عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۷

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7

میں قلم مسلم دوست صاحب کے حوالہ کرتا ہوں وہ کہتے ہیں : 
تشدد کی کہانی مسلم دوست کی زبانی 
مختصر یہ کہ ہم نے تقریبا تین ماہ آئی ایس آئی کی خفیہ جیل میں گذارے ان تینوں مہینوں میں ہم نے سورج کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور ہماری صحت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی ہمارے خاندان کے لوگ کچھ دن بعد جان گئے تھے کہ آئی ایس آئی نے ہمیں اپنے مربعہ خبیثہ کی کٹھ پتلیوں حیات اللہ ، روح الله ، ولی اللہ اور سمیع اللہ کے کہنے پر پکڑ لیا ہے ۔ انہوں نے بہت کوشش کی تھی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے ایک افغانی غلام نے میرے ایک مخلص دوست سے 270000 ( دو لاکھ ستر ہزار ) پاکستانی روپے اس بہانے پر وصول کئے تھے کہ آئی ایس آئی کے افسروں کو رشوت دیں گے تا کہ دونوں بھائیوں کو رہا کرے ۔ ہمارے بھائیوں سے بھی بہت سی چیز یں آئی ایس آئی کے افسروں کو تحفہ میں دینے کیلئے لیتے رہے ہیں ، اور انہیں مسلسل دھوکے میں رکھ کر بتایا گیا کہ آج فلاں افسر کو دیکھا ہے اور فلاں افسر کے ساتھ ملاقات ہوگی اور عنقریب جیل سے رہا ہو جا ئینگے ۔ 
جب میں بگرام اور پھر قندھار پہنچایا گیا تو اس بد بخت سیاہ نیٹ ورک والوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ہمارے گھر کے لوگ اس بات سے مطلع ہو چکے ہیں کہ ہمیں قندھار پہنچایا گیا ہے ۔
 ہمارے بھائیوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمارے گھر آ کر کہتے تھے کہ انہیں کوہاٹ منتقل کیا گیا ہے حالانکہ ہم پشاور سے با گرام اور پھر کیوبا منتقل کئے گئے تھے ۔ آئی ایس آئی کے ایک اور کٹھپتلی نے ہمارے چھوٹے بھائی حاجی مسیح الزمان سے پانچ لاکھ روپے اس بہانے سے وصول کئے کہ میں تمہارے بھائیوں کے نام اس لسٹ میں شامل کرونگا جو حکومت پاکستان کی سفارش سے کیو با جیل سے رہا ہوں گے ۔ اس دوران ہمارے اقرباء اور دوست کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ ہمیں آئی ایس آئی کے چنگل سے رہائی دلادے میں بھر آئی ایس آئی کے غلام اور بغل بچے ہمارے خلاف جھوٹی اورمن گھڑت رپورٹیں مہیا کرتے تھے۔آئی ایس آئی کے جھوٹے اہلکاروں نے ہمارے اقرباء اور دوستوں کو بتایا تھا کہ ہمارے جرنیلوں اور کرنیلوں کو شراب اور لڑکیوں کی ضرورت ہے اور تمہارے مخالف گروہ جماعة الدعوة کے لیڈرزانہیں یہ سب چیزیں مہیا کرتے ہیں ان کے لئے فلم جم دوشیزائیں لاتے ہیں اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں آئی ایس آئی کے چھوٹے اہلکاروں نے ہمیں وہ اصل اسناد بھی دکھائیں جو کہ ہمارے خلاف امریکیوں کو مہیا کر رکھی تھی جن میں سمیع اللہ نجیبی ، روح اللہ حیات الله ولی الله اور دوسرے اعداء اللہ کے کتبی ، سمعی ، اور مر ئی شہادتیں اور گواہیاں تھیں ، انہوں نے لکھا تھا کہ یہ دونوں بھائی القاعدہ ، طالبان ، حزب اسلامی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے روابط رکھتے ہیں ان کے گھر میں نوٹ چھاپنے کی مشین ، طرح طرح کا ہتھیار اور سیٹیلائٹ فون موجود ہیں ۔ آئی ایس آئی کے بعض سینئر افسروں نے ہمیں بتایا کہ آپ ہمیں بھاری رشوت دیجئے تاکہ ہم اوپر بیٹھے ہوئے افسروں کو پیش کریں اور یہیں سے رہائی مل جائے گی لیکن ہم نے رشوت دینے سے انکار کردیا اور بتادیا کہ رشوت تو مجرم لوگ دیتے ہیں ۔
 الحمد لله ہم مجرم نہیں ہیں ، ہم اپنے پاک ہدف کیلئے ہرقسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔ بالآخر 8/2/2002 کے سال میں آئی ایس آئی کے ایک مجرم اہلکار نے ہمارے کمرے میں داخل ہو کر ہماری آنکھوں کو سیاہ پٹی سے ڈھانپ دیا ہمارے پاؤں اور ہاتھوں میں بیڑیاں پہنائی ، کالے شیشوں کی گاڑی میں مجھے اور میرے بھائی کو سوار کیا ہمیں کہا کہ انہیں پوچھ گچھ کیلئے لے جارہے ہیں ۔ میری آنکھوں کی پٹی میں تھوڑی سی جگہ خالی رہ گئی تھی جس سے میں نے دیکھا کہ پشاور کے ہوائی اڈے میں گاڑی داخل ہوئی ہم گاڑی میں بیٹھے ہوئے انتظار کر رہے تھے گاڑی کے شیشے بند تھے سردی کی وجہ سے ششے شبنم خورد ہ او رنمناک تھے گاڑی کے پیچھے شیشے پر اندرونی طرف سے آئی ایس آئی کے ایک اہلکار نے اپنی انگلی سے لکھا کہ ( کہ شاید آج جهاز نہ آئے ) وہ اس لئے باتیں نہیں کرتے تھے کہیں ہم نہ سنیں ، و مطمئن تھے کے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے اور ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن ہم ایک خالی جگہ سے آنکھ کے ایک کونے سے سب کچھ دیکھ رہے تھے کچھ دیر بعد امریکی طیارہ ہوائی اڈے میں اترا جب ہم نے طیارے کی آواز سن لی اور ہوائی اڈا اور امریکی طیارے کو دیکھ لیا تو سمجھ گئے کہ ہمیں امریکیوں کے حوالہ کیا جارہا ہے ، میں نے پنجابیوں کو اردو میں بتایا کہ بزدل اور بے غیرت ظالموں ! قیامت کے دن اللہ کے سامنے کیا جواب دو گے ؟ میری ان کے ساتھ یہ آخری بات تھی ، استاد بدر کو کہا کہ ہمیں امریکیوں کے حوالہ کر رہے ہیں ، گاڑی بالکل طیارے کے قریب کھڑی تھی جب ہمیں گاڑی سے نیچے اتارا اور امریکی کمانڈو کے حوالہ کیا اسطرح تاریخ کی بے مثال ہے غیرت آئی ایس آئی کے بزدلوں نے ہمیں امریکیوں پر فروخت کر کے ڈالروں سے اپنی تجوریوں کو بھرا ۔ یوں ظلم و ستم کی ایک اور داستان شروع ہوئی ۔

پشاور کے ہوائی اڈے میں امریکیوں کے مظالم

 امریکی فوجیوں نے پہلے ہماری تصویر یں لیں فلیش کی روشنی سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہماری تصویریں اتاررہے ہیں ، وہ ہمارے وڈیو فلم بھی بناتے رہے ۔ میں نے اپنی آنکھوں کے گوشوں سے امریکی فوجیوں کے بوٹوں اور وردی سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کافی تعدا میں ہمیں لینے کیلئے آئے ہیں ، جب پاکستانی آئی ایس آئی نے ہمیں انکے حوالہ کیا تو انہوں نے فورا آئی ایس آئی کی فولا دی ہتھکڑی اور بیڑیوں کو کھولا اور فورا ہمارے ہاتھوں کو پیچھے کی جانب پلاسٹک سے بنی ہوئی ہتھکڑیوں سے باندھا لیکن آنکھوں پر باندھی گئی پٹی کونہ ہٹایا بلکہ پٹی کے اوپر سیاہ ٹوپی پہنائی اور ٹوپی کو سلوشن ٹیپ سے مضبوط کیا تاکہ گرہ پڑے ۔ اس سے پہلے ہمارے ہاتھوں سے گھڑیاں نکالی گئی ۔ 
امریکیوں نے کھڑے حالت میں میری تلاشی لی استاد بدر کو زمین پر گرایا اور اس کی مکمل تلاشی لینے کے بعد ہمیں طیارے کے اندر لے گئے ہمیں طیارے کے فرش پر ایک جگہ بٹھایا کہ رانوں اور پشت پر پٹیاں باندھ لی اور یوں طیارے کے فرش پر ہمیں مضبوطی سے باندھ دیا۔آگے اور پیچھے کی طرف فوجی کھڑے تھے جو ہماری معمولی حرکت پر ہم پر لاتوں اور مکوں کی بارش کرتے تھے ، اور کتے ہمارے قریب سے جو بھونکتے تھے ہم کیمروں کی فلیش کی روشنی  کا لی ٹو پی کے اندر محسوس کر رہے تھے اور نہیں جانتے کہ ہمیں کہاں لے جارہے ہیں ۔ با گرام کے ہوائی اڈے کی داستان ہمارے اندازے کے مطابق ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک نا معلوم ہوائی اڈے پر اترا اترنے کے بعد طیارے کے فرش سے ہمیں اٹھا کر دوفو جیوں نے دائیں اور بائیں بازو سے پکڑ لیا اورگھسیٹتے گھسیٹتےاتار لیا ہوائی اڈے کے رن وے پر جاتے وقت پیچھے کی طرف ایک فوجی نے چلا کر ہمیں دھکہ دیا جس سے ہم منہ کے بل گر پڑے ۔
 چہرہ تو الله تعالی کے فضل سے بچ گیا لیکن گھٹنے زخمی ہوئے ایک طرف کی پسلیوں پربھی چوٹ آئی جس سے دیرتک درد محسوس ہوتی تھی چند دن بعد الله تعالی نے کسی علاج کے بغیر ٹھیک کیا منہ کے بل گرانے کے بعد پیٹ بازو اور پاؤں پرفوجی ہم پر بیٹھ گئے اور ہم سے تلاشی لی و ه ہم پر چلاتے اور کہتے " تو ٹاکنگ " بات مت کرو ، نواٹیک " اور ہم پر حملہ مت کرو جب تلاشی ختم ہوئی تو انہوں نے ہمیں کھڑا کیا مجھے اور میرے بھائی استاد پر اور ایک اور قیدی کو ایک رسی میں باندھا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تیراقیدی حاجی ولی محمد صراف تھا جو افغانستان کے صو بہ بغلان کا باشندہ تھا ۔ پھر ہم تینوں کو دھکے دیکر روانہ کیا چلتے وقت ہمیں محسوس ہوا کہ برف پر جا رہے ہیں اس سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم پاکستان سے نکالے گئے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ افغانستان میں با گرام کا ہوائی اڈہ ہے ۔ کچھ دیر بعد ہمیں ایک کمرے میں داخل کیا گیا ہماری آنکھوں سے پٹی اتاری گئی پلاسٹک کی رسیوں کو ہمارے ہاتھوں سے قینچی سے کاٹا ۔ ہاتھوں کو کافی وقت باندھنے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ پیلے پڑ گئے تھے اسی وجہ سے میرے ہاتھ کی بڑی انگلی کی رگ کٹ گئی میری یہی انگلی ایک سال تک بے حس ہو گئی تھی بعد میں ٹھیک ہوگئی ۔ اس جگہ تک ہمارے بدن پراپنے لباس تھے پھر ہمیں زمین پرلٹا کر ہمارے اس لباس کوقینچی سے کاٹ دیا اور بوٹوں سمیت ایک طرف پھینک د یا اس کی جگہ ایک ایسی پتلون پہنائی گئی جس کو پتلون کے ساتھ سی لیا گیا تھا جسے انگریزی میں Jum suit کہتے ہیں ۔ ہماری تصویر یں اتاری گئی اور ہم سے کھڑے کھڑے پوچھا کہ تمہارا اور تمہارے والد کا نام کیا ہیں کہاں کے رہنے والے ہیں اور کہاں سے پکڑے گئے ہو ؟ پولیس والوں نے پکڑا ہے یا فوجیوں نے ؟ ... پھرہمیں ایک بڑے گودام میں لے گئے جو اصل میں روسیوں نے بنایا تھا ۔ امریکیوں نے وہاں سے مشینیں اور دوسرے سامان و آلات کو نکالا تھا ۔ یہی گودام شمال اور جنوب کی طرف پھلا ہوا تھا ، مغرب کیطرف دو منزلہ کمرے بنائے گئے تھے ، اس کا صحن خالی پڑا ہوا تھا مشرق کی طرف کا نٹا تار سے جگہوں کوتقسیم کیا گیا تھا ۔ سامنے بھی کانٹا تار سے باڑ بنائی گئی تھی ، اس کے سامنے دو آہنی ڈنڈوں کے دروازے بنائے گئے تھے ، باہرکی طرف دروازے پر بڑا تالہ پڑا ہوا تھا . اندر کی طرف دروازہ باہر سے ایک رسی کے ذریہ کھول دیا جاتا تھا علیحدہ کئے گئے سارے حصے لکڑی کے تختوں سے بنائے گئے تھے ، ہر حصے میں تارکول کا کٹا ہوا ایک ڈرم رکھا گیا تھا تا کہ وہاں قیدی رفع حاجت کیلئے جائیں .
 ہر حصے میں ایک سے دس تک آدمی رہتے تھے ، ہمارے ہاتھوں اور پاؤں سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کو نہ ہٹایا ہم سے پہلے اور قیدی بھی یہاں پڑے ہوئے تھے جن میں عربوں کی اکثریت تھی مگر زیادہ تر عرب قیدی زخمی  حالت میں تھے ۔ پھر ان عرب قیدیوں کو ہم نے گوانتانامو جیل میں بھی دیکھا ، ان سے بات چیت کی اور انہوں نے ہمیں تو را بورا میں زخمی ہونے کا واقعہ اور دوسرے قصے بیان کئے . باگرام میں طیاروں کی ورکشاپ کے اندر عقوبت خانہ اور بالکل آمنے سامنے دو منزلہ عمارت پر پوچھ گچھ اور تفتیش کیلے مخصوص کی گئی تھی رفع حاجت کیلئے جو آدھا ڈرم رکھا گیا تھا وہ بالکل نمایاں تھا اور پردہ کر منع تھا ۔ رفع حاجت کے وقت سارا جسم دکھائی دیتا تھا اور پردہ کرنا مکن نہ تھا وہاں کے قیدی تو نہیں دیکھتے تھے لیکن فوجی ضرور دیکھتے چونکہ قیدیوں کو Jum suit یعنی ایک ایسا لباس پہنایا گیا تھا جس کی قمیض اور پتلون آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ سی لئے گئے تھے اور آ گے کی طرف زپ لگائی گئی تھی لہذا رفع حاجت کے وقت دونوں کو نکالنا پڑتا تھا ۔ اس خاطر کہ رفع حاجت کی ضرورت پیش نہ آئے میں نے ۱۳ دن تک کھانا نہ کھایا اور صرف تھوڑا تھوڑا پانی پیا تھا ۔ باگرام میں ہم دونوں بھائیوں کو حاجی ولی محمد ، عبدالحنان اور شریف اللہ کے ساتھ ایک کمرے میں ڈالد یا لیکن بہت جلد مجھے دوبارہ ان کے کمرے سے نکال دیا مجھے کا نٹا تار کے اندر ایک احاطے میں اور استاد بدر کو مجھ سے دور تیسرے احاطے میں ڈال دیا میرے کمرے میں تورا بورا میں پکڑے گئے زخمی عرب بھی تھے ۔ 
با گرام کے زندان میں ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا منع تھی ۔ اگر کوئی بات بھی کرتا تو سنائی نہیں دیتا کیونکہ ایک مشین کو چوبیس گھنٹے چلائے رکھا جاتا تھا جس کے تیز شور کی وجہ سے ایک دوسرے کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ انہوں نے مشین اس مقصد کیلئے چالو کی ہوئی تھی کہ ایک طرف قیدیوں کے کان پر بوجھ ہو دوسری طرف وہ آپس میں بات چیت نہ کر سکیں شدید سردی کے باوجود سر ڈھانپنامنع تھا ۔ کئی کمبل ہونے کے با و جود قید ی ایک کمبل سے ز یادہ نہیں اوڑھ سکتا تھا کمبل ہندوستانی اور وردی بنگلہ دیشی تھیں اور دونوں سردی کے مقابلے میں بہت باریک تھیں . پاؤں کیلئے بوٹ یا چپل کے عوض موٹی موٹی جرابیں تھیں سر کیلئے سیاہ اونی ٹوپیاں تھیں جو کانوں تک پہنچ جاتی تھیں . ہاتھوں کیلئے بھی سیاہ دستانے تھے ۔ ہر قیدی کی قمیض کے پیچھے اس کا نمبر لکھا ہوا تھا ۔ میرا نمبر 96 اور استاد بدر کا نمبر 94 تھا پھر قندھار میں یہ نمبر تبدیل ہوئے ۔ ہر قیدی کو اس کے نمبر سے پکارا جاتا تھا ۔
 نو ٹاکنگ بات مت کرو ) گٹ آن دی نیز ( اپنے گھٹنوں پر کھڑے ہو جاؤ ) لک ڈاؤن نیچے کی طرف دیکھو ہینڈ زآن دی ھیڈ ہاتھوں کو سر پررکھو " نو اٹیک ( حملہ نہ کریں ) شٹ آپ خاموش رہو ) یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم نے سب سے پہلے امریکی فوجیوں سے سیکھ لیئے اور آخرتک سنتے رہے ۔ بند قیدیوں پرایک پابندی اور لگائی گئی تھی کہ قیدی کو چاہیے کہ وہ چوکیدار اور فوجیوں کیطرف اپنارخ کرے اور زمین کی طرف دیکھتے رہیں ہنسنے سے اجتناب کرے ، دوسرے قیدی کی طرف نہ دیکھے اور بات چیت نہ کرے وہ تلاشی کے نام پردن رات قیدیوں کے پاس آتے تھے ، قیدی اپنارخ دوسری طرف کر کے اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھ دیتے زمین کیطرف دیکھتے تھے ، کسی قسم کی حرکت کرنے اور بات کرنے کی اجازت نہ تھی مسلح فوجی ان کے پیچھے کی طرف کھڑے ہو کر دوسرے تلاشی لینے والے فوجی تمام جگہ کی تلاشی لیتے ، اس کے بعد خود قیدیوں کی تلاشی لیتے مکمل تلاشی لینے کے بعدقیدیوں کو گھٹنوں پر کھڑا کرتے ہاتھوں کو سر پر رکھوا کر اپنے سامنے کھڑا کرنے کے بعد ڈر کے مارے ایسی حالت میں نکلتے کہ چہرہ قیدیوں کی طرف ہوتا تھا اور پیچھے کیطرف بھاگ نکلتے ، پھر پیچھے کی طرف دروازے کو بند کردیتے چار پانچ دنوں تک بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں تھے پھر ان سے نجات حاصل ہوئی .
 جب قیدی کو پوچھ گچھ تفتیش کے لئے لے جاتے تو قیدی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر لے جاتے تفتیش کے لئے کبھی ایک ، کبھی دو اور کبھی تین افراد ہوتے تھے ، ایک ترجمان بھی ہوتا تھا بگرام جیل میں پشاور میں پوچھے گئے سوالات کے علا وہ یہ سوالات بھی تھے ہمیں چند تصاویر دکھا کر پوچھا کیا تم ان کو جانتے ہو ؟ ہم دوسری تصاویر کو نہیں جانتے البتہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی تصویر ہم نے پہچان لی اور ان کو کہا کہ ان دونوں تصاویر کو پہچانتے ہیں یہ بھی اس لئے کہ ہم نے اخبارات و رسائل میں دیکھی ہیں اور تم نے بھی پوری دنیا سے ان تصاویر کو متعارف کروایا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے ۔ 
آئی ایس آئی اور ان کے افغانی کٹھپتلیوں کے ساتھ مخالفت ہمارے پکڑانے کا سبب ، افغانستان میں مداخلت اور امریکہ کی غلط پالیسی کے بارے میں بات چیت ہوئی ۔ ایک ہندوستانی نے ایک بار اردو زبان میں میری ترجمانی کی ایک بار ایک مصری عرب نے عربی زبان میں اور ایک بار ایک فارسی بولنے والے نے فارسی زبان میں ترجمانی کی اس کے علاوہ تمام تر جمانی پشتو زبان میں ہوئی ایک دفعہ ایک ترجمان میری ترجمانی کیلئے ایسی حالت میں آیا کہ اس کے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں تھیں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا ۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں . دوسرے دن مجھے اوپر دوسری منزل پر اٹھا کر ایک کمرے میں داخل کیا گیا میں نے دیکھا کہ وہاں ایک افغان ہے جن کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی اور پشتو میں بات کرتا تھا ، جب میں نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے میری ترجمانی کی تھی میں نے اسے کہا کیا تم وہی شخص نہیں جو میری ترجمانی کے فرائض انجام دے رہا تھا ؟ اس نے کہا کیوں نہیں میں وہی ہوں میرا نام حلیمی ہے میں طالبان حکومت میں وزارت خارجہ میں کام کرتا تھا باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمان نوازی اور ترجمانی میری ذمہ داری تھی ۔ اس نے کہا کہ میں ازہر یونیورسٹی سے فارغ ہوں اس نے مجھ سے کئی سوالات پوچھے اور میں نے ان کا جواب دیا اس کے ساتھ ایک عرب جوان بھی تھا جو یمن کا باشندہ تھا اس نے اپنا نام ڈاکٹر ایمن بتایا ۔ پھر میں نے اسے گوانتانامو جیل میں دیکھا جو د ماغی توازن کھو چکا تھا ان دونوں قیدیوں کو کافی سہولت مہیا کی گئی تھی ، تیل سے جلنے والا ایک ہیٹر کمرے میں جل رہا تھا جو کمرے کو بھی گرم کرتا تھا اور پانی کو بھی فوجی غذا سے بھرے بند پاکٹ ان کے قریب پڑے ہوئے تھے انہوں نے میرے لئے سیاہ چائے کی ایک پیالی فو را تیار کر لی اور بسکٹوں کے ساتھ میرے سامنے پیش کی میں تقریبا پندرہ منٹ تک ان کے کمرے میں تھا میرے خیال میں مجھے وہاں اس لیئے لے گئے تھے کہ آیا میں ڈاکٹر ایمن کو جانتا ہوں یا نہیں اور ہمارے درمیان کس طرح کی باتیں ہوں گی ۔ بات چیت کے دوران میں نے ان کو پشتو میں ایک شعر بھی سنایا ۔
 بہادری اور جرات کے دن مجھے دیکھو کے ایک بال بھی پیچھے نہ ہٹوں گا اگر میں واقعی افغان ہوں ۔ 
میری پشتو کی فطرت اتنی اسلامی ہے کہ اگر اسلام بھی نہ ہوتا تو میں پھر بھی مسلمان ہوتا ۔ 
حلیمی کو میرا یہ شعر بہت اچھالگا اور کاغذ کے علاوہ دروازے کے پیچھے حصے پر بھی اسے لکھد یا انہیں قلم اور گاغذ کی سہولت دی گئی تھی ۔ پندرہ منٹ بعد مجھے اس کمرے سے نکال کر پھر سے اپنے کمرے میں دھکیل دیا گیاحلیمی با گرام سے چند مہینے بعد رہا ہوا تھا اور میرے بڑے بھائی مولوی سید محمد صاحب کو یہ شعر بطور نشانی سنائی تھی جس سے انکو انداز ہوا تھا کہ ہم واقعی جیل میں حلیمی صاحب سے ملے تھے ۔
 ایک ہنسانے والا اڈرامہ
 بگرام جیل میں امریکی فوجیوں او تفتیش کاروں کے ہنسانے والے ڈراموں میں سے ایک ڈرامہ یہ بھی تھا اس لئے کہ ہمیں یہ دکھائیں کہ گویا ریڈ کراس اور امریکی ادارے الگ ہیں اور ریڈ کراس ایک فلاحی ادارہ ہے تو کبھی کبھار ہمیں ریڈ کراس کے کارکنوں سے چھپاتے تھے اور ان کے آنے کے وقت میں سردی میں دوسری منزل کے ٹھنڈے کمروں میں منتقل کرتے تھے چوکیدار فوجی ہمارے سامنے چوکس کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں اپنے درمیان بات کرنے ، ایک دوسرے کی طرف دیکھنے اور سرڈھاپنے سے منع کرتے تھے ۔ جب ریڈ کر اس کے کارکن واپس جاتے تو ہمیں پھر سے اپنے اپنے کمروں میں ڈھکیل دیا جاتا ۔

بگرام میں قیدیوں کو صفائی کی سہولت
 بگرام جیل میں قیدیوں کی صفائی کا قطعا خیال نہیں کیا جاتا تھا ، وضو کیلئے پانی نہ تھا صرف پینے کیلئے کویت کے ( روضتین ) فلٹر شدہ پانی کی ایک ایک بوتل دی جاتی تھی دانتوں کی صفائی کیلئے دس دن بعدصرف ایک ٹوتھ پیسٹ د یا جا تا تھا وہ بھی اس حالت میں کہ برش پرتھوڑا سا کریم لگا کر قیدی کو دیا جاتا اور قیدی اپنی دانتوں کو فوجی کے سامنے برش کر کے برش کو دو بارہ فوجی کے حوالہ کردیتا وہ برش اس لئے دوبارہ لے  لیتا تھا کہ کہیں قیدی اس سے ہتھیار کا کام نہ لیں ، پندرہ دن بعد قیدیوں کو نہانے کیلئے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں باندھ کر ایک بڑے ہال میں لے جاتے تھے جو روسیوں نے اپنے دور میں تعمیر کیا تھا وہاں پانی سے بھرا ایک ڈرم تھا ۔ ہمارے وقت میں پردہ کرنے کیلئے ناف تک لکڑیوں کے تنے کھڑے کئے گئے تھے ، اس کے ایکطرف چندفوجی پہرہ کیلئے کھڑے ہوتے تھے ، جب قیدی نہانے لگتے اور اسکا پورا بدن گیلا ہونے سے پہلے فوجی چلاتے ہوئے کہتا کہ بس کرو یہی کافی ہے ۔
 ہمارے بعد جو قیدی گوانتاناموآئے وہ کہتے تھے کہ پھر ان لکڑی کے تحتوں کو بھی ہٹادیا گیا تھا جو نہاتے وقت پردے کیلئے کھڑے کئے گئے تھے ، قیدی لا چار امریکی فوجی کے سامنے نہانے پر مجبور ہوتے اور کبھی کبھار تو امریکی لڑکیاں مخصوص اعضاء کا مذاق بھی اڑاتی تھیں ناخن کاٹنے ، بال تراشنے اور کپڑے بدلنے کا انتظام نہیں تھاتیمم کیلئے بھی صاف جگہ نہیں ملتی ۔ ہم جس جگہ پر تیمم کرتے تھے وہاں سیاہ خاک اور گردہوتی تھی جب ہم اس پر تیمم کرتے تو ہمارے ہاتھ اور چہرے کالے ہو جاتے تھے ۔ 
با گرام جیل میں قیدیوں کا کھانا
 با گرام میں ہمیں بند پیکٹوں میں ایک قسم کی تیار غذا دی جاتی فوجی پہلے پیکٹوں کو پھاڑ کر اس میں سے چمچ اور جن چیزوں کو نکالنا چاہتے نکالتے اور باقی غذا کوقیدیوں کے حوالہ کرتے ، آدھی افغانی روٹی بھی دی جاتی میں یہ سب کچھ اپنے کمرے سے دیکھتا تھا کیونکہ میرا کمرہ ان کے فوڈ سٹور کے سامنے تھا جو روٹی ہمیں دی جاتی ان پر گرد وغبار پڑی ہوتی تھی ، ہوائی اڈے سے اڑتا ہوا گرد انہیں روٹیوں پر پڑتا اور انہیں قیدیوں کو دیا جاتا تھا ۔ ایک طرف تو ناقص غذا کی یہ حالت تھی ، دوسری طرف رفع حاجت کے خوف سے جن کیلئے مناسب جگہ نہیں تھی اور رفع حاجت کے وقت انسان بر ہنہ ہو جاتا تھا ، میں نے چودہ دن تک روٹی کھائی اور صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا جس وقت ہم باگرام میں تھے اس وقت امریکی جھنڈے کے علاوہ ہم نے کسی جگہ بھی افغانی

جنڈ انہیں دیکھا ۔ 
با گرام میں امریکی فوجیوں کا بر اسلوک
با گرام میں امریکی فوجی طرح طرح کی بداخلاقی اور بد سلوکی کرتے تھے ۔ مثلا جب بھی قیدی سو جاتے تھے تو وہ بڑی بڑی لاٹھیاں اور ڈنڈے کنکریٹ فرش پر مارتے ، نیز پتھروں سے بھی آہنی دروازوں کو مارتے تھے اور ساتھ ساتھ چیختے اور چلاتے تھے کہ قیدی آرام سے نہ سو سکیں امریکی عورتیں نا چتی ، زور زور سے گاتی تھیں اور فضول باتیں کرتی تھیں مثلا بات مت کرو ، میری طرف دیکھو ، نیچے دیکھو سرمت ڈھانپو اسی طرح اور بے ہودہ الفاظ استعمال کرتے تھے ۔
 با گرام امریکی مظالم کا مرکز
 اس وقت با گرام امریکی انٹیلی جنس ادارے ( CIA ) اور ( FBI ) کا پہلا مرکز ہے ۔ افغانستان اور دوسرے ملکوں میں پکڑے گئے قیدیوں کو سب سے پہلے باگرام لاتے ہیں ۔ بگرام عقوبت کا پہلا امریکی مرکز ہے ۔ افغانستان اور باہر ملکوں میں پکڑے گئے قیدی پہلے باگرام لائے جاتے ہیں اور یہاں انہیں مختلف قسم کی عقوبتیں دی جاتی ہیں مثلا مار پیٹ ، بے خوابی ، ہاتھوں اور پاؤں سے آویزاں کرنا ، برف پرلٹانا ، شدید سردی میں ان کے بدن پرٹھنڈا پانی ڈالنا و غیره ، با گرام میں قیدیوں کو طرح طرح کی عقوبتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ کام خود امریکہ کر رہا ہے افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے پاس قطعا اختیار نہیں اور کچھ بھی نہیں کرسکتی ، البته افغانی انٹیلی جینس کے اپنے اپنے عقوبت خانے ہیں جن کے سرکردہ سابق کیمونسٹ ہیں جو مجاہدین اور مها جرین کے خلاف شد یدانتقامی جذبات رکھتے ہیں شمالی اتحاد کے فاسد عناصر بھی ان کے ساتھ شریک ہیں ۔
 ہم نے با گرام میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک قیدی کو ہاتھ پاؤں سے بندھے ہوئے لایا گیا ، اسے مار مار کر نڈھال کر دیا گیا تھا وہ رورہا تھا اور آہ وفریاد اس کے منہ سے نکلتا تھا ۔ اس بیچارے کو ایک ٹھنڈے کمرے میں ڈالد یا شدید ٹھنڈک ہونے کے باوجود وہ ننگا تھا سونے اور بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ، بلکہ اسے کہا جا تا تھا کہ گھومو پھرو ، جب وہ ایک سیکنڈ کیلئے کھڑا ہوتا تو فوجی اس پر چلاتے فوجیوں کے چلانے اور قیدی کی آہ وفریاد سے دوسرے قیدی نہیں سو سکتے جب وو زمین پر گر پڑ تاتو فوری آکراسے مارتے اور دوبارہ کھڑا کر دیتے اس بیچارے نے چوبیس گھنٹے اس طرح گزار دیے ۔ پھر ہم نے اس قیدی کو قندھار اور گوانتانامو میں دیکھا ۔ وہ ایک مولوی تھا جو بہترین اخلاق کا مالک تھا اگر ہمیں یہ خوف نہ ہوتا کہ اس کے رشتہ داروں کو تکلیف اور پریشانی لاحق ہوگی تو ہم اس کا نام لکھتے ، چونکہ وہ اب بھی گوانتانامو میں ہے تو اس لئے اس کا نام نہیں لکھ سکتے-
 با گرام میں امریکی عقوبت میں قتل کئے گئے قیدی 
هم با گرام میں چودہ دن رہے ۔ ہمارے سامنے تو کوئی قیدی عقوبت سے نہیں مرا ۔ البتہ بعد میں جو قیدی گوانتانامو آتے تھے تو ان کے اندازے کے مطابق بگرام میں ۲۹ افراد امریکیوں کے تشدد کی وجہ سے مر چکے ہیں ان میں سے صرف ایک قیدی کی لاش کو گھر بھیجا گیا ہے جوخوست کا باشندہ تھا اس کے پیٹ کو پھاڑ کردوبارہ سی لیا تھا اور اسی حالت میں اسے اپنے گھر والوں کو یہ کہ کر بھیجا تھا کہ یہ اپینڈی سائٹس کا بیمار تھا ، آپریشن کے وقت مر گیا حالانکہ وہاں موجود قیدی کہہ رہے ہیں کہ امریکیوں نے اسے بے دردی سے اتنا زیادہ مارا کہ اس کے منہ سے زور زور سے آہ وفریادنکلتی تھی وہ کلمہ اور تکبیرات پڑھتے اس کے بدن کا خون دروازے سے باہر نکلا ، بالآخر اس کی آواز خاموش ہوگئی اور کچھ منٹ بعد اس کی لاش کمرے سے نکال دی گئی ننگر ہار کے علاقہ پیرا گام کے ایک بوڑھے آدمی کو بھی سخت تشدد سے مار ڈالا تھا ۔
 چند دن بعد اس کے بیٹوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارا باپ گھر آ چکا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ہم خاموش ہو گئے اور اس کو بتانے سے گریز کیا کہ تمہارے والد کو شہید کر ڈالا ہے ۔ ان ۲۹ افراد میں سے جو کہ امریکیوں کے ہاتھوں جیل میں قتل ہو چکے ہیں آٹھ افرد کا تعلق افغانستان اور باقی کا تعلق دوسرے ممالک سے تھا ۔ دو افراد جن کو جلال آباد سے پکڑا تھا اور علاقہ شینیواری کے باشندے تھے وہ ابھی تک لاپتہ ہیں گوانتانامو جیل میں ہمیں ریڈ کراس کے کارکنوں نے بتایا کہ یہ دو افرادنہ جلال آباد میں ہیں ، نہ ہی بگرام اور گوانتانامو جیل میں ان کے رشتہ دار ہم سے پوچھتے ہیں مگر ہم نے ابھی تک ان کا کھوج نہیں لگایا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی شہید کر ڈالا ہے ۔
 ہماری رہائی کے بعد معلوم ہوا کہ بگرام میں دو اور افراد بھی امریکی تشدد کیوجہ سے شہید ہو گئے ہیں جن کا اعلان میڈیا اور اخبارات میں بھی ہوا اور امریکیوں نے بھی ان کی ہلاکت کا اعتراف کیا ایک اورشخص نے بتایا کہ کنڑ کی اسعدآباد جیل میں کنڑ کا ایک باشندہ بھی تشدد کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اس ترتیب سے کل 34 افرادو امریکی عقوبت خانوں میں شہید ہو چکےہیں . یہ تعداد تو صرف وہی ہے جو برملا ظاہر ہو چکی ہے ۔ کچھ قیدیوں کی شہادت پر معترف اور کچھ افراد کی ہلاکت سے منکر ہیں . ان افراد کی تعداد کتنی ہوگی جن کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ان کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے قیدیوں کو امریکیوں نے تشدد کے ذریعے قتل کر ڈالا ہے لیکن ان کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ۔ 
جلال آباد میں عقوبت خانے 
امریکیوں نے ہر جگہ قیدیوں پر تشدد کیا ہے جلال آباد کے ایک قیدی نے جور ہا ہو چکا ہے مجھے بتایا کہ امریکیوں نے مجھے بری طرح مارا بجلی کی جھٹکے دیئے پھر ایک چارپائی پر لٹا کر مجھے باندھا اور میرے سر کو پانی کے ایک بڑے ٹب میں ڈبودیا تقریبا پندرہ منٹ تک میرا سر پانی میں تھا اور میری سانس بندتھی . میں نے موت اپنی آنکھوں سے دیکھی لیکن اللہ نے مجھے بچالیا امریکی چاہتے تھے کہ میں ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جس کے بارے میں مجھے قطعا کچھ معلوم نہیں ۔ بالاخر انہوں نے یہاں سے بگرام اور بگرام سے گوانتانامو بھیجا ۔ اس طرح کے واقعات زیادہ ہیں ہم آگے چل کر بعض واقعات کا تذکرہ ضرور کریں گے البتہ سارے واقعات کا لکھنا کتاب کو ضخیم ہونے کی وجہ سے مشکل ہے ۔
 استاد بدر کی زبانی با گرام کی کہانی
 استاد بدر با گرام کا قصہ یوں لکھتا ہے ۔ طیارے سے اترتے وقت میرے ذھن میں دو باتیں گردش کرتی تھیں ، ایک یہ کہ شاید طياره سمندری بیڑے میں اتر گیا ہے جو کراچی کی بندرگاہ کے قریب کھڑا ہے ، دوسری بات یہ کہ طیارہ کراچی ائیر پورٹ پر اتر گیا ہے کیوں کہ میں نے پہلے سنا تھا کہ کراچی کا پرانا ہوائی اڈہ امریکیوں کے حوالہ کیا گیا ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیوبا کے راستے پر آرام یا ایندھن بھرنے کیلئے اتارا گیا ہو لیکن میرے کانوں پر ٹھنڈی ہوا لگی تو مجھے شک ہوا کہ کہیں افغانستان نہ ہو ، کیونکہ کراچی کا موسم سردیوں میں بھی معتدل ہوتا ہے میں اسی سوچ میں تھا کہ سپاہیوں نے مجھے طیارے سے گھسیٹ کر زمین پر بٹھایا میرے سامنے کسی اور کو اٹھایا اور میرے چہرے کو اس کی پشت پر لگایا میرے پیچھے کسی اور قیدی کو بٹھایا اور اس کا چہرہ میری پشت پر لگایا ہم تینوں کے بازوؤں کو ایک مضبوط رسی سے باندھا گیا رسی کے ایک سرے کو ایک فوجی نے اور دوسرےسرے کو دوسرے فوجی
نے پکڑ کر ہمیں گٹ آپ ( اٹھو ) کی آواز نکالی ، ہوائی اڈے سے طیاروں کی آوازیں سنی جارہی تھیں ۔ بالخصوص ہیلی کاپٹر کی آواز ہمیں تو بالکل سنائی دے رہی تھیں ۔ ٹھنڈی ہوا اور رات کے آخری حصے میں پلاسٹک کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہاتھ اور پاؤں سے تیز چلنے اور دوڑنے کی آواز دیتے اور چلا کر کہتے : Move , hurry up تیز چلو ، بدقسمتی سے پشاور کے قید خانے سے نکلتے وقت میں اپنی جوتیوں کے تسموں کو بند نہیں کر سکا تھا کیونکہ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ ا نہیں تفتیش کیلئے لے جایا جارہا ہے ، اب میرے لئے ان جوتوں میں تیز دوڑ نا بھی مشکل تھا لیکن امریکی فوجی مسلسل چلاتے تھے کہ Move , hurry up ایک دو دفعہ تو میں نے عربی میں بھی آواز میں سنی . بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ امریکی فوجیوں کو کچھ عربی جملے سکھائے گئے تھے ۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہے تھے ( یا الله یا شباب ) اس تکلیف دہ وقت میں یہ جملے بہت اچھے لگے اور حیرانی بھی ہوئی کہ امریکیوں کو یہ جملہ سیکھنے کیلئے کس نے مجبور کیا ؟ بعد میں با گرام میں دیکھا کہ کانٹا تا راحاطے کے اندر فارمیکا کے ایک سفید تختے پر مختصر عربي جملے انگریزی رسم الخط میں لکھے گئے تھے اور امریکی فوجی اسے پڑھتے تھے . ( Min aina anta ma Ismuka ) مثلا من این انت . ما اسمك . بہر حال ہمیں تقریبا پندرہ منٹ تک تیز دوڑایا گیا ۔ ایک بارتو ہیلی کاپٹر کے پیچھے کی ہوا بھی ہم پرلگی ۔ ایک بارکسی اور طیارے کے قریب سے گذرے کیوں کی ٹھنڈی ہوا میں ہمیں گرم ہوا بھی لگی اور بالآخر ایک ایسے کمرے میں ہمیں داخل کیا گیا کہ اچانک ہمارے کان گرم ہوئے اگر چہ ہمارے پاؤں ہاتھ اور آنکھ باندھے ہوئے تھے لیکن سخت ٹھنڈے موسم میں اچانک گرم کمرے میں داخل کر نا ہمیں اچھا لگا اور تیز دوڑنے کے بعد آرام کرنے کا موقع بھی مل گیا اگر چہ ہمیں بے دردی سے زمین پرپٹخ دیا گیا اور ہم ایک دوسرے کے اوپر گر پڑے اس کے علاوہ وہ Don't Move and be quite کی آواز بھی نکالتے تھے حرکت مت کرو اور خاموش رہو ہم تقریبا پانچ منٹ تک اسی طرح پڑے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور میری پشت پر ہاتھ رکھ کر کہا ? Do you speak English کیا تم انگریزی بول سکتے ہو ؟ میں نے جواب میں yes کہا پھر میرے دوسرے ساتھیوں کی پشت پر ہاتھ رکھ کر ان سے پشتو فارسی عربی انگریز کی زبانیں بولنے کے بارے میں پوچھا گیامسلم دوست صاحب نے عربی پشتو اور فارسی زبان بولنے کے حوالے سے مثبت جواب دیا ، حایی ولی محمد نے کہا میں صرف پشتو اور اردو جانتا ہوں .اس کے بعد ہمارے ہاتھوں سے رسیوں کو کھولد با اور ہمیں الگ الگ کمروں میں لے جایا گیا ۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہم تینوں کو الگ کمرے میں طبی معائنہ لباس تبدیل کرنے اور تلاشی لینے کیلئے لے جایا گیا تو مجھ سے میرا اپنی قومی لباس شلوار قمیض گرم پکول ، چادر اور چار سدے والی چپل جو میں نے گرفتاری سے چند دن پہلے آرڈر دے کر بنوائی تھی ، لے لی گئی اور مجھے آسمانی رنگ کے Jumsuit دیدی ۔ یہ وہی لباس تھا جو پشاور کے عقوبت خانے میں ہمارے سامنے ان بے چارے عرب قیدیوں کو پہنایا گیا تھا جن کو امریکہ کے حوالہ کرنے کیلئے ہوائی اڈے لے جایا جاتا تھا ۔ ہمارے ملک میں  گاڑیوں کے مستری اور بعض انجیر پہنتے ہیں میں بھی اپنی زندگی میں پہلی بار اس لباس سے آشنا ہو گیا ۔ اس کے علاوہ اون کی بنی ہوئی ٹوپی جس کو ہم اکثر چھوٹے بچوں کو پہناتے ہیں ہمیں دے دی گئی ، دستانے اور جرابیں بھی ہمیں دی تھیں جو بہت کھلے تھے ، دوسرا کام یہ کیا گیا کہ پلاس کے ذریعے ہمارے ہاتھوں میں پلاسٹک کی ہتھکڑیوں کو توڑ کر پھینک دیا اور اس کی جگہ فولادی ہتھکڑیاں پہنا دی گئی ہتھکڑی پہناتے وقت فوجیوں نے میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ڈرتے ڈرتے میرے ہاتھوں کو بیڑیاں پہنائی گئی ، جب میرے پاؤں کی بیڑیاں کھول دی گئی تو انہوں نے اوپر نیچے مجھے دیکھا اور کہا Cooporate ( تعاون کرو . میں نے پوچھا کیا تعاون کروں ؟ انہوں نے کہا پاؤں باندھنے کے وقت مت ہلو اور سفید داغ کے حلقے سے باہر مت نکلو . جب میں نے پیچھے دیکھا تو بڑے کمرے کے اندر میرے اردگرد سفید رنگ میں ایک مربع بنایا تھا اور اس مربع کے اندر جو ایک میٹر کے برابر تھا مجھے کھڑا کیا گیا تھا ۔ جب مجھے طیارے سے اتارنے کے بعد اس مربع کے اندر کھڑا کیا اور میرے سر اور چہرے سے سیاہ ٹوپی کو بھی ہٹایا گیا تو میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد بارہ افراد ورودی اور سفید کپڑوں میں ملبوس کھڑے ہیں ان کا مجھ سے پہلا یہ سوال تھا 
: ? Are you militant کیاتم عسکریت پسند ہو ؟ 
جواب میں نے کہا نہیں ، 
سوال پھر تم کیا کام کرتے ہو ؟ 
جواب میں ایک کالج میں استاد تھا اور اس کے ساتھ صحافتی کام بھی کرتا تھا اور ساتھ ساتھ چھوٹا موٹا کاروبار بھی ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں فوجی آدمی نہیں ہوں تو وہ دلیر ہو گئے ، ایک بلند قد ڈاکٹر نے میرے سینے پر stethoscope سٹیتھوسکوپ رکھا وہ میری صحت کے بارے میں دریافت کرتا تھا مگر دوسری طرف ایک فوجی میری تلاشی لے رہا تھا ۔ 
تلاشی کے وقت میری جیب سے zentac کی ایک دو گولیاں نکالیں اور فورا ڈاکٹر کو دکھائی .یہ گولیاں مجھے آئی ایس آئی والوں نے اس وقت دی تھی جب جیل میں آئی ایس آئی کے مصالہ دار کھانوں کی وجہ سے میرے معدے میں سوزش پیدا ہوئی تھی ، انہوں نے مجھے اور مسلم دوست کو کچھ گولیاں ضرور دی تھیں مگر ہر وقت ہم پر اپنے اس احسان کو جتلاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے تمہارا مفت علاج کیا ہے پھر ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے یہ گولیاں ہمارے پیسوں سے خریدی تھی ، با گرام سے تفتیشی کمرے میں کھڑے ایک امریکی نے مجھ سے پوچھا : یہ گولیاں کہاں سے لائے ہو ؟ جواب میں نے کہا : آئی ایس آئی کے عقوبت خانے میں مجھے دی گئی تھی ۔ سوال یہ گولیاں کیوں کھاتے ہو ؟ جواب : اس لیئے کے مجھے معدے کی تکلیف ہے ۔ سوال اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہے ؟ جواب تھوڑا سا فائدہ مل جاتا ہے ۔ جب ڈاکٹر لکھائی میں مصروف ہوا تو میں سوچنے لگا کہ میری جیب میں یہ گولیاں کہاں سے آئی ہمارے گھر اور جیبوں کی صفائی تو آئی ایس آئی والوں نے کی تھی اور سب کچھ لے چکے تھے ۔
 پھر میں نے اپنے آپ کو اس بات پر مطمئن کیا کہ شاید انہوں نے یہ گولیاں اس لئے ہماری جیب میں چھوڑ رکھی ہو گی امریکیوں کو یہ باور کر وا ئیں کہ آئی ایس آئی والوں کا کچھ انسانی پہلو بھی ہے اور یہ کہ قیدیوں پر خر چے کئے ہیں اور یہ کہ ان سے ڈالر وصول کریں . وا ہ وا ہ  دکھلاوے کی دو گولیاں آئی ایس آئی کی فریب کاری اور مکاریاں جو افغانوں کے خلاف کرتے رہتے ہیں افغان رهنماؤں کا سیاسی قتل ، افغان عوام کو آپس میں لڑانا افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کا خواب دیکھنا اور میرے جیب میں دو گولیاں نمائش کیلئے چھوڑ نا سب مجھے عجیب سا لگا میں امریکی تفتیشی کمرے میں غمزدہ ساکت کھڑاتھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ آئی ایس آئی بھی عجیب بالا ہے کہ میرے جیب میں رونمائی گولیاں چھوڑ رکھی ہیں اس سوچ نے میرے لبوں پر بھی مسکراہٹ پیدا کی جس کی کیفیت کے
 بارے میں عبدالحمید بابا نے کیا خوب وضاحت کی ہے  ترجمہ : گویادنبے کا سری آنچ پرکھا ، باچھیں کھل گئیں اے کوه آلام تونے مجھے ہنسادیا ۔ بہر حال میرے پاوں اور ہاتھوں کوفولا دی زنجیروں سے باندھ کر دوسرے کمرے میں لے جایا گیا ۔ وہاں امریکی فوجیوں کے علاوہ دو سفید پوش امر یکی بھی موجود تھے ان کی چھوٹی چھوٹی داڑھیاں تھیں ، ان کے علاوہ ایک اور چھوٹی داڑھی والا مضبوط امریکی جوان بھی موجودتھا ۔ وہ سب عام لباس میں ملبوس تھے انہوں نے مجھے کھڑا کر کے پوچھ گچھ شروع کی . اس چھوٹے سے کمرے میں وہ سب مجھے دیکھتے تھے مضبوط جوان جو مجھ سے سوالات کرتا تھا اور بار کہتا تھا کہ صرف میری آنکھوں کی طرف دیکھو دوسری طرف مت دیکھو سوال اس کا پہلا سوال یہی تھا کیا تم عسکریت پسند ہو ؟ جواب نہیں میں استاد اور صحافی ہوں ۔ سوال کیا تم کیمیا دان بھی ہو ۔ جواب نہیں میں کیمیا کے الف ، ب سے بھی واقف نہیں میں نے ادب اور اجتماعی علوم پڑھے ہیں ۔ سوال اجتماعی علوم میں کیا پڑھا ہے ؟ جواب بی اے میں سیاسی علوم اورلیگویج پڑھے ہیں اور ماسٹرانگریزی ادب میں کیا ہے ۔ سوال اس کے علاوہ اور کیا کام کرتے ہو ؟ جواب کپڑے دھونے کے صابن کی دکان کرتا ہوں اس کے ساتھ ساتھ قیمتی پتھروں کے کاروبار میں بھی اپنے بھائی سے تعاون کرتا ہوں ۔ 
سوال تمہاری قومیت کیا ہے ؟ 
جواب ہم افغان ہیں لیکن ہم 30 سال سے پاکستان میں رہتے ہیں ۔ اس کمرے میں صرف اتنے سوالات ہوئے پھر مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور کہا کل دوبارہ بات چیت ہوگی ، وہ مجھے ایک بڑے ہال میں لے گئے وہاں ہال کے ایک طرف دو منزلہ کمروں کی ایک قطارتھی ، پہلی منزل کے کمرے میں سامان سے لدے ہوئے تھے اور دوسری منزل کے کمروں میں قیدیوں کو رکھا جاتا تھا ۔ ہال کے دونوں سروں میں اوپر چڑھنے کے لئے میڑھیاں تھیں ہاتھ اور پاؤں سے باندھے ہوئے قیدیوں کیلئے اوپر چڑھنا بہت مشکل کام تھا لیکن مجبورا قیدی اوپر چڑھتے تھے ۔ ہال کے نیچے وسیع اور کھلی جگہ میں تقریبا بارہ میٹر مربع پانے خانے بنارکھے تھے ، زمین سے اوپر لکڑیوں کی چوکاٹ رکھی تھی جن پرلکڑیوں کے کیل لگے تختے رکھے ہوئے تھے اور ان کے اوپر خاکی رنگ کے کار پیٹ بچھائے گئے تھے وہاں اوڑھنے کیلئے بہت باریک کمبل پڑے ہوئے تھے جو وہاں کی سردی کم نہیں کر سکتی اور قیدی سردی سے کانپتے رہتے تھے ۔ مجھے بھی درمیان والے خانے میں لے گئے اور زنجیروں میں بندھی ہوئی حالت میں وہاں چھوڑ دیا ۔ 
چونکہ اس سے پہلے میں نے دو مہینے اور بائیس دن آئی ایس آئی کے سیم زدہ کنکریٹ کمروں میں گزارے تھے پہلی بار ایک وسیع ہال میں لکڑیوں کے چھتوں پر بیٹھنا عجیب سا محسوس ہورہا تھا میں نے ہال کے اردگرد نظر دوڑائی ، وہاں سب سے عجیب چیز بڑا امریکی پرچم تھا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا پرچم نظر نہیں آرہا تھا ۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ ہال روسیوں کے زمانے میں بنایا گیا تھا جو کار گویا ہوائی اڈے کے سامان کے گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔ قیدیوں کے احاطوں کے پیچھے جو کانٹا تار سے ڈھانپے گئے تھے ) کچھ خالی ہیں نظر آرہی تھیں جن میں سے مشینوں کی اتنی تیز آوازیں آرہی تھیں کہ کسی کی بات کو یخ طور پرسنا نہیں جاسکتا تھا ھال کی روشنی کیلئے ٹائر لگئے ہوئے کھمبوں میں بلب لگائے تھے بجلی پیدا کرنے والا ہائی پاور جنریٹر تھا جو زیادہ دور نہیں کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ کی دوسری مشین سے بہت زیادہ تیز آواز آرہی تھی جن سے ایک بڑا پاسنگ پائپ قیدیوں کے تہ خانوں میں بچھایا گیا تھا امریکیوں کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ پائپ قیدیوں کو گرم کرنے اور سردی سے بچانے کیلئے بچھایا ہے ، یہ پائپ گرم تو تھا لیکن ہال کی سردی کو کم کرنے میں اس کا کوئی کردار نہ تھا ، بلکہ شورکی زیادتی کی وجہ سے وہ ہمارے لئے ایک طرح کا نفسیاتی تشدد تھا قیدیوں کے ہر خانے کے آخر میں جو تقریبا بارہ میٹرمربع تھا اور بیس قیدی وہاں رہ سکتے تھے ، تارکول کے بڑے بڑے ڈرم جنہیں درمیان سے کاٹ کر ایک ویلڈ شدہ آہنی چوکاٹ میں رکھا گیا تھا ، اس ڈرم کے ہٹانے کی صورت میں قیدی  یہ کر سکتے تھے کہ پہرہ داروں کی غفلت سے فا ئدہ اٹھا کر ڈرم کے پیچھے خود کو چھپا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں ، ہم تو باگرام میں تھوڑی مدت کیلئے تھے مگر کیوبا میں ہمیں بتایا گیا کہ دو قیدیوں نے اسی راستے سے فرار کی کوشش کی تھی لیکن امریکیوں نے انہیں پکڑنے کے بعد اتنا مارا کہ وہ موقع ہی پر دم توڑ گئے خوست کے ڈاکٹر خاندان کے سامنے ایک قیدی کو دوسرے قیدیوں کے سامنے اتنا مارا کہ وہ خون کی الٹیاں کرنے لگا اور موقع ہی پر شہید ہوا ۔ پھر قیدیوں کو مخاطب کر کے بتایا گیا کہ جو قیدی بھی بھاگنے کی کوشش کریگا اسے اس طرح کے انجام سے دو چار ہونا پڑے گا لیکن اتنے سخت پہرو اور انتظام کے با و جود 1 جولائی 2005 ء کو چار عرب قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جن میں القاعدہ کا عمر الفاروق کا تعلق کویت اور باقی تین افغانی ، شامی اور سعودی عرب کے افراد تھے ۔ اب ہم ایک بار پھر سوالات اور جوابات کی طرف آتے ہیں .
 جب مجھے رات کے آخری وقت میں کا نٹاتار احاطے کے اندر داخل کیا گیا تو میرے ساتھ آئے ہوئے فوجیوں نے کہا اب آپ یہاں آرام کریں کل تمہارے لئے ناشتے لائیں گے اس وقت میں نے دیکھا کہ میرے بھائی مسلم دوست کو بھی پاوں اور ہاتھوں سے باندھے ہوئے لا یا جا رہا ہے ، اس کے سر پر سیاہ ٹوپی چڑھائی گئی تھی ہاتھوں پر اونی دستانے اور پاؤں پر سفید اونی جرابیں تھیں مسلم دوست صاحب کی اس حالت کو دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا یوں کہ میں اسے اسطرح کے لباس میں برداشت نہیں کر سکتا تھا لیکن میں آہستہ آہستہ غم کا عادی ہوتا چلا گیا ۔ چند لمحے بعد جب میں نے قیدیوں کے لباس کی طرف دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر نظر ڈالی تو میں اپنی نظر میں کارٹون لگ رہا تھا اور کبھی کبھی مجھے بھی ہنسی آتی تھی ۔ مسلم دوست صاحب کے بعد حاجی ولی اللہ کو بھی لایا گیا جن کو پشاور سے ہمارے ساتھ باگرام منتقل کیا گیا تھا ۔ میں نے سردی لگنے کی وجہ سے باریک کمبل اوڑھ لیا ، ایک طرف سردی تھی اور دوسری طرف ہاتھ پاؤں میں زنجیریں تھیں جس نے مجھے بہت تنگ کیا ہوا تھا تھوڑا وقت گذرنے کے بعد کسی نے مجھے بلا کر کہا اٹھونماز فجر کا وقت ہے جب میں اٹھ کر بیٹھ گیا تو دیکھتا ہوں کہ میرے قریب خانے میں ایک عرب قیدی آذان دے رہا ہے ۔ جو مشین کی تیز آواز کی وجہ سے بہت کم سنائی دے رہی تھی ۔ وہاں زیادہ تر با تیں اشاروں میں ہوتی تھیں میں نے بھی اشارہ کر کے پہرہ دار سے وضو کیلئے پانی ما نگا لیکن اس نے نفی کا اشارہ کیا میرے قریب عرب قیدی نے جو ہم سے پہلے یہاں لایا گیا تھا اور اس کے ہاتھ اور پاؤں بھی آزاد تھے مجھے تیمم کرنے کا اشارہ کیا ، یہاں سے تین مہینوں کیلئے تمیم کا آغاز ہوگیا ہمیں صرف پینے کیلئے پانی دیا جاتا تھا ، وہ بھی بہت کم مقدار میں جو پینے کیلئے بھی کافی نہ ہوتا تھا ۔ یہ پانی پلاسٹک بوتلوں JS
part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی