عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط 10

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7   part 8   part 9   part 10

وہ دیکھ نہ سکا ۔ جب رات ہوئی تو رات کے وقت بھی قیدیوں کو پوچھ گچھ اور تفتیش کیلئے لے جایا جاتا تھا ۔ جب قیدی کوتفتیش کیلئے لے جایا جا تا تھا تو فوجی اونچی آواز میں کہدیتا Get up ( آٹھ جاؤ ) ان کے پاس کتا بھی ہوتا تھا شور سے سارے قیدی جاگ اٹھتے کچھ دیر بعد دوسرے قیدی کا نمبرآ تا یا تلاشی کیلئے فوجی آجاتے تلاشی کی ترتیب یوں تھی کہ ایک گروپ کی شکل میں کئی فوجی کتوں کے ساتھ اچانک ایک خیمے میں داخل ہوجاتے اور اٹھو اٹھو کی آواز لگادیتے ۔ ان سب کو خیمے سے باہر نکلنے کیلئے کہہ دیتے وہ سب باہر جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر اپنے سروں پر رکھدیتے ہر قیدی کے قریب تین فوجی کھڑے ہو جاتے اور کتے بھی اس کے سامنے بھونکتے تھے ، پھر قیدیوں کو کھڑا کر کے ان سے پورے بدن کی تلاشی لیجاتی اس کے بعد انہیں زمین پر گھٹنوں کے بل کھڑا کر کے سارے خیمے کی تلاشی لیجاتی تھی بعض قیدیوں کو غلاظت اور گندگی اٹھانے کیلئے مقرر کرتے جب تلاشی کا کام ختم ہو جاتا تھا تو Get up کہہ دیتے ۔ قیدی زمین سے اٹھ کر اپنے بدن سے مٹی جھاڑ دیتے اور اپنے اپنے خیموں میں واپس چلے جاتے ۔ ایک رات ایک قیدی کمبل میں سویا ہوا رہ گیا تھا ، ہم نے بھی اسے نہیں دیکھا تھا ہم باہر نکل کر گھٹنوں کے بل کھڑے تھے ہم میں سے ایک کو تفتیش کے لیئے روانہ کیا گیا اسی وقت ایک فوجی کی نظر اس سوئے ہوئے قیدی پر پڑ گیا ، اس نے وائرلیس سے دوسرے فوجیوں کو بلایا انہوں نے سارے خیمے کی تلاشی لی اور سوئے ہوئے قیدی کو بھی تین گھنٹوں تک گھٹنوں کے بل کھڑا کیا خیموں میں موجود قیدیوں کو رات مختلف اوقات میں جگایا جاتا اور آدھ آدھ گھنٹے کےلئے خیموں سے باہر سخت سردی میں گھٹنوں کے بل کھڑا کر دیا جا تا خواتین اور مرد آپس میں بغل گیر ہو جاتے اور ایک دوسرے سے بوس و کنار کر تے تھے قیدیوں نے بگرام میں امریکی فوجیوں کو سر عام ان کو زنا کی حالت میں بھی دیکھی ہے ۔ قندھار میں جیل کے قریب دروازے کے سامنے ایک کمپیوٹر سیٹ رکھا گیا تھا جس گندی اور فحش فلمیں دکھائی جاتیں ۔ ایک امریکی فوجی جواذان ان کی نقل اتار رہا تھا ہاتھ میں غلاظت کے خشک ٹکڑے اٹھا کر قیدیوں کو کہتا کہ کھا لو یہ بہت مزیدار چیز ہے ۔ ایک دن اس فوجی نے پتلون اتار کر اپنی پشت اس پہرے دار کی طرف پھیر لی جو دوربیںں ہاتھ میں اٹھا کر قیدیوں کی حرکات اور سکنات کا جائزہ لیتا تھا ۔ اس بے حیافوجی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری مخصوص جگہ کودیکھو کتنی خوبصورت ہے ۔ 
ایک اور بداخلاق فوجی بھی ایک دن آ کر کھڑا ہوگیا ۔ ایک یمنی عرب قیدی بالٹی پر رفع حاجت کیلئے بیٹھا ہوا تھا فوجی نے دو تین بار اسے کہا جلدی کرو قیدیوں کے خیموں میں بڑا افسر آنیوالا ہے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے افسروں کے سامنے کوئی قیدی رفع حاجت کیلئے بیٹھا ہو عرب قیدی خاموش تھا ۔ بالاخر اس ظالم فوجی نے پتھر سے اسے مارکر اٹھنے پر مجبور کیا ، جب وہ ٹشو پیپر سے خودکو گندگی سے صاف کرنے لگا تو فوجی نے کہا تم اتنے زیادہ ٹشو پیپر کیوں استعمال کرتے ہو ؟ منہ تو نہیں جس پر کھاتے پیتے ہو شرم گاہ تو ویسے بھی گندی چیز ہے اور دوبارہ گندی ہوتی ہے ۔ امریکی فو جی جو طہارت اور استنجاء کی اہمیت سے ناواقف تھا نے عرب کو جلدی سے نہ اٹھنے کے جرم میں نصف گھنٹے کیلئے گھٹنوں کے بل کھڑا کردیا ، یہ کام ہمارے سامنے ہوا اور ہم اس عمل کے چشم دید گواہ ہیں ۔ ابو احمد المغربي لندن میں قیام پزیر تھا اور وہاں سے تجارت کے سلسلے میں قانونی طور پر پاکستان آیا ہوا تھا ۔ یہاں پاکستانی حکام نے اسے پکڑ کر امریکہ کے حوالہ کیا تھا ۔ 
اس بیچارے کو ہر دن سزادی جاتی تھی ، اس لئے کہ وہ انگریزی جانتا تھا اور امریکی فوجیوں کو کہتا تھا کہ تم بہت ظالم لوگ ہو اس کے دل میں ان کے خلاف بہت زیادہ نفرت تھی یہی وجہ تھی کہ بعض اوقات اسے دن میں دس بار سے بھی زیاد و سزادی جاتی جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہر خیمے میں دو چھوٹی چھوٹی بالٹیاں رکھی گئی تھیں تا کہ قیدی وہاں رفع حاجت کرسکیں ، صفائی کیلئے صرف دو رول ٹائلیٹ پیپر قیدیوں کو دیا جا تا تھا لیکن پھر بھی قیدیوں پر غصہ کرتے کہ تم پیپر زیادہ استعمال کرتے ہو تم سے پہلے قندھار میں قیدی حضرات پردے کے بغیر بالٹی پر بیٹھ کر رفع حاجت کرتے تھے ۔ لیکن خوش بختی کی بات یہ تھی ہمارے قندھار جیل میں پہنچنے سے چند دن پہلے ہر خیمے میں دو عدد پلاسٹیک کی شیٹ جس کی اونچائی ۵۰ میٹر تک بنتی تھی کھڑے کئے گئے تھے تا کہ رفع حاجت کے وقت پردے کا کام کرے ، پلاسٹک شیٹس کے چوکاٹ کا ایک حصہ بالکل کھلا رکھا گیا تھا تا کہ قیدی کی حرکات اور سکنات پر نظر رکھی جا سکے کہ کہیں بم تو نہیں بنا رہا ہے لیکن یہ چوکاٹ بہت سے خیمے میں نہیں رکھا گیا تھا ۔ بہت سے خیموں کے قیدی بالٹی پر بیٹھ کر پردے کے بغیر رفع حاجت کرتے تھے ۔ ہر خیمے میں تقریبا اٹھارہ سے بیس قیدی رہتے تھے دو بالٹی چوبیسں گھنٹوں میں فضلات سے بھر جاتیں اور اکثر اوقات فضلات نیچے بہہ جاتے لیکن اپنے وقت سے پہلے باہرپھینکنے کی اجازت نہیں تھی قیدی بد بو سے تنگ ہو جاتے تھے اور الٹیاں کرنے لگتے تھے ۔ بعض خیموں میں صرف ایک ہی بالٹی ہوتی تھی جب قیدی دوسری بالٹی کا مطالبہ کرتے تو انہیں کہا جاتا تھا کہ ریڈ  کر اس سے مانگو جب وہ ہمیں کہدے تو ہم تمہیں دوسری بالٹی دیدیں گے ۔ بیچار ہ قیدی ریڈ کراس کے اہلکاروں کی آمد کا انتظار کرتے تھے کہ وہ آ کر ان کا مسئل حل کر دیں اور یہاں ریڈ کراس کی عزت اور اہمیت ان پر بڑھائیں اور انہیں اپنا ہمدرد سمجھنے لگے ، ریڈ کراس کے اہلکار اس طرز عمل کے ذریعہ قیدیوں سے ایسے سوالات پوچھتے تھے کہ امریکیوں نے بھی نہیں پوچھے تھے اور یوں قیدیوں سے معلومات حاصل کر لیتے جب فضلات سے بھری ہوئی بالٹیوں کو خالی کرنے کا وقت آجاتا تھا تو امریکی فوجی زنجیر ہاتھوں میں لیکر ہر خیمے سے باری باری ہردن دو ، دو قیدیوں کو نکال کران بالٹیوں کو اٹھا لیتے اور دور پڑی دیوار کے قریب رکھے ہوئے بڑے بڑے ڈرموں میں خالی کرواتے ۔
 یہ وہی ڈرم تھے جس میں ۱۵ مارچ ۲۰۰۲ کو ایک بد اخلاق اور ظالم امریکی فوجی نے قرآن کریم قیدیوں کے سامنے پھینک دیا تھا ۔ بالٹیوں کے خالی کرنے کا کام پہلے دو بے ایمان اور بے غیرت عربوں کے ذمہ تھا ایک کا نام علی تھا جو عراق کا رہنے والا تھا اور دوسرے کا نام عیسی تھا جو بحرین سے تعلق رکھتا تھا وہ یہ کام کھانے کے ایک اضافی پیٹ کے عوض کررہے تھے ، انہوں نے نماز پڑھنی بھی چھوڑ دی تھی اور امریکیوں کو کہتے تھے کہ ہم نے عیسائیت قبول کر لی ہے وہ قیدیوں کی جاسوسی بھی کیا کرتے تھے على عراقی تو آخر تک اسی حالت میں ر ہالیکن عیسی بحرینی نے کیوبا میں اسی بری حرکت سے توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کر لی ۔ پھر یہ نظم بنایا گیا کہ ہر دن ایک ھی خیمے سے دو قیدیوں کو بالٹی خالی کرنے کیلئے نکالاجا تا تھا اور وہ سیارے خیموں کی بالٹیوں کو خالی کرادیتے تھے ان کے دونوں ہاتھ تو آزاد ہوتے لیکن پاؤں میں زنجیریں ہوتی یہ کام باری باری تمام خیموں میں موجود دوقیدی ہردن انجام دیتے تھے قید یوں کو اپنے خیمے کے اندر موجود دوسرے خیموں کے قیدیوں سے بات چیت کرنے کی قطعا اجازت نہیں تھی ، ایک تو قیدیوں کے خیمے ایک دوسرے سے دور تھے اور کسی کو معلوم نہیں ہورہا تھا کہ اس کا دوست کسی خیمے میں ہے ، اگر کسی کو معلوم بھی ہوجاتا کہ فلاں خیمے میں ہے تو اس کے ساتھ بات کرنے کا کوئی ذریعہ میسر نہ تھا اس سے ملنے اور بات کرنے کا ایک طریقہ تھا کہ وہ بالٹیوں کو خالی کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کر دیتا اور اسی بہانے اپنے دوستوں سے ملاقات کرتا یاکسی قیدی کا پیغام دوسرے قیدی کو پہنچا دیتا یہ طریقہ پھر اتنا عام ہوا کہ بالٹی خالی کر نے والا شخص حیران ہو جاتا کہ قیدیوں کے اتنے پیامات کس طرح ایک دوسرے کو پہنچائے ؟ اور کس طرح اپنے ذہن میں محفوظ رکھے ؟ یہ سارا کام بالٹیوں کو لینے اور پھر دو پاره دینے کے وقت انجام پاتا تھا جس وقت وہاں کھڑے فوجیوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ وہ اس کام میں زیادہ وقت لگاتے ہیں تو وہ Hurryup ( جلدی کرو ) کی آواز دیتے لیکن امریکیوں کو آخری وقت تک معلوم نہ ہو سکا کہ بالٹیاں خالی کرنے کے وقت قیدیوں کے درمیان کتنا تبادلہ خیال ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتے ہیں . بالٹیوں سے فضلات پھینکنے کا یہ کام قیدیوں کیلئے اتنادلچسپ ہو گیا تھا کہ خیمے کے اندر موجود ہر کوئی کوشش کر رہا تھا کہ یہ کام وہی انجام دے اور اسی بہانے سے دوسرے خیموں میں موجود قیدیوں سے ملیں . اور ان کا پیغام ایک دوسرے کو پہنچائیں ۔ چونکہ میں انگریزی جانتا تھا اس لئے امریکیوں نے مجھے اپنے خیمے کا سربراہ منتخب کیا تھا ، یہی حالت سارے خیموں کی تھی اور ہر خیمے میں ایک سربراہ ضرور موجود ہوتا تھا ۔ جب بھی فوجی میرا نام پکارتے تو خیمے کے اندر ہر قیدی کی خواہش ہوتی کہ بالٹیاں صاف کرنے کا کام اسے سپرد کیا جائے میں بھی شدت سے چاہتا تھا کہ بالٹیاں خالی کرنے کے بہانے اپنے بھائی مسلم دوست سے ملوں کیوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں انہیں دیکھنے کیلئے میں نے بھی ایک دن بالٹیاں صاف کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا اور سارے خیموں کی بالٹیاں بڑے ڈرموں میں خالی کرنے لگا اسی دوران مسلم دوست سے ملنے کی خواہش پوری ہوئی جو مجھ سے کافی دور ، ایک ایسے خیمے میں جہاں سارے بیمار قیدی ڈالے گئے تھے . جب میں بالٹیوں کو لینے کیلئے قریب گیا تو میرا بھائی مسلم دوست اندر سے بالٹیاں مجھے دینے کیلئے اٹھا اور اسی اثنامیں تھوڑی سی بات چیت اور تبادلہ خیال بھی ہوا اور ملاقات بھی ۔ غموں کے گرداب میں خوشی کے یہ عجیب و غریب لمحات تھے لیکن ہمیں زیادہ دیر کھڑے ہونے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی ان ظالم فوجیوں کو پتہ تھا کہ ہم دونوں بھائی ہیں ، بھائی بھی مشرقی دنیا کے جو آپس میں بہت پیار کرتے ہیں فوجیوں نے Hurryup ( جلدی کرو ) کی آواز دی ، میں نے فضلات سے بھری ہوئی بالیاں اٹھائیں اور بڑے ڈرم میں خالی کردی قیدی خوش تھے کہ دو بھائیوں کے درمیان ملاقات ہوئی ۔ جب میں خالی بالٹیاں دو بار ہ خیمے میں لایا تو مسلم دوست آگے بڑھے اور مجھے سے بالٹی لیتے وقت جلدی جلدی اپنی تازہ شاعری کے چند اشعار سنائے اس وقت بہار کا موسم تھا لیکن قندھار کی امریکی جیل میں موسم بہار کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا تھا مسلم دوست صاحب نے اس حالت کے بارے میں چند شعر جلدی جلدی میرے گوش گذار کر دیئے جو ہمیشہ مجھے آتے رہتے ہیں لیکن کتاب کی طوالت کی وجہ سے یہاں پیش نہیں کر سکتے ۔ واقعی بہار کے پھولوں کی خوشبو کی جگہ ہمارے ہاں انسانی فضلات کی بالٹیوں کی بد بوتھی ۔ بالخصوص جب بڑے ڈرم خالی کئے جاتے تھے تو سارے کیمپ میں بدبو پھیل جاتی ظالم امر کی یہ کام کھانا کھاتے وقت کرتے تھے تا کہ قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ نفسیاتی اور ذہنی اذیت پہنچائی جا سکے ۔

میں اور مسلم دوست قندھار میں تقریبا ڈیڑھ ماہ تک ایک دوسرے سے بے خبر رہے یہاں تک کہ دور سے بھی ایک دوسرے کونہیں دیکھ سکتے تھے اس کی وجہ تھی کہ جب ہم قندھار پہنچے تو مجھے اور مسلم دوست کو الگ الگ خیموں میں رکھا گیا اور دوسری رات مجھے قید تنہائی میں ڈالنے کے لئے انفرادی جیل لے جایا گیا ۔ اس وقت قندھار میں جستی چادروں کے گودام قیدیوں کے مابین کنٹینرز کے نام پر یاد کئے جاتے تھے اور کنٹینرز میں کسی کو لے جایا جانا اچھا شگون نہیں تھا ۔ ان کنٹینرز میں تفتیشی افسران کی جانب سے یا پھر انتظامی مشکلات کے باعث لوگ لے جائے جاتے تھے ، میں تو صرف دو دن قبل قندهار لایا گیا تھا اس لئے قید یوں یا فوجیوں کو کسی حوالے سے بھی مجھ سے شکایات نہ تھیں لیکن تفتیشی افسر مجھے پوچھ گچھ کی خصوصی مشکلات کے لئے کنٹینرز لے گئے تھے قید تنہائی کے گھروں کو پاکستانی جیلوں میں چکی کہا جاتا ہے ۔ امریکیوں نے اسی کے لئے ہی یہ جگہ مخصوص کی تھی مجھے اس کنٹینرز میں بندھی ہوئی آنکھوں سے داخل کیا گیا جب میری آنکھیں کھول دی گئی تو دیکھا کہ کنٹینرز کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا کنٹیز کے درمیان میں جستی چادر کی دیوار کھڑی گئی تھی اور پھر ہر خانے میں کانٹا تار کے زریعے چار چار خانے بنائے گئے تھے ۔ ہر ایک خانہ تین مربع میٹر پر محیط تھا ۔ ہر ایک خانے کا دروازہ بھی کا نٹاتار کے ہٹانے اور بچھانے سے کھلتا اور بند ہوتا اور دونوں جانب انفرادی خانوں کے مابین ایک میٹر کا راستہ رکھا گیا تھا جس میں فوجی بھی آتے جاتے اور قیدی بھی بند آنکھوں اور جھکی کمروں کے ساتھ لائے جاتے تھے کنٹینرز کا ایک حصہ کھلا تھا اور دوسرے حصہ کا چوتھا حصہ بھی پہرہ داروں کے لئے کھول دیا گیا تھا دونوں جانب کنٹینر پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بنائی گئی تھی اور وہاں بھی دو اور  تین گھنٹے بعد مسلح پہرے دار ڈیوٹی تبد یل کرتے ۔ کینٹینرز روسی جنگ کے وقت سے لڑائی کے دوران گولیاں لگنے سے چھلنی ہو گئے تھے اور بارش کی صورت میں نیچے پڑے قیدی گیلے ہو جاتے تھے ۔ ہر قیدی کو صرف ایک کمبل د یا گیا تھا ، جسے آدھانچے بچھادیتے اور آدھا اوپر اوڑھ لیتے تھے اجتمائی جیل میں فرش لکڑی کا تھا مگر کنٹیز میں قیدی گیلی ریت کے فرش پر پڑے ہوتے تھے ۔ میں نے قندھار کے جیل میں 25راتیں گذاریں اس دوران کئی لوگ میرے سامنے سے گذرے بعض لوگوں کو ابتدائی چند راتوں میں ایک کمبل بھی نہیں دیا جاتا تھا اور وہ گیلی ریت پر پڑے ہوتے اس کنٹینرز کی قید تنہائی میں پڑے قیدی امریکیوں کی سوچ کے مطابق خطرناک اور دہشت گرد ہوتا اوراسی وجہ سے وہ ان کے ساتھ برا سلوک روارکھتے ۔
 ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ دن اور رات تنہائی میں گزرتی تھیں ۔ جب تفتیش کے لئے کسی قیدی کو پکارا جاتا تو وہ دوسرے عام قیدی کی طرح فرش پر اوندھے منہ لیٹ جاتا اور اپنے ہاتھ اپنی پشت پر رکھ لیتا تھا ۔ دونوں جانب ڈیوٹی پر موجود گارڈ اپنی بندوقوں کو لوڈ کر کے اس کی طرف کر لیتے اور حرکت نہ کرو کی آواز لگا دیتے پھر دوسرے فوجی زنجیروں سمیت آکر اسے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنادیتے اور کالی ٹوپی سر پر پہنا دیتے اور رکوع کی حالت میں پو چھ گچھ کے لئے لے جاتے ۔ پوچھ گچھ کے لئے لے جاتے وقت عام قیدیوں کے لئے کتے کی موجودگی ہر وقت ضروری نہیں تھی مگر کنٹیرز جیل سے قیدیوں کوتحقیق کے لئے لے جاتے وقت فوجیوں کے ساتھ کتوں کی موجودگی لازمی تھی ۔ 
کسی جیل میں قید افراد کو نفسیاتی تشدد کے لئے بھی بعض فوجی مقرر تھے جب رات کافی ہو جاتی تو و کنٹیر کے اوپر بڑے بڑے پتھر پھینک دیے کنٹینر کے اوپر کی چھت دائرہ نماتھی اور پتھر نیچے لڑھکتے وقت تھوڑا وقت لیتا تھا اور یہ نیچے تک پہنچتے پہنچتے اس کی گڑگڑاہٹ ہوتی ایک پتھر کے نیچے آنے کے بعد وہ دوسرا پھر مارتے اور کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا ۔ یا پھر ایک دوفوجی ڈنڈوں سمیت مقرر ہوتا چوکنٹینرز کی چادر کوڈنڈوں سے مارتے جس کے شور سے قیدی سونہیں سکتے تھے کبھی کتے کنٹینر میں چھوڑ دیتےجو بھونکتے اور قیدی کو سونے نہ دیتے ۔ یوں ایک نہ ایک کھیل جاری رہتا تھا ہر وقت کوئی نہ کوئی قیدی پوچھ گچھ کے لئے جا رہا ہوتا تھا یا پھر کتوں کے تعاقب کے ساتھ واپس آرہا ہوتا تھا ۔ کبھی ایک کھیل تھا کہ کنٹیز میں ایک نہ ایک قیدی سزاوار ہوتا ۔ 
یہ سزا وار قیدی راتوں کو گھٹنوں کے بل کھڑا ہوتا اور ہاتھ سر پر رکھے ہوتے یا پھر اسے کھڑے ہونے ، بیٹھنے اور لیٹنے نہیں دیا جا تا تھا کنٹنرز میں تین اہم افراد سے میرا سامنا ہوا . پہلے کالے رنگ کا ایک پستہ قد آدی لایا گیا اور بائیں جانب خانے میں ڈال دیا گیا کنٹینرز میں ایک جانب ہم چار افراد و قرآن کریم کا ایک نسخہ دیا گیا تھا ہم باری باری اس کی تلاوت کرتے تھے اور ایک دوسرے کو کا نٹا تار کے خلا میں دیتے رہتے تھے ۔ جب کالے رنگ کے پست قد آدمی کو میرے ساتھ والے خانے میں ڈالا گیا تو میں اس کے عربی یا عجمی ہونے میں شک میں مبتلا تھا ۔ اگلے روز جب میں قرآن پاک اسے دے رہا تھا تو اس سے پوچھا کہ کون ہو ؟ اس نے جلدی جلدی انگریزی میں کہا کہ برطانی کا باشندہ ہوں ، وہاں پیدا اور بڑا ہوا ہوں ، ماں باپ پاکستانی ہیں مجھے ایک ہفتہ قبل اسلام آباد میں پکڑا گیا مگرہمیں باتیں کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر طیاروں کے شور کے باعث وہ ہماری باتیں نہیں سن رہے تھے ۔ دوسری بات یہ کہ ہم اس وقت پہلے سے باتیں کرتے تھے جب ہم ظاہراً قران کریم ایک دوسرے کو دیتے یا لیتے تھے ۔ ہمارے لئے بات کرنے کا موقع صرف قران شریف ایک دوسرے سے لینے یا دینے کی وقت ہوتا تھا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس قیدی کا نام حذیفہ تھا وہ کابل میں عربوں کے ساتھ رہتا تھا ، وہاں اس نے ایک یتیم خانہ بنایا ہوا تھا بہت متحرک شخص تھا اور باڈی بلڈر تھا اورکنٹینرز میں بھی ہر وقت ورزش کر تا تھا برطانیہ میں اس کا ایک اسلامی مرکز بھی تھا ۔ کچھ عرصہ میں وہاں سے ہجرت کر کے اپنے اہل و عیال سمیت کابل میں رہائش پزیر تھا ، اسے اس الزام میں پکڑا گیا تھا کہ وہ القاعدہ کے بڑوں سے قریبی روابط رکھتا ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسے واپس با گرام لے جایا گیا ہے اور ایک سال وہاں رکھا گیا ہے ۔ باگرام میں زیادہ عرصہ اسے رکھنے کا مقصد وہاں لائے جانے والے قیدی اس کے سامنے لانے اور زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے رکھا گیا تھا ۔ لاہور کا سعد مدنی جو سعودی عرب میں پیدا ہوا اور انڈونیشیا میں پکڑا گیا کو بھی باگرام میں ایک سال رکھا گیا تھا توکل کے ساتھ بھی تین ماہ کمرے میں ڈالا گیا اور قیدیوں کے درمیان مشکوک بھی تھا حذیفہ بعد ازاں با گرام میں عرب رہنماؤں کے ساتھ بھی کچھ عرصہ کے لئے ایک ہی کمرے میں ڈالا گیا تھا اور اب رہا کر دیا گیا ہے کنٹینر جیل میں لایا جانے والا دوسرا اہم قیدی حمزہ تھاوہ تیونس کا باشندہ تھا کیوبا میں عرب قیدیوں کے مابین حمزہ البطل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا حمزہ البطل طویل قامت قوی الجثہ کالے رنگ کا آدمی تھا وہ بھی باڈی بلڈر لگ رہا تھا ۔ اس کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے حمزه البطل کوکنٹینر میں میرے تین ہفتے بعد لایا گیا اسے مکمل برہنہ اندر لایا گیا دورات تخت سردی میں یوں ہی برہنہ حالت میں کھڑ ارکھا گیا کمبل بھی نہیں دے رہے تھے اور سونے بھی نہیں دے رہے تھے زبان بھی نہیں سمجھتا تھا اور فوجیوں کے ساتھ اشاروں میں باتیں کرتا تھا امریکیوں کو حمزه البطل پر اس لئے غصہ تھا کہ وہ اتناماہر تھا کہ پکڑے جانے کے بعد سے سینکڑوں بار اس کی مکمل جسمانی تلاشی لی گئی تھی اور اس کے کپڑے بھی کئی بار انہوں نے خود تبدیل کئے تھے مگر اس حالت میں بھی وہ ایک سو امریکی ڈالر کا نوٹ چھپائے رکھنے میں کامیاب ہوا تھا اور تین ماہ تک امریکی اس بات پر قادر نہیں ہوئے تھے کہ اسے برآمد کر میں اسے کہتے ہیں سی آئی اے اور ایف بی آئی کا مضبوط جاسوسی نظام ! ؟ حمزه البطل یہ نوٹ با گرام جیل میں بھی اپنے پاس رکھنے اور یہاں تک لانے میں کامیاب ہوا تھا اور یہاں بھی اسےچھپائے رکھا تھا وہ جس خیمے میں رکھا جاتا وہاں جب تلاشی کے لئے فو جی آتے تو وہ نوٹ میں چھوٹا سا پتھر رکھ کر اسے ساتھ والے خیمے میں پھینک دیتاجب تلاشی گزر جاتی تو ساتھی واپس اسی کی طرف پھینک دیتے کبھی کبھی جب ساتھ والے خیمے میں اعتمادی ساتھی نہ ہوتا تو پھر دور کے خیمے میں پھینک دیتا . یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا مگر بالآ خر آشکارا ہوا اور میرا خیال ہے کہ قیدیوں کے اندار سے کسی جاسوس نے اگر راز افشا نہ کیا ہوتا پھر بھی نہیں پاسکتے تھے مگر و نگرانی میں تھا اور پھینکتے وقت دیکھا گیا ۔ تفتیشی افسر کو بھی حمزه البطل پرسخت غصہ تھا وہ کہتے تھے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو ہماری سخت امیگریشن کے نظام سے گذرتے ہو اور طیارے عمارتوں سے ٹکراتے ہو . جب حمزہ البطل کو برہنہ کنٹینرز میں لایا گیا تو ایک تفتیشی افسر آیا اور چاہتا تھا کہ اسے بتائے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جو طیارے عمارتوں سے ٹکڑاتے ہیں وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ انگریزی نہیں سمجھتا چنانچہ امریکی افسر نے تخت غصے اور تکرار میں اسی کی جانب انگلی اٹھائی اور اسے اپنا پیغام جملوں کے بجائے ٹوٹے الفاظ میں یوں پہنچایا You Newyark , airplane , bummm - یو ... نیو یارک ....... ایرو پلین ........ بوم یعنی تم نے نیویارک میں ورلڈ ٹر یڈ سنٹر سے طیارے کرائے تھے جس سے بوم کی آواز آئی تھی ۔ امریکی تفتیشی افسر نے یہ بات کرتے ہوئے اپنی دونوں ہاتھوں سے طیارے کے پر بنادیتے اور بوم کے لفظ کے ساتھ اپنے بدن کو اس انداز میں مارتا گویا ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا رہا ہو حمزہ البطل گوانتانامو میں بھی کافی عرصہ قید تنہائی میں گذارا اور یہ بات مشہور تھی کہ تفتیشی افسروں کو معلومات نہیں دے رہا بلکہ ان کا مذاق اڑاتا ہے حمزه البطل کے ساتھیوں میں اس کا ایک جملہ بہت مشہور تھا جس نے اپنی تفتیش کے بارے میں انہیں بتایا تھا ۔ تفتیشی افسر نے حمزه البطل سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ حمزہ البطل یعنی جری حمزه ، حالانکہ اس کا نام حمزہ تھا ۔ پھر پوچھا کہ افغانستان میں کتنا عرصہ قیام کیا ہے ؟ اس نے کہا : اٹھارہ مہینے اس سے تیسرا سوال یہ کیا گیا تھا کہ کیا تم نے فوجی ٹریننگ حاصل کی ہے یانہیں ؟ حمزہ نے جواب میں کہا نہیں تو تفتیشی افسر نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ عرب قیدی تفتیشی افسر کے الفاظ عربی میں یوں  دوہراتے تھے ۔ 
تفتیشی افسر : ( حمزة البطل سنة ونصف في افغانستان و مافيه التدريب ؟ لايمكن ) 
حمزہ : نعم حمزه البطل سنة ونصف في افغانستان و مافيه التدريب ) یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حمزه البطل افغانستان میں اٹھارہ مہینے گزارے اور فوجی تربیت حاصل نہ کرے
ایسا تو ممکن ہی نہیں اس نے کہا ٹھیک ہے میں حمزہ البطل اٹھارہ سال افغانستان میں رہا ہوں لیکن فوجی تربیت نہیں کیا ہے ، اس جملے کے ساتھ حمزه البطل امریکی تفتیشی افسر کی نقل اتارتا تھا اور ان کی طرح حرکات کرتا تھا کنٹینر سے نکلنے کے وقت حمزہ البطل برہنہ تھا تاہم اسے بعد میں ایک کمبل دیا گیا تھا ۔ کنٹینر کی قید تنہائی میں جو تیسرا شخص میں نے دیکھا و طالبان کا ایک مشہور معروف شخص تھا ۔ جب قید تنہائی میں میرے پندرہ دن ہوئے ایک رات میں کنٹینرز میں گیلی ریت پر پڑا ہوا تھا جب کافی پریشان سوچوں کے بعد ابھی سو یا ہی تھا کہ میرے پہلوں میں درد شروع ہوا میں سمجھ رہا تھا گویا کسی نے وار کیا ہو دیکھا تو میری نظر ایک ڈھیلے پر پڑ گئی سر اٹھایا تو میرے خانے کے کانٹاتار کے پار دو امریکی فوجی کھڑے تھے اور زور زور سے ہنس رہے تھے ساری رات کنٹینر پر پتھر ڈالنے اور ڈنڈوں سے مارنے پر ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی جب مجھے سوئے ہوئے دیکھا تو انہوں نے ایک بڑا پتھر مجھے مارا تا کہ میں سونہ سکوں ، پتھر لگنے کی وجہ سے گردوں میں دور ہونے لگا تھا البتہ اوپر سے کوئی نظر نہیں آرہا تھا اور کئی دنوں تک درد سے کراہ رہا تھا ۔ جب طبی ٹیم کو درد کی شکایت کی تو انہوں نے درد کی جگہ کو دیکھ کر کہا چلو کوئی بات نہیں اوپر سے کوئی خراش نہیں ہے میں پورا واقعہ بیان کرتا میری بات بھی سنتے مگر کان نہیں دھرتے تھے ۔ چند دنوں تک اسی درد کی وجہ سے پیشاب میں خون بھی آتا تھا ۔ پھر خود ہی ٹھیک ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی کھڑے ہو کر پیشاب کر رہا تھا کسی نے اسے کہا تم اتنی بڑی عمر کے باوجود اس طرح کھڑے ہو کر پیشاب کر رہے ہو یہ کیا بدتمیزی ہے ؟ اس نے جواب میں کہا : اب تو میں بہت اچھا انسان بن گیا ہوں اس سے پہلے تو میں پیشاب کرتے وقت چاروں طرف گھومتا بھی تھا ۔ بالکل اس طرح میرے ایک سوال کے جواب میں امریکی تفتیشی افسر نے اس طرح جواب دیا میں نے استفسار کیا کہ آخر تمہاری فوجیوں نے مجھے کس جرم میں پتھر سے مارا ؟ کہا کہ اب تو حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں تمہارے آنے سے پہلے حالت بہت برے تھے اور ہمارے فو جی نیویارک اور واشنگٹن کے حادثات کے حوالے سے بہت مشتعل اور غصے میں تھے لیکن مجھے امریکی فوجیوں نے غصے کی حالت میں پتھر نہیں ماراوہ تو خوش تھے اور ہنس رہے تھے ۔ میرا مذاق اڑا رہے تھے اور کنٹینر کے دونوں جانب پہرے پر مامور فوجی بھی ہنس رہے تھے ۔ اور میری اس حالت سے لطف اندوز ہورہے تھے جو ان کے تکبر کا اظہار تھا ۔ یہاں جس رات امریکی فوجیوں نے مجھے پتھر سے مارا یہ وہ رات تھی جب ایک نیا قیدی ہمارے کنٹیز میں لایا گیا تھا ۔ جب میں نے فوجیوں کی جانب دیکھا تو
part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7   part 8   part 9   part 10

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی