھڑی تھی۔ انھوں نے سلطان صلاح الدین کے قدموں میں پتیاں پھینکنا شروع کی اور اسکے ساتھ دف کی تال پر طاوس درباب اور شہنایئوں کا مسحور کن نغمہ ابھرا۔ سلطان صلاح الدین نے راستے میں پھولوں کی پتیاں دیکھ کر قدم پیچھے کر لیے، ناجی اور اسکا نایب سلطان صلاح الدین کے دایئں بایئں تھے۔ وہ دونوں جھک گیے اور سلطان صلاح الدین کو آگے بڑھنے کی دعوت دی۔۔ یہ وہ انداز تھا جو مغلوں نے ھندوستان میں رائج کیا تھا، " صلاح الدین پھولوں کی پتیاں مسلنے نھی آیا" ایوبی نے ایسی مسکراھٹ سے کہا جو لوگوں نے بھت ھی کم کسی کے ھونٹوں پر دیکھی تھی۔ " ھم حضور کے قدموں میں آسمان سے تارے بھی نوچ کر بچھا سکتے ھے" ناجی نے کہا اگر میری راہ میں کچھ بچھانا ھی چاھتے ھوں تو وہ ایک ھی چیز ھے جو مجھے بہت بھاتی ھے۔" سلطان صلاح الدین نے کہا "آپ حکم دیں ۔۔ وہ کونسی چیز ھے جو سلطان کے دل کو بھاتی ھے" ناجی کے نایب نے کہا۔ "صلیبیوں کی لاشیں۔۔۔ سلطان صلاح الدین نے مسکرا کر کہا۔ مگر جلد ھی یہ مسکراھٹ ختم ھو گی۔ اس کے آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اس نے دھیمی آواز میں جس میں غضب اور عتاب چھپا ھوا تھا۔کہا۔۔۔" "مسلمانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ، جانتے نہیں ھوں صلیبی سلطنت ملت اسلامیہ کو چوھوں کی طرح کھا رھی ھے۔ اور جانتے ھوں کہ وہ کیوں کامیاب ھو رھے ھیں صرف اسلیئے کہ ھم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کیا۔ ھم نے اپنی بچیوں کو ننگا کر کہ انکی عصمتیں روند ڈالی۔ میری نظریں فلسطین پر لگی ھوی ھے تم میری راہ میں پھول ڈال کر مصر سے بھی اسلامی جھنڈا اتروا دینا چاھتے ھوں کیا۔۔؟ سلطان صلاح الدین نے سب کو ایک نظر سے دیکھا اور دبدبے سے کہا۔ اٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے ، میں نے ان پر قدم رکھا تو میری روح چھلنی ھو جاے گی ، ھٹا دو ان لڑکیوں کو میری آنکھوں سے ایسا نہ ھو کہی میری تلوار ان کی زلفوں میں الجھ کر بیکار ھو جاے" "حضور کی جاہ حشمت" "مجھے حضور نہ کہو" سلطان صلاح الدین نے بولنے والے کو یوں ٹوک دیا جیسے تلوار سے کسی کی گردن کاٹ دی ھوں سلطان صلاح الدین نے کہا *" حضور تو وہ ھے جن کے نام کا تم کلمہ پڑھتے ھوں،* جن کا میں غلام بے دام ھوں۔ میری جان فدا ھوں اس حضور پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کندہ کر رکھا ھے میں یہی پیغام لیکر مصر آیا ھوں۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہ روم میں ڈبو دینا چاھتے ھے، شراب میں ڈبو دینا چاھتے ھے، میں بادشاہ بن کر نہیں آیا۔" لڑکیاں کسی کے اشارے پر پھولوں کی پتیاں اٹھا کر وھاں سے ھٹ گی تھی، سلطان تیزی سے دروازے کے اندر چلا گیا۔ایک وسیع کمرہ تھا جس میں ایک لمبی میز رکھی گی تھی، جس پر رنگا رنگ پھول رکھے ھوئ تھے ان کے بیچ بھنے ہوئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے سالم مرغ اور جانے کیا کیا رکھا گیا تھا، سلطان صلاح الدین رک گیا اور اپنے نائب سے کہا کہ " کیا مصر کا ھر ایک باشندہ ایسا ھی کھانا کھاتا ھے" " نہیں حضور غریب تو ایسے کھانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے،" نائب نے کہا " تم کس قوم کے فرد ھوں سلطان صلاح الدین نے کہا کیا ان لوگوں کی قوم الگ ھے جو ایسے کھانوں کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔" کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا " اس جگہ جتنے ملازم ھے اور جتنےسپاھی ڈیوٹی پر ھے ان سب کو بھلاو اور یہ کھانا انکو دیں دو۔" سلطان صلاح الدین نےلپک کر ایک روٹی اٹھا اس پر دو تین بوٹیاں رکھی اور کھڑے کھڑے کھانے لگا، نہایت تیزی سے روٹی کھا کر پانی پیا اور باڈی گارڈز کے کمانڈر ناجی کو ساتھ لیکر اس کمرے میں چلا گیا جو وایسراۓ کا دفتر تھا، 2 گھنٹے بعد ناجی دفتر سے نکلا دوڑ کر اپنے گھوڑے پر سوار ھوا ایڑئ لگائ اور نظروں سے اوجھل ھوا۔ رات ناجی کے دو کمانڈر جو اسکے ھمراز تھے بیٹھے اسکے ساتھ شراب پی رھے تھے، ناجی نے کہا " جوانی کا جوش ھے تھوڑے دنوں میں ٹھنڈا کرادونگا، کم بخت جو بھی بات کرتا ھے کہتا ھے رب کعبہ کی قسم۔۔ صلیبیوں کو ملت اسلامیہ سے باھر نکال کر ھی دم لونگا۔" " صلاح الدین ایوبی" ایک کمانڈر نے طنزیہ کہا۔ " اتنا بھی نہیں جانتا کہ ملت اسلامیہ کا دم نکل چکا ھے اب سوڈانی حکومت کرینگے" " کیا آپ نے اسے بتایا نھی کہ یہ پچاس ھزار کا لشکر سوڈانی ھے اور یہ لشکر جسے وہ اپنی فوج سمجھتا ھے صلیبیوں کے خلاف نھیں لڑے گا۔" دوسرے کمانڈر نے ناجی سے پوچھا "تمھارا دماغ ٹھکانے ھے اوروش ۔۔۔؟ میں اسے یقین دلا آیا ھوں کہ یہ 50 ھزار سوڈانی شیر صلیبیوں کے پرحچے اڑا دینگے ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ " ناجی چھپ ھوکر سوچ میں پڑ گیا " لیکن کیا" " اس نے مجھے حکم دیا ھے کہ مصرکے باشندوں کی ایک فوج تیار کرو۔ اس نے کہا ھے کہ ایک ھی ملک کی فوج ٹھیک نہیں ھوتی اس نے بولا کہ مصر کی فوج بناکر ان میں شامل کردو" ناجی نے کہا " تو آپ نے کیا جواب دیا۔؟" " میں نے کہا کہ حکم کی تعمیل ھوگی لیکن میں اس حکم کی تعمیل نہیں کرونگا، ناجی نے جواب دیا، مزاج کا کیسا ھے" اوروش نے کہا " ضد کا پکا معلوم ھوتا ھے" ناجی نے کہا " آپکے دانش اور تجربے کے آگے تو وہ کچھ بھی نہیں لگتا نیا نیا امیر مصر بن کر آیا ھےکچھ روز یہ نشہ طاری رھے گا" دوسرے کمانڈر نے کہا " میں یہ نشہ اترنے نہیں دونگا اسی نشے میں ھی بدمست کر کہ مارونگا" ناجی نے جواب دیا۔ بہت دیر تک وہ سلطان کے خلاف باتیں کرتے رھے اور اس مسلئے پر غور کرتے رھے کہ اگر سلطان نے ناجی کی بے تاج بادشاھی کے لیے خطرہ پیدا کردیا تو وہ کیا کرینگے، ادھر سلطان اپنے نائیبین کو سامنے بٹھاے یہ بات زھن نشین کرارھا تھا کہ وہ یہاں حکومت کرنے نہیں آیا اور نہ ھی کسی کو حکومت کرنے دیں گا اس نے انھیں کہا کہ اسکو جنگی طاقت کی ضرورت ھے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اسکو یہاں کا فوجی ڈھانچہ بلکل پسند نہیں آیا 50 ھزار باڈی گارڈز سوڈانی ھے، ھمیں ملک کے ہر باشندے کو یہ حق دینا چاھیے کہ وہ ھمارے فوج میں سے آۓ اپنے جوھر دکھاے اور مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں یہاں کے عوام کا معیار زندگی اسی طرح بلند ھوسکتا ھے میں نے ناجی کو کہہ دیا ھے کہ وہ عام بھرتی شروع کردیں۔ " کیا آپکو یقین ھے کہ وہ آپکے حکم کی تعمیل کرے گا" ایک ناظم نے اس سےپوچھا۔ " کیا وہ حکم کی تعمیل سے گریز کریے گا" " وہ حکم کی تعمیل سے گریز کر سکتا ھے وہ حکم کی تعمیل نہیں اپنی منواتا ھے فوجی امور اسکے سپرد ھے " ناظم نے جواب دیا سلطان ایوبی خاموش ھوا جیسے اس پر کچھ اثر ھوا ھی نہیں ھوں۔اس نے سب کو رخصت کردیا اور صرف علی بن سفیان کو اپنے ساتھ رکھا، علی بن سفیان جاسوس اور جوابی جاسوسی کا ماھر تھا، اسے سلطان بغداد سے اپنے ساتھ لایا تھا، وہ اڈھیڑ عمر آدمی تھا اداکاری چرب زبانی بھیس بدلنے کا ماھر تھا، اس نے جنگوں میں جاسوسی کی بھی اور جاسوسوں کو پکڑا بھی تھا، اسکا اپنا ایک گروہ تھا جو آسمان سے تارے بھی توڑ لاسکتا تھا، سلطان کو جاسوسی کی اھمیت سے واقفیت تھی۔ فنی مہارت کے علاوہ علی بن سفیان میں وھی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا، " تم نے سنا علی یہ لوگ کہتے ھے کہ ناجی کسی سے حکم نہیں لیتا اپنی منواتا ھے" صلاح الدین نے کہا " ھاں میں نے سن لیا ھے اگر میں چہرے پہچاننے میں غلطی نہیں کرتا تو میری راۓ میں باڈی گارڈز کا یہ کمانڈر جس کا نام ناجی ھے ناپاک زھنیت کا مالک ھے اس کے مطابق میں پہلے سی ھی کچھ جانتا ھوں یہ فوج جو ھمارے خزانے سے تنحواہ لے رھی ھے دراصل ناجی کی زاتی فوج ھے اس نے حکومتی حلقوں میں ایسی ایسی سازشیں کی ھے جس نے حکومتی ڈھانچے کو بے حد کمزور کردیا ھے، آپکا یہ فیصلہ بلکل بجا ھے کہ فوج میں ہر خطے کے سپاھی ھونے چاھیے میں آپکو تفصیلی ریپورٹ دونگا۔ مجھے شک ھے کہ سوڈانی فوج اسکی وفادار ھے ھماری نہیں ۔ آپکو اس فوج کی ترتیب اور تنظیم بدلنی پڑے گی۔ یا ناجی کو سبکدوش کرنا پڑے گا" علی بن سفیان نے کہا " میں اپنے ھی صفوں میں اپنے دشمن پیدا نہیں کرنا چاھتا ناجی اپنے گھر کا بھیدی ھے اسکو سبکدوش کرکے دشمن بنالیادانشمندی نہیں ھماری تلواریں غیروں کے لیے ھے اپنوں کو خون بہانے کے لیے نہیں میں ناجی کی زہنیت کو پیار اور محبت سے بدل سکتا ھوں تم اس فوج کی زہنیت معلوم کرنے کی کوشیش کرو اور مجھے ٹھیک ریپورٹ دو کہ فوج کہاں تک ھماری وفادار ھے۔" سلطان صلاح الدین نے کہا۔ مگر ناجی اتنا کچا نہیں تھا اسکی زھنیت پیار اور محبت کے بکھیڑوں سے آزاد تھی اسے اگر پیار تھا تو اپنے اقتدار اور شیطانیات کے ساتھ، اس لحاظ سے وہ پتھر تھا، مگر جیسے وہ اپنے جال میں پھنسا لینا چاھتا تھا اسکے سامنے موم بن جاتا تھا اس نے سلطان صلاح الدین کے سامنے یہی رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ وہ سلطان صلاح الدین کے سامنے بھیٹتا بھی نہیں ، ھاں میں ھاں ملاتا چلا جاتا ، اس نے مصر کے مختلف حصوں سے سلطان صلاح الدین کے حکم کے مطابق فوج کے لیے عام بھرتی شروع کی تھی اگرچہ یہ کام اسکے مرضی کے خلاف تھا، دن گزرتے گیے سلطان صلاح الدین اسے کچھ کچھ پسند کرنے لگا تھا ناجی نے سلطان صلاح الدین کو یقین دلایا تھا کہ سوڈانی فوج اسکے حکم کی منتظر ھے اور یہ قوم کی توقعات پر پورا اترے گی ناجی دو تین بار سلطان صلاح الدین کو کہہ چکا تھا کہ سوڈانی فوج باڈی گارڈز کی طرف سے اسے دعوت دینا چاھتا ھے اور فوج اس کے اعزاز میں جشن منانے کو بےتاب ھے لیکن سلطان صلاح الدین یہ دعوت مصروفیات کی وجہ سے قبول نہیں کر سکا۔۔ رات کا وقت تھا ناجی اپنے کمرے میں دو متعمد جونیئر کمانڈروں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رھا تھا دو ناچنے والیاں ھلکی ھلکی موسیقی پر مستی میں ناگنوں کی طرح مسحور کن اداؤں سے رقص کر رھی تھی، انکے پاؤں میں گھنگروں نہیں تھے، انکے جسموں پر کپڑے صرف اس قدر تھے کہ ان کے ستر ڈھکے ھوے تھے اس رقص میں حمار کا تاثر تھا۔۔۔۔ دربان اندر آیا اور ناجی کے کان میں کچھ کہا ناجی جب شراب اور رقص کے نشے میں محو ھوتا تھا تو کوی اندر آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، صرف ناجی کو معلوم تھا کہ وہ کونسا کام ھے جس کے لیے ناجی شراب و شباب کے محفل سے اٹھا کرتا ھے ورنہ وہ اندر آنے کی جرات نہیں کرتا تھا اسکی بات سنتے ھی ناجی باھر نکل گیا وھاں سوڈانی لباس میں ملبوس ایک اڈھیڑ عمر کا آدمی تھا اسکے ساتھ ایک جوان لڑکی تھی ناجی کو دیکھ کر وہ اٹھی،ناجی اسکے چہرے کی دلکشی اور اور قد کاٹھ دیکھ کر ٹھٹک گیا وہ عورتوں کا شکاری تھا اسے عورتیں صرف عیاشی کے لیے درکار نہیں تھی ان سے وہ اور بھی کئ کام لیا کرتا تھا جن میں سے ایک یہ تھا کہ وہ ان میں سے بہت ھی خوبصورت اور عیار لڑکیوں کے زریعے بڑے بڑے افسروں کو اپنی مٹھی میں رکھتا تھا اور ایک کام یہ بھی کہ وہ انھیں امیروں اور حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کے استعمال کیا کرتا تھا اور ساتھ میں ان سے جاسوسی بھی کرالیا کرتا تھا، جس طرح قصاب جانور کو دیکھ کر بتاتا ھے کہ اسکا گوشت کتنا ھے اس طرح ناجی بھی لڑکی کو دیکھ کر بتاتا کہ یہ لڑکی کس کام کے لیے موزوں ھے لڑکیوں کے بیوپاری اور بردہ فروش اکثر مال ناجی کے پاس ھی لایا کرتے تھے۔ یہ آدمی بھی ایسے ھی بیوپاریوں میں سے ھی لگتا تھا لڑکی کے مطلق اس نے بتایا کہ لڑکی تجربہ کار ھے ناچ بھی سکتی ھے اور پتھر کو زبان کے میٹھے پن کی وجہ سے پانی میں تبدیل بھی کر سکتی ھے ناجی نے اسکا تفصیلی انٹرویو لیا وہ اس فن کا ماھر تھا اس نے راۓ قائم کی کہ جس کام کے لیے وہ اس لڑکی کو تیار کر رھا ھے تھوڑے سے ٹرینگ کے بعد یہ لڑکی اس کام کے لیے موزوں ھوگی، بیوپاری قیمت وصول کر کہ چلاگیا ناجی اس لڑکی کو اپنے کمرے میں لیکر چلا گیا جہاں اسکے ساتھی رقص اور شراب سے دل بہلا رھے تھے ، اس نے لڑکی کو نچانے کے لیے کہا ، اور جب لڑکی نے اپنا چغہ اتار کر اپنے جسم کو دو بل دیئے تو ناجی اور اسکے ساتھی تڑپ اٹھے پہلے نچانے والیوں کے رنگ پیلے پڑ گیے کیونکہ ان کی قیمت کم ھو گی تھی ناجی نے اس وقت محفل برخاست کردی ، اور لڑکی کو پاس بٹھا کر سب کو باھر نکال دیا لڑکی سے نام پوچھا تو اس نے زکوئ بتایا ، ناجی نے اس سے کہا، " زکوئ تم کو یہاں لانے والے نے بتایا ھے کہ تم پتھر کو پانی میں تبدیل کر سکتی ھوں میں تمھارا یہ کمال دیکھنا چاھتا ھوں" " وہ پتھر کون ھے " زکوئ نے سوال کیا " نیا امیر مصر" ناجی نے کہا وہ سالار اعظم بھی ھے" " سلطان صلاح الدین ایوبی" زکوئ نے پوچھا " ھاں اگر تم اسکو پانی میں تبدیل کردو تو میں اسکے وزن جتنا سونا تمھارے قدموں میں رکھ دونگا،" وہ شراب تو پیتا ھوگا " زکوئ نے پوچھا نہیں شراب ناچ گانا تفریح سے وہ اتنی ھی نفرت کرتا ھے جتنی ایک مسلمان خنزیر سے کرتا ھے" ناجی نے کہا " میں نے سنا تھا آپکے پاس تو لڑکیوں کا ایک طلسم ھے جو نیل کی روانی کو روک لیتا ھے تو کیا وہ طلسم ناکام ھوا۔۔؟" زکوئ نے پوچھا " میں نے ابھی تک انکو آزمایا نہیں ھے یہ کام تم کر سکتی ھوں میں تم کو سلطان کی عادتوں کے بارے میں بتا دیتا ھوں " ناجی نے کہ "کیا آپ اسے زھر دینا چاھتے ھے" زکوی نے پوچھا " نہیں ابھی نہیں میری اسکے ساتھ کوی دشمنی نہیں میں بس یہ چاھتا ھوں کہ وہ ایک بار کسی تم جیسی لڑکی کے جال میں پھنس جاے پھر میں اسے اپنے پاس بیٹھ کر شراب پلا سکوں اگر اسکو قتل کرنا مقصود تھا تو میں یہ کام حشیشن سے آسانی کے ساتھ کر سکتا تھا " ناجی نے جواب دیا۔۔۔ " یعنی آپ سلطان سے دشمنی نہیں دوستی کرنا چاھتے ھوں" زکوئ نے کہا اتنا برجستہ جملہ سن کر ناجی لڑکی کو چند لمحے غور سے دیکھتا رھا لڑکی اسکے توقع سے زیادہ ذھین تھی۔ " ھاں زکوئ" ناجی نے اسکے نرم و ملائم بالوں پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا میں اسکے ساتھ دوستی کرنا چاھتا ھوں ایسی دوستی کہ وہ میرا ھمنوا اور ھم پیالہ بن جاے آگے میں جانتا ھوں کہ مجھے اس سے کیا کام لینا ھے " ناجی نے کہا اور زرا سوچ کر بولا " لیکن میں تمھیں یہ بھی بتا دو کہ ایک جادو سلطان کے ھاتھوں میں بھی ھے اگر تمھارے حسن پر اسکے ھاتھ کا جادو چل گیا تو میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا اگر تم نے مجھے دھوکہ دیا تو تم ایک دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکو گی صلاح الدین تم کو موت سے بچا نہیں سکے گا تمھاری زندگی اور موت میرے ہاتھوں میں ھے۔ جاری ھے...............

ستاون اسلامی ممالک چوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں

مہدی علیہ السلام کب ظاہر ہوں گے

اسراییل کی خفیہ تحریکیں اور یاجوج ماجوجاور دجال کی آمد

معراج اور مسجد اقصی

قیامت کب قایم ہوگی

6 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. آپ کی اجازت سے میں اس تحریر کو اپنے بلاگ کی زینت بنان چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو ضرور جواب دیجئے گا

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام18 جنوری

    ماشاء اللہ بہت خوب پوسٹ

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام19 جنوری

    ماشاء اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. گمنام20 جنوری

    ایمان کو تقویت دینے والی پوسٹ ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. گمنام08 اپریل

    اللہ ایمان کو تقویت عطاء فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی