حدیث کی حفاظت کیسے ہوئی

حدیث کی حفاظت کیسے ہوئی 

.                    حُجَّیْت حَدِیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات اور افعال حتٰی کہ اشارات تک سے آپ کے صحابہ کرام کی گہری وابستگی کسی شک و شبہے سے مبرا ہے۔ آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کی مکمل فہم، اس کے پس منظر کا انتہائی قریبی مشاہدہ اور ان حالات کا صحیح ادراک جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ فرمایا یا عمل کیا، یہ سب باتیں صحابہ کرام کی ایسی خصوصیات ہیں جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ تمام عناصر جو کسی یادداشت کو متحرک بنا سکتے ہیں ان کے معاملے میں یکجا ہو گئے تھے۔
یہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ قوت حافظہ کا وہ معیار جو کسی روایت کے مستند ہونے کے لیے ضروری ہے کوئی ایسا مبہم تصور نہیں ہے جس کے لیے  مخصوص اصول و شرائط وضع نہ کئے گئے ہوں۔ محدثین کرام نے ایسے کڑے اور سخت اصول پیش کیے ہیں جن کی کسوٹی پر ہر راوی کی یادداشت پرکھی جا سکے۔ جب تک کوئی راوی حدیث ان مخصوص معیارات کا حامل نہ ہو اس کی روایات ناقابل اعتماد قرار پاتی ہیں۔
کسی بات کو سرسری طور پر یاد کر لینے اور اچھی طرح ذہن نشین کر لینے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ بعض اوقات چلتے چلاتے اتفاق سے کوئی بات علم میں آتی ہے اور آدمی اسے یاد رکھنے کا قصد بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ ایسے واقعات بہت جلد ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف اگر کوئی آدمی بے تابی کے ساتھ کسی بات کو پالینے کا متمنی ہو اور ایک خاص مقصد کے تحت اسے بار بار دھرا کر ذہن نشین کر لے تو یہ صورت پہلی صورت سے بالکل مختلف ہو گی اور وہ بات تمام تر جزئیات کے ساتھ حافظے میں محفوظ ہو جائے گی۔
طالب علمی کے دور میں میرے عربی کے استاد نے مجھے بے شمار باتیں بتلائیں تھیں جو آج میرے ذہن میں نہیں ہیں لیکن وہ ذخیرہ الفاظ جو میں نے اپنے استاد سے حاصل کیا میرے حافظے میں موجود ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ میں نے اول الذکر کو یاد رکھنے کو کوشش ہی نہیں کی جبکہ مؤخر الذکر کو زبانی یاد رکھنے اور محفوظ کر لینے کے لیے پوری محنت سے کام لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات محض اتفاق سے نہیں سن لیے تھے اور نہ وہ ان کو ذہن نشین کر لینے میں غیر محتاط اور لاپرواہ تھے بلکہ اس کے برعکس وہ روزانہ کچھ وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات کو زبانی یاد کرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی مثال پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ رات کا تہائی حصہ ان احادیث کو دہرانے میں صرف  کرتے تھے جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیکھی تھیں۔
چنانچہ یادداشت حفاظت حدیث کا کوئی کمزور ماخذ قطعاً نہیں ہے جیسا کہ بسا اوقات ان حضرات کو گمان ہو جاتا ہے جو علم حدیث اور اس کی سائنس سے ناواقف ہیں۔ اسے اس کے صحیح مقام پر پرکھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مستند راویوں کی روایات حفاظت حدیث کے معاملے میں حدیث کی کتابی تدوین سے کم قابل اعتماد ذریعہ ہرگز نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔                          

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی