اس وقت حکومت سب کچھ اسی ترتیب پر اس طرح کر رہی ہے

Manu Samirti In India
"بھارت کی تاریخ کا نازُک موڑ" (ضرور پڑھیں)

ازقلم: ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی 

 مورخین جب اس عہد کی تاریخ لکھیں گے تو ضرور لکھیں گے کہ یہ وقت بھارت کی تاریخ بالخصوص بھارتی مسلمانوں کی تاریخ کا نازک ترین موڑ تھا، تقریبا ایک مہینہ گذر گیا ہے اسی کشمکش اور کسمپرسی میں، حالات انتہائی غیر متوقع ہیں، کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ کہیں ایک بار پھر ملک میں ایمرجنسی نہ نافذ کردی جائے، اور کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی تیاری مکمل کی جاچکی ہے، فوجی سربراہ کی طرف سے سیاسی بیان دینا بھارت کی ستر سالہ جمہوری روایت کے خلاف ہے، مگر اس بیان کے پیچھے بڑا راز ہے، بھارتی فوج میں برّی، بحری اور ہوائی افواج کے الگ الگ سربراہ ہوا کرتے تھے، تینوں آپس میں صدر جمہوریہ کی اجازت کے بغیر بات تک نہ کرسکتے تھے، مگر موجودہ حکومت نے آئینی و جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنرل بپن راوت کو مسلح افواج کا سربراہ اعلیٰ CDS چیف آف ڈیفنس اسٹاف بنا دیا، سی ڈی ایس صاحب اب صدر جمہوریہ کو جوابدہ نہ ہوں گے بلکہ وہ وزیر اعظم کو جواب دہ ہوں گے، جس سے فوج کی سیاست میں مداخلت کا واضح اشارہ ملتا ہے، اور یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ فوج کو اب اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے، بی جے پی حکومت کا یہ اقدام انتہائی خطرناک منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، یہ بات صاف ہے کہ اس طویل عرصہ میں آر ایس ایس تیاری کے تمام مراحل طے کرچکی ہے، اس کے تربیت یافتہ افراد بھارت میں طبقاتی نظام کے قیام اور اعلیٰ ذات 

 Uppercast

 کے تحفظ کے لیے اہم عہدوں پر قابض ہوچکے ہیں، اس وقت اس ملک کا آئین، جمہوریت، پسماندہ اقوام اور بالخصوص مسلمان ایک بڑے خطرے سے دوچار ہیں، وہ اس وقت تاریخ کے نازک موڑ پر ہیں اور خطرناک حالات سے گذر رہے ہیں۔
 حوصلہ بخش اور خوش آئند بات یہ ہے کہ وقت رہتے عوام نے خطرے کو بھانپ لیا، تحریک آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایسی زور دار عوامی تحریک دیکھنے میں آئی کہ بچے بچے کی زبان پر آزادی کے نعرے مچلنے لگے، خود بخود عوام کا ایسا سیلاب سڑکوں پر آگیا، بلا تفریق مذہب عوامی اتحاد، حب الوطنی کا جذبہ، آئین ہند کے تحفظ کی بے مثال کوشش اور فسطائیت سے نفرت ایک تحریک بن گئی، یہ بھی ایک خاص بات ہے کہ یونیورسٹیز سے لے کر سڑکوں تک عام احتجاجات میں ابھر کر جو شخصیات اور جو طاقت سامنے آئی وہ عورتوں کی ہے، گویا آزادی کی اس تحریک کی مؤثر قیادت عورتوں نے کی، ان کی پامردی، ان کا جذبہ، ان کی گفتگو، ان کے جوابات، ان کا عزم و حوصلہ سب کے سب حوصلہ بخش رہے، آج ایک ماہ سے زیادہ مدت گذر گئی، مظاہروں میں مزید شدت آتی جارہی ہے، شہر شہر غیر متعینہ مدت کے مظاہروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، حکومت پوری بے شرمی سے اپنے موقف پر جمی ہوئی ہے، بظاہر ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، بلکہ وزیر داخلہ نے کہا ہی تھا کہ ہم سی اے اے پر ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، راقم نے اپنے ٹوئیٹ میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تمہارا یہ عزم ہے تو ہم بھارت کے لوگ عزم کرتے ہیں کہ بھارت کی ایک انچ زمین پر بھی اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔
 واقعہ یہ ہے کہ حکومتِ وقت تاناشاہی کے راستے پر چل پڑی تھی اور کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا تھا، بالخصوص مسلمان تو بالکل ہی غفلت کی نیند میں تھے بلکہ ڈرے سہمے ہوئے تھے، ان سے ان کی قیادت نے سپا و کانگریس کی ایسی غلامی کرائی تھی کہ کبھی انھوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایسے نازک حالات بھی آئیں گے، حکومت اپنے انتخابی منشور کے لحاظ سے ایک ایک کام کرتی گئی، اپوزیشن کو ختم کرتی گئی، ہندوتوا کی آگ لگاتی گئی اور راشٹرواد کے نام پر غلط اور جارحانہ پالیسیاں نافذ کرتی گئی حتی کہ بات یہاں تک آ پہنچی کہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو ہی خطرہ لاحق ہوگیا، منوواد اور ہندو راشٹر کی راہ ہموار کرنے والے اس خطرہ کو لوگوں نے بھانپ لیا اور متحدہ طور پر پرزور آواز بلند کی، اس تحریک کو چھیڑنے کا سہرا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کے سر بندھا، اس کو قوت فراہم کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پھر جے این یو کے طلبہ و طالبات نے، پھر جب جامعہ و اے ایم یو میں پولیس نے اپنی بربریت سے تحریک کچلنے کی کوشش کی تو ملک و بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبہ سڑک پر آئے، دیوبند، ندوۃ العلماء کے باغیرت و باشعور طلبہ بھی ضبط غم نہ کرسکے، پھر اداروں میں چھٹیوں کے ذریعہ تحریک کے ختم ہونے کا امکان بڑھا تو بعض منظم تنظیموں نے اپنے کیڈر سے کمک پہنچائی اور پھر ملک بھر کی خواتین اور بالخصوص دہلی کی خواتین نے اس مزاحمتی تحریک کو دوام و تسلسل بخشا، انھوں نے مزاحمت کا جذبہ عطا کیا، وہ اس تحریک کی روح رواں بن گئیں، اب یہ تحریک ملک گیر سطح پر پھیلتی ہی جارہی ہے، اور اس میں خواتین کا رول بڑھتا ہی جا رہا ہے، بلکہ خواتین کے اس انقلابی اقدام اور سرفروشانہ کردار سے ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہماری آئندہ نسلیں آزاد پیدا ہوں گی، وہ خواہ غازی و مجاہد نہ ہوں مگر ہماری طرح بزدل و مصلحت پسند اور غلامانہ ذہنیت کی حامل نہ ہونگی، بنت حوا کو کس طرح داد دی جائے اور کیسے خراج تحسین پیش کیا جائے جس نے اپنے تن نازک کو مہینے بھر سے سرد راتوں میں سڑک پر ڈال رکھا ہے، ہمیں یقین ہے کہ ان شاہین صفت مائوں کی کوکھ سے جو نسل جنم لے گی وہ شاہین صفت بن کر دادِ شجاعت دے گی۔

 یاد ہوگا کہ راقم نے پہلے ہی لکھا تھا کہ این آر سی پر واویلا مچانے کی ضرورت نہیں، اگر حکومت اپنے ناپاک منصوبے کے نفاذ کے لیے بضد ہوگی تو پھر ہم پوری قوت سے اسے مسترد کریں گے اور ہر پیمانے پر احتجاج کریں گے، یہی کچھ اس وقت ہو رہا ہے، ہر شخص اور ہر بھارتی اپنی بساط بھر اس تحریک میں شریک ہے، کوئی جسمانی قربانی دے رہا ہے کوئی مالی، کوئی زبان و قلم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خدمت کر رہا ہے تو کوئی فکری کمک پہنچا رہا ہے، صرف مفاد پرست، فریب دینے والے، مصلحت پسند، بزدل اور زنجیر و زنداں سے خائف لوگ خاموش ہیں، بلکہ بعض مصلحت کے مارے اور پرسکون زندگی کے عادی سوال کرتے ہیں کہ ان مظاہروں کا کیا فائدہ؟ ان بے چاروں کو اب تک یہ بات سمجھ میں نہ آ سکی جو ہم نے کئی ماہ قبل بھی لکھی تھی کہ جمہوریت میں سڑک کی لڑائی Street Fight ہی انائیت و انارکی اور تاناشاہی کا واحد علاج اور حل ہے، یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت میں عوامی رجحان Public interest ہی پالیسیوں کی اصل بنیاد ہوتا ہے، مگر جب نیت خراب ہو تو عوامی رجحان سے قطع نظر حکومتیں بند کمروں میں فیصلے کرلیتی ہیں اور اکثریت کے نشہ میں چور ہوکر طاقت کے بل پر وہ فیصلے نافذ کرتی ہیں، پھر اسٹریٹ فائٹ ہی ان استبدادی قوانین اور جابرانہ پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے، عمل سے فارغ بزدل لوگ ان مظاہروں کے فوائد کو کیا سمجھیں کہ یہ مزاحمتی مظاہرے فرعونیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، انھوں نے ۵؍ سال میں مکمل ہونے والے منصوبوں کو ۲۰؍ سال پیچھے ڈھکیل دیا، انھوں نے آئین کے تحفظ کے لیے اسٹریٹجی بنانے کی مہلت فراہم کی، انھوں نے عوام کو سوچنے اور سوال کرنے کا حوصلہ دیا، انھوں نے دلوں میں بیٹھ گئے خوف سے نجات دلائی، انھوں نے اکثریت رکھنے والی حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیے گیے ایک ’’غلط‘‘ قانون کے لیے عوامی حمایت طلب کرنے پر مجبور کیا، حکومت نے حمایت میں عوامی ریلیوں کا مطالبہ کیا، مس کال کی مہم چلائی اور ملک کی تاریخ میں وہ موقع بھی آیا کہ کورٹ نے کچھ یوں تبصرہ کیا کہ بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی قانون کو آئینی قرار دینے کے لیے عرضی داخل کی گئی، کورٹ نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عرضی خارج کردی، ان مظاہروں کی طاقت ہے کہ ۱۱؍ اسٹیٹ مخالفت پر آمادہ ہیں، کسی نے سی اے اے کی حمایت کی مگر NRC کے خلاف ہے، کوئی دونوں کے خلاف ہے، کیرلا اور پنجاب حکومت نے اپنی اسمبلی سے اس کی غیر آئینی حیثیت کو بتانے کے لیے ریزولوشن تک پاس کردیا اور کیرلا حکومت تو سپریم کورٹ بھی پہنچ گئی، کیرلا اور بنگال حکومت نے NPR کے حکم نامہ پر اب تک عمل نہیں کیا ہے، یہ سب کچھ آئین ہند کے دائرے میں ہوا اور ہو رہا ہے، اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ان مظاہروں کے نتیجہ میں ہو رہا ہے۔ ابھی کل ہی وزیر داخلہ کا بیان آیا ہے کہ NPR کے اضافی سوالات میں سے تین سوال کم کردیے گئے ہیں، (کون سے کم کیے گئے یہ ابھی مبہم ہے) کوئی کاغذ نہیں مانگا جائے گا اور نہ ہی بائیو میٹرک ڈاٹا لیا جائے گا، اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی کچھ اور محنت اور قربانی کی ضرورت ہے، یہ ان مظاہروں کی طاقت ہے جو وزیر داخلہ کو جگہ جگہ ریلیاں کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہے، یہ مظاہرے ہی ہیں جن کے سبب بھاگوت نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت میں صرف آئین کی حکمرانی ہے، ہم اسی آئین کو مانتے ہیں جو اس وقت لکھا گیا جب ہمارا وجود نہ تھا، اگر کوئی ایسا کام ہوا جو اس آئین کے خلاف ہو تو ہم اس کی مخالفت کریں گے، سوچیے ذرا جنھوں نے ۷۲؍ سال میں کبھی ترنگا نہ لہرایا اور ہمیشہ آئین کی مخالفت کرتے رہے وہ آج آئین کی حکمرانی کا اعتراف کر رہے ہیں، اس پر کس نے مجبور کیا؟ 

ان مظاہروں نے مسلم قوم کو ایک نئی زندگی دی ہے، انھیں خود ان کی قیادت نے اپنے مفادات میں استعمال کرکے ناکارہ بنا دیا تھا، انھیں ان کی حیثیت سے بھی غافل کردیا تھا، مگر وقت نے انگڑائی لی تو آج یہی قوم آزادی کے بعد کی سب سے اہم، سب سے طویل اور سب سے خطرناک جنگ کی قیادت کر رہی ہے، ان مظاہروں نے بہت واضح پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کو نہ ڈرایا جاسکتا ہے اور نہ ان کو دبانا ممکن ہے، وہ اپنے پورے تشخص Identity کے ساتھ یہیں رہیں گے، یہیں مریں گے اور اسی مٹی میں دفن ہوں گے۔

 بعض عقل کے مارے سوال کرتے ہیں کہ اگر حکومت پیچھے نہ ہٹی تو کیا ہوگا؟ ان کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی جنگ اگر مگر یعنی If & But کی پالیسی کے ساتھ نہیں لڑی جاتی بلکہ یہ سوچ کر لڑی جاتی ہے کہ فتح ہماری ہی ہوگی، پھر اسی کے لیے ساری تگ و دو ہوتی ہے اور سارے منصوبے بنائے جاتے ہیں، یوں بھی قرآن مجید کے مطالعہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہر ظلم کی ایک انتہا ہے، ہر فرعون کے لیے زوال مقدر ہے، ہر استبداد کو بالاٰخر شکست ہونی ہے، شرط یہ ہے کہ خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس ہو، تسلسل کے ساتھ مزاحمت کی جائے اور ظالم کے ظلم کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنا فرض منصبی ادا کیا جائے، لیکن جب قبلہ درست نہ ہو، ترجیحات کا صحیح تعین نہ ہو، غلامانہ فکر نے پنجے گاڑ دیے ہوں، منفیت Negativity دامن گیر ہوگئی ہو، محدودیت مقدر بن گئی ہو، قرآن محض سامان برکت بن کر رہ گیا ہو تو پھر ایسے ہی مایوسی ہوتی ہے اور اسی طرح کے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔

 یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ابھی لب کھولنے کی آزادی ہے، آوازیں دبانے کی مہم کے دوران اچانک نوجوانوں نے آواز بلند کرنے کی طاقت ور تحریک چھیڑ دی ہے، اس وقت اگر یہ تحریک بے نتیجہ ختم ہوگئی، ہماری مصلحت کوشیوں کا شکار ہوگئی، ہماری ذہنی پستیوں، محدود ذہنیت یا قیادت کی ہوس کا شکار ہوگئی، تو فسطائیت کا سینہ مزید چوڑا ہو جائے گا، وہ کھلے عام دندنائے گی، ظلم کا ننگا ناچ ناچے گی، اس کے منصوبے کی تکمیل بہت آسان ہوگی، ابھی سیکولر آئین کالعدم نہیں ہوا ہے، ابھی سیکولرزم کے سہارے آپ آئینی مزاحمت کے ذریعہ اپنی بات منوا سکتے ہیں، ابھی موقع ہے کہ تمام طرح کے مفادات و اختلافات سے بالا ہوکر صرف آئین کی اس لڑائی کو کسی مثبت نتیجہ تک پہنچانے کی کوشش کی جائے، اس سلسلہ میں جن لوگوں نے بھی جس سطح پر بھی کوششیں کیں وہ سب لائق مبارکباد اور ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں، طلبہ ہوں یا اساتذہ عوام ہوں یا خواص سب کو مل کر ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے اس تحریک کو مضبوط کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور ہمارا ملی و قومی فریضہ ہے، اگر خود مظاہرہ کی ہمت نہیں یا بوجوہ مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں تو کم از کم مظاہرین کی ہر ممکن مدد کیجئے اور کم از کم انھیں اس نظر سے مت دیکھیے جس نظر سے مجرموں کو دیکھا جاتا ہے، بلکہ ان کی جرأت و عظمت کو سلام کیجئے کیونکہ انھوں نے مجاہدین آزادی کے نقش قدم پر ایک قدم بڑھایا اور بالفاظ دیگر آزادی کی اس دوسری لڑائی میں اپنا حصہ ڈالا۔
  
ابتدا میں ہی یہ احساس ہوا تھا کہ تمام کوششوں کو منظم و متحد کرنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ کوششیں مؤثر ہوسکیں، مختلف جگہوں پر لکھا اور مختلف لوگوں سے اظہار کیا، بالآخر ۱۸؍ دسمبر کو ملک بھر کی درجنوں تنظیموں نے مل کر ایک وفاق بنا لیا، جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک متحدہ پالیسی طے کی جائے اور تمام تنظیمیں اپنے اپنے طور پر اس کا نفاذ کریں، یہ وفاق اس لڑائی میں بھارتی قوم کی نمائندگی کرے، لیکن صد افسوس کہ مہینہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ لوگ ہر گلی کوچہ میں الگ الگ محاذ و وفاق بنانے لگے، خود ستائی اور اپنی سربراہی کی لَت نے اس امت کے ہر اتحاد کو ہمیشہ پارہ پارہ کیاہے، ایسے نازک حالات میں بھی عدم برداشت اور قیادت کی ہوس اور کریڈٹ خوری کی لڑائی کا مشاہدہ انتہائی تکلیف دہ ہے، بلکہ یہ صورت حال بذات خود ہماری لڑائی کو کمزور کرنے میں مددگار اور دشمن کے لیے معاون ہے، اگر سب کا مقصد ایک ہے تو ایک ہی وفاق کی پالیسیوں کا حصہ بننے میں کیا دشواری ہے؟ مگر نہیں ہم وہ مریض ہیں کہ مرض کسی حال میں پیچھا نہیں چھوڑتا، ابھی تو ضرورت تھی کہ اتحاد کو مزید قوت دی جاتی، یاد رکھیے کہ ہندوئوں کی شرکت کے بلند بانگ دعوے خلاف واقعہ ہیں، سکھ لڑنے مرنے کو تیار ہیں، یہ دعویٰ حقیقت سے پرے اور مبالغہ آرائی کی مضحکہ خیز مثال ہے، حقیقت اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ سکھوں کی ایک تعداد بھی اس تحریک کا علامتی حصہ ہیں، دلتوں کا وہ انٹیلیکچول طبقہ ساتھ ہے جس پر یہ واضح ہے کہ آگے کیا ہونا ہے، عام اور نچلا دلت طبقہ تو ابھی مودی کے ہندتوا کے نشہ میں چور ہے، وہ سمجھ رہا ہے کہ اب اس قانون کے ذریعہ مسلمان اپنی جائیدادوں سے بے دخل کیے جائیں گے اور وہ سب ہمیں مل جائے گی، خود اس کویہ سمجھانا اس وقت اہم کام ہے کہ اس قانون کی زد ان پر کتنی اور کس طرح پڑنے والی ہے، دراصل کمیونسٹوں کے نام عام طور پر ہندؤوں والے ہیں، اس لیے لگتا ہے کہ ہندو بڑی تعداد میں ہمارے ساتھ ہیں، جبکہ لیفٹ کا بھی ایک طبقہ باوجود مزاحمت کار ہونے کے ہمارے ساتھ متحد ہونے کو تیار نہیں کیونکہ وہ کسی Identity یعنی کسی تشخص کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا، اس لیے بغیر کسی خوش فہمی اور مبالغہ آرائی کے زمینی سطح پر مخلصانہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انقلاب کی یہ آہٹ واقعی انقلاب کی صبح روشن میں تبدیل ہوسکے، اس سلسلہ میں سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ نچلے اور پچھڑے غیر مسلم طبقات کو اس حکومتی ظلم کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے اور ان کے جو جوگ ہمارے ساتھ اسپیچ شیئر کرتے ہیں انھیں اس پر آمادہ کیا جائے کہ اپنی آبادی کے تناسب سے اس مزاحمتی تحریک میں اپنے لوگوں کو شریک کریں۔
  نوجوان اور خواتین میدان میں ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ راقم نے دوبارہ بی جے پی سرکار بننے کے فوراً بعد لکھا تھا کہ اب بولنا بہت مشکل ہے مگر بہت ضروری بھی ہے، لیکن اب وہی لوگ بول سکیں گے جو باہمت ہوں گے، صاحب عزیمت ہونگے، یا بے داغ ہوں گے، باقی بہت سارے لوگ اب سرکاری زبان بولیں گے یا خاموش رہیں گے، خاموش رہنے والوں میں کچھ وہ ہوں گے جو مجبوراً خاموش رہیں گے یا انھیں خاموش کردیا جائے گا اور کچھ وہ ہوں گے جو اختیاری طور پر مصلحتاً منظر نامہ سے غائب رہیں گے، بہرحال اب جو بول رہے ہیں ان ہی کو مستقبل کا قائد سمجھ لینا بھی دانشمندی نہیں، ان میں سب کے سب قابل اعتبار بھی نہیں، قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ حقیقی صورتِ حال کیا ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے بلکہ مستقبل کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے کہ اس مزاحمتی تحریک سے منتخب افراد کی ایک جماعت تشکیل پائے جو مستقبل میں قومی و ملی سطح پر مؤثر قیادت کرسکے اور خود اس مزاحمتی تحریک کو انجام تک پہنچا سکے، کیونکہ اب سالہا سال تک حالات اسی طرح غیر متوقع رہنے کی امید ہے، یہ لڑائی اب کھل کر ہونے والی ہے اور طویل مدت تک چلنے والی ہے، دہلی و بنگال کے انتخابی نتائج مزید رخ طے کردیں گے، بی جے پی کی فتح و شکست بہردو صورت صورتِحال کے بگڑنے کے مزید امکانات ہیں، اس لیے ضرورت ہے کہ پھولوں کی سیج پر بیٹھ کر قیادت کے طلب گار لوگوں سے بچتے ہوئے کانٹوں سے الجھنے کی ہمت رکھنے والے سامنے آئیں اور پورے ملک کا دورہ کرکے ایک نئے انقلاب کی بنیاد رکھیں، عوامی بیداری کی یہ لہر اگر یوں ہی گذر گئی تو پھر کئی دہائیوں تک اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔

 فوری طور پر ضرورت ہے کہ مختلف شہروں میں جو مظاہرے جاری ہیں ان کو اپنے اپنے مقام پر ہلکی پھلکی کوششوں سے ہی کمک پہنچائی جائے، سیاسی شعور پیدا کرنے کی محنت کی جائے، لوگوں کو NPR کے بائیکاٹ پر آمادہ کیا جائے، انھیں بتایا جائے کہ وزیر داخلہ صاف کہہ چکے ہیں کہ NPR خود ہی NRC کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس میں اضافی سوالات دراصل NRC کی بنیاد ہیں، اس کا واحد حل بائیکاٹ ہے، 

جمہوری لڑائی میں آخری ہتھیار سول نافرمانی Civil Disobedience ہے، مختلف اقوام و مذاہب پر مشتمل محاذ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ NPR کا بائیکاٹ کیا جائے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص جگہ جگہ اپنی بساط بھر گھر گھر جاکر لوگوں کو خطرات سے آگاہ کرے، ہر گلی نکڑ پر میٹینگیں اور پروگرام کرے، آئین کے تحفظ کے لیے غیر مسلموں کو آمادہ کرے، حکمت کا کامیاب تجربہ کرے، احتجاج کے نئے نئے طریقوں کا تجربہ کرے، مثلاً ہر شخص اپنے محلہ میں مشورہ کرے کی ہم کو بائیکاٹ کرنا ہے اس کے اعلان کرنے کے لیے پورے محلے میں بائیکاٹ کے بینر لگا دیے جائیں، کسی دن سارے لوگ ایسا کُرتا/ شرٹ/ ٹوپی پہنیں جس پر No NPR لکھا ہو، اس طرح خاموش احتجاج کے بہت سے طریقے اپنائے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعہ مزاحمتی تحریک کو کامیاب اور مؤثر بنایا جاسکتا ہے، یاد رکھیے کہ مرکزی حکومت گزٹ نوٹیفکیشن کرچکی ہے، ہمارے پاس صرف یکم اپریل سے پہلے تک کا وقت ہے، ہمیں اس سے پہلے گاؤں گاؤں اور گھر گھر اس تحریک کو پہنچانا ہے کہ NPR کا بائیکاٹ کیا جائے، کیونکہ اس کی بنیاد پر ادنیٰ درجہ کے آفیسر کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کو چاہے مشکوک شہری Doubtfull Citizen قرار دے دے، ایک بار وہ مشکوک شہری قرار دے دے گا پھر آپ ثابت کرتے پھریں گے اپنی شہریت، اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو اپنے والدین کا Birth Certificate دینا ہوگا جو شاید ہی کچھ لوگ دے سکیں، بہرحال مشکلات بہت ہیں، مستقبل میں مسائل مزید پیدا ہونے کے امکانات ہیں، حل صرف ایک ہے کہ مخلصانہ طور پر مزاحمت کی جائے، اللہ پر بھروسہ رکھا جائے، رجوع الی اللہ کو ہتھیار بنایا جائے، متحدہ کوششوں پر لبیک کہا جائے، اور یہ طے کرلیا جائے کہ ہمیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی کاغذ نہیں دکھانا ہے، (یہ الگ بات ہے کہ نارمل حالات میں بھی تمام ضروری کاغذات اپنے پاس رکھنا ہی دانشمندی ہے) بلکہ جو کاغذ دیکھنے آئے اس سے پوچھنا ہے کہ تم بھارتی ہو یا گُھس پیٹھیا؟ یقینا وہ جواب دے گا کہ وہ بھارتی ہے، پھر اس سے بھارتی ہونے کا ثبوت مانگا جائے، جو وہ بِالیقین نہیں دے سکے گا کیونکہ حکومت کے مطابق پاسپورٹ، آدھار کارڈ، راشن کارڈ، پین کارڈ اور جاب آئی ڈی اور ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ شہریت کا ثبوت نہیں ہے، اس لیے اسے اپنا اور اپنے والدین کا برتھ سرٹیفکیٹ دکھانا ہوگا، جب وہ نہ دکھا پائے تو اس سے کہیے کہ حکومت کی زبان میں آپ گھس پیٹھیے قرار پائے اس لیے آپ کو دوسروں سے کوئی کاغذ مانگنے کا حق نہیں، اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ NPR, NRC, CAA سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جنھیں جوڑ کر دیکھنا ہو تو ہٹلر کی تاریخ پڑھ لیجئے سب واضح ہوجائے گا،

 اس وقت حکومت سب کچھ اسی ترتیب پر اس طرح کر رہی ہے جس طرح ہٹلر نے کیا تھا، ہم نے الگ الگ ان تینوں چیزوں کی تفصیل نہیں لکھی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کے دور میں یہ تمام تفصیلات تقریباً سب تک پہنچ رہی ہیں، بس چند ضروری چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے،

 سنگھی ذہنیت نے اگر وقت سے پہلے آپ کو بیدار کردیا ہے تو اس کا شکریہ ادا کیجئے، بیداری سے فائدہ اٹھائیے یہی وقت کی ضرورت ہے بلکہ اس وقت کی اہم عبادت ہے۔

M Tariq Ayubi

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی