لندن میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع



لندن سے برادرم محترم مولانا مفتی عبد الباقی کا ایک مکتوبِ گرامی آیا تھا، جس میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع (لندن) کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ اُوپر جو کچھ عرض کیا گیا، اس سے اس کی تائید ہوتی ہے، نامناسب نہ ہوگا، اگر اس کا اقتباس پیش کروں، وہ لکھتے ہیں:
”بین الاقوامی تبلیغی اجتماع ختم ہوچکا، تثلیث کے اس ملک میں توحید کی آواز عجیب منظر پیش کررہی تھی، ایسا معلوم ہورہا تھا گویا قرونِ اُولیٰ کے بچے بچائے لوگ (جن کی زندگی میں اِسلام کی جھلک نظر آرہی تھی) جمع ہوئے ہیں، اُن میں لمبی لمبی داڑھیوں والے، لمبے لمبے کرتوں والے، پاجاموں والے، شلواروں والے، بڑی بڑی پگڑیوں والے تھے، جنہیں دیکھ کر ”گورے لوگ“


محو ِ حیرت بھی تھے اور محو ِ تماشا بھی۔ جب ہندوستان کا وفد لندن کے ہوائی اڈہ ”ہیتھرو“ بلڈنگ نمبر 3/پر تشریف لایا تو قانونی کارروائی سے فراغت کے بعد سب سے پہلے امیر التبلیغ حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم باہر تشریف لائے، نہ زندہ باد یا مردہ باد کے نعرے، نہ ہنگامہ، نہ شور شرابہ، کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ اِنتہائی وقار اور خاموشی کے ساتھ، لبوں پر تبسم، چہروں پر طلاقت، اِطمینان اور سکون کی فضا میں معانقے ہوئے، مصافحے ہوئے اور پھر دعا شروع ہوئی، جس میں آہیں، سسکیاں اور پھر آخر میں دھاڑیں مارکر رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔
تثلیث کے پرستار نیم عریاں لباس میں کیمرے تان کر کھڑے تماشہ کررہے تھے اور تماشہ دِکھا رہے تھے، اُن کو فوٹو اُتارنے سے منع کیا گیا، تاہم چپکے چپکے سے وہ کیمروں کو ہلاتے رہے، سرتاپا حیرت کے مجسمے بنے ہوئے تھے۔ چوں کہ لندن ایئرپورٹ (ہیتھرو) پر ایک منٹ میں جہاز اُترتا ہے اور قریباً دوسرے میں اُڑتا ہے، ا ِس لیے مسافروں کا تانتا بندھا رہتا ہے ، مسافر آتے جاتے تھوڑی دیر کے لیے ضرور رُکتے، اِس لیے کہ منظر ہی ایسا تھا کہ ہرایک کو دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔مجمع مرکز ِ تبلیغ لندن گیا اور پھر دوسرے دن اجتماع گاہ شیفیلڈ


میں پہنچا، تین دن شیفیلڈ میں بڑی رونق رہی، خاص طور پر جب خیموں میں اور خیموں سے باہر میدان میں نمازوں کے لیے صفیں درست ہوجاتی تھیں تو اس منظر کو دیکھنے کے لیے محل ِ اجتماع سے باہر فٹ پاتھوں پر انگریز مرد اور انگریز عورتیں کافی تعداد میں کھڑے ہوکر تماشہ کرنے لگتے، یہ روح پرور منظر اُن پر بڑا اثر انداز ہورہا تھا، اجتماع میں قریباً اڑتیس ملکوں کے وفود شامل ہوئے، جو آسٹریلیا کے علاوہ باقی چاروں براعظموں کے مختلف بولی بولنے والے، مختلف نسل ورنگ کے لوگ تھے، کینیڈا، امریکہ، افریقہ اور ایشیا اور یورپ، عرب وعجم۔ اِسلام کے عالمگیر دِین ہونے کا عملی نقشہ نظر آرہا تھا۔ قریباً بارہ سو آدمیوں نے چار مہینوں، چلوں اور کم وبیش وقت لگانے، دور اور دیر کے لیے نکلنے کو اپنے نام پیش کیے، بائیس جماعتیں بیرونی ممالک کے لیے تیار ہو گئیں اور پینتالیس اندرونِ ملک کے لیے۔
کینیڈا اور امریکہ سے آئی ہوئی جماعتوں میں قریباً پندرہ آدمی حاجی حسین احمد جاج بھائی کی مسجد میں (جہاں میرا قیام ہے) جہاز کی روانگی


میں تاخیر ہونے کی وجہ سے بارہ دِن تک ٹھہرے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد یہ لوگ ٹرانسلیٹر (ترجمان) کے ذریعہ مجھ سے سوالات کرتے رہتے اور میں اُن کو جوابات دیتا رہتا، کبھی کبھی چار چار ترجمان ہوتے تھے، یہ سلسلہ رات کے ڈیڑھ بجے اور کبھی دو دو بجے تک چلتا تھا۔ اُنہوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کیے، علمِ رمل، علمِ جفر، علمِ نجوم، قیافہ، پامسٹری، کہانت، اِلہام، وحی، عذابِ قبر، برزخ، دوزخ، جنت، علاماتِ قیامت، دجال، امام مہدی علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یاجوج ماجوج ، دیدارِ الٰہی سے لے کر خوابوں کی تعبیرات تک سوالات کیے،چوں کہ اُن میں اکثر نومسلم تھے، اِس لیے علم کے بہت پیاسے تھے، آخر میں اُنہوں نے کہا کہ نیویارک میں ہمارے اور بہت سے بھائی ہیں، جو اپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات چاہتے ہیں، آپ ہمارے


ساتھ نیویارک اور کینیڈا چلیں، بہت عذر پیش کیا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی وغیرہ، ہاں! اگر یہ میرے ترجمان میرے ساتھ جائیں تو کسی وقت آپ کے ہاں آنا ہوسکتا ہے، لیکن یہ لوگ بضد رہے، پھر یہ لوگ واپس چلے گئے، یہ اکثر کالے رنگ اور نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
․․․․․․ کہنا یہ ہے کہ تبلیغی خدمات اور موجودہ طرز پر دِین کا جو کام ہورہا ہے، بلاشبہ دِین ہے اور اہم جزوِ دین ہے․․․․․․
(الحمد للہ! تبلیغی جماعت کے اکابر کو ہمیشہ اس کا اہتمام رہا کہ اس کام میں عوام کا علماء سے جوڑ ہو، وہ اُن کی قدر و قیمت کو سمجھیں اور اُن سے اِستفادہ کریں، حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ مختلف عنوانات سے بار بار اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔
دور حاضر کا المیہ
•┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈•۔
آج کل ایک سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ جو اربابِ علم ہیں، وہ صرف علم اور تعلیم پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں اور جو اربابِ عمل اور اربابِ دعوت ہیں، وہ اپنے آپ کو علم اور علماء سے مستغنی سمجھتے ہیں، علماء کو میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور اربابِ عمل کو علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ قدم قدم پر اِخلاص کی ضرورت ہے۔


جب علم وعمل واِخلاص تینوں باتیں جمع ہوجائیں گی تو اس کے بہترین نتائج وبرکات ظاہر ہوں گے، مزید برآں سراپا اِخلاص بن کر بھی حق تعالیٰ کی توفیق وفضل کی ضرورت ہے، افسوس کہ مادیت کے اِس دردناک دور میں تمام دِینی اقدار ختم ہوگئے اور یہ سارے دِینی کلمات صرف بے معنیٰ الفاظ رہ گئے، مسلمانوں کے معاشرے میں اِتنا شدید اِنقلاب آگیا کہ تمام دِینی اِصطلاحیں مسلمانوں کی زندگی میں بے حقیقت الفاظ بن کر رہ گئے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دورِ اوّل کے مسلمان زندہ ہوکر ہمارے دورِ حاضر کے نام لیوا مسلمانوں کی زندگیاں دیکھ لیں تو کیا فرمائیں؟
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے صحیح اِسلام پر قائم رکھے اور صحیح مسلمانوں کے خدوخال کی حفاظت فرمائے اور تقویٰ وطہارت کی حیاتِ طیبہ نصیب فرماکر فوز و فلاح کے مدارجِ عالیہ سے نوازے۔
آمین بحرمة النبی الامین، علیہ صلوٰت اللّٰہ وسلامہ الی یوم الدین۔“

2 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی