عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۸

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7   part 8


  میں ہمیں دیا جا تا تھا جو کویت کے روضتین Rawzatain نامی کمپنی نے تیار کیا تھا نماز کے وقت میں نے اپنے قریب دو نئے قیدیوں کو دیکھا ، اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک غزنی کا باشند ہ مولوی عبد الستار اور دوسرا مزار شریف کا باشندہ مولوی محمد شریف تھا دونوں کوٹھری سے یہاں لایا گیا تھا اور ہمارے احاطے میں اذان فجر سے پہلے ڈالا گیا تھا دونوں کی داڑھی منڈوائی گئی تھیں ، اگرچہ اب وہ ان شکلوں سے مولوی معلوم نہ ہوتے تھے مگر شمالی اتحاد والوں نے انہیں پکڑ کر امریکیوں کے حوالہ کیا تھا ۔ اور انہیں کہا تھا کہ یہ دونوں طالبان تحریک کے سرکردہ لوگ ہیں . انہوں نے کہا کہ شمالی اتحاد والوں نے پہلے ہم سے رشوت کا مطالبہ کیا چونکہ ہمارے پاس دینے کیلئے پیسے نہیں تھے تو انہوں نے ہمیں آئی ایس آئی کی طرح امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا دوسرے دن اسی مولوی عبدالحنان نے مجھے بتایا کہ ہم بگرام میں ہیں ۔ نماز فجر کے بعد قیدیوں نے قران شریف کی تلاوت کا آغاز کیا ، چونکہ ہمارے پاس قران شریف نہیں تھے تو ہم اذکار صبح میں مشغول ہوئے . جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کرتے تو کھڑے پہرہ دار ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتے تھے صبح  کے ناشتے کیلئے انڈوں کی یخنی ہمیں دی گئی ، چونکہ ہم آئی ایس ائی کی جیل میں مرچ اور مصالحہ دار تر کاری سے تنگ آ چکے تھے اس لئے یہ پخنی ہمیں غنیمت معلوم ہوئی پھر حلال کے نام سے پیٹ بند کھانا ، ایک چھوٹی ڈبی میں بندکشمش ، تھوڑا سا بکٹ آدھی افغانی روئی ہمیں دی جاتی تھیں ۔ یہی ہمارا کبھی دو وقت اور کبھی تین وقت کا کھانا ہوتا تھا کبھی کبھار وہ ایک مالٹه ، یا ایک سیب بھی روٹی کے ساتھ لاتے تھے پہلی تحقیق کے دوران میں نے دیکھا کہ امریکی تفتیش کار سیاہ چائے کے ساتھ افغانی روٹی کھا رہا ہے یہ دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ شاید ہم افغانستان میں ہیں ، میں نے امریکی سے پوچھا کہ ہم کہاں ہیں ؟ اس نے کہا تمہیں کیا فکر ہے ، میں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہا کیا ہم امریکہ میں ہیں ؟ انہوں نے بتایا نہیں . You are not in America but you are in American hands تم امریکہ میں نہیں لیکن امریکیوں کے ہاتھوں میں ہو ، اس کے ساتھ امریکی محقق نے اس خراب حالت پرنظر ڈالتے ہوئے تمسخر کے لہجے میں قہقہ لگانے کے بعد کہا : Is America ? like this کیا امریکہ ایسا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اس نے پوچھا تم نے انگریزی کہاں سے سیکھی ہے ؟ میں نے کہا پاکستان میں .وہ میری اس بات کو بھی شک کی نظر سے دیکھتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ میں انگریزی کی بدولت اگر ایک طرف تر جمان کی

غلط ترجمانی سے محفوظ تھا تو دوسری طرف وہ مجھ پر شک کررہے تھے کہ میں نے لا ز ما بیرون ملک کا سفر کیا ہے ، یورپ یا امریکہ ، وہ سمجھتے تھے کہ میں اس بات کو ان سے چھپاتا ہوں ، وہ اس بارے میں بار بار پوچھتے تھے لیکن ان کی یہ سوچ غلط تھی ۔ اس مکالمے کے بعد جب میں نے پہلے مکا لمے کے وقت اس سے پوچھا تھا کہ کیا ہم افغانستان میں ہیں اس نے مجھے کہا ہاں تم افغانستان میں ہو اس کے بعد اس نے افغانی روٹی کو جو سیاہ چائے کے ساتھ کھا رہا تھا اٹھا کر مجھے بتایا کیا یہ روٹی کہیں اومل سکتی ہے ؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم ؟ اس نے کہا یہ بہت بہتر ین روٹی ہے ، ہمارے وطن میں بھی افغان روٹیاں پکاتے ہیں اور مجھے بہت پسند ہیں ۔ ناشتے کے بعد سب سے پہلے مجھے پوچھ گچھ کیلئے روانہ کیا گیا دوفو جیوں نے مجھے بازؤں سے پکڑا اور دوسری منزل پر لے گئے ، بہت سے کمروں سے گزار کر تقریبا ہال کے وسط میں واقع کمرے میں داخل کیا دو فوجیوں نے میرے بازو پکڑے تھے اور تیسرا فو بھی میرے سامنے تھا . ایک کمرہ جس سے امریکی تفتیش کار آتے جاتے تھے اور اس پر انگریزی زبان میں Blood and Soul ( خون اور روح ) لکھا ہوا تھامیں ابھی تک اس کا مقصدنہیں سمجھ سکا البتہ اتنا جانتا تھا کہ یہ کمرا تفتیش کاروں کا ہے اورقیدیوں کی ساری فائلیں اسی کمرے میں ہیں قیدیوں کے اجتماعی خانوں میں ایک خانے کے اوپر پنٹاگون ، دوسرے خانے پر کینیا وتنزانیہ اور تیسرے خانے پر it will help 11 september یعنی یہ گیارہ ستمبر کے حملے کے حالات کے ساتھ معاونت کرے گی لکھا ہواتھا ، بہر حال مجھے خون اور روح کے قریب واقع کمرے میں داخل کیا گیا وہاں دو افراد میزاور کرسی درست کرنے میں مصروف تھے ۔ یہ یادر ہے کہ اس وقت تک افغانستان میں امریکیوں کو تین ماہ ہو چکے تھے اور انہوں نے ابھی تک اپنا نظام سیٹ نہیں کیا تھا ، لہذا جس کمرے میں مجھ سے پوچھ گچھ ہورہی تھی وہ نہایت خستہ حالت میں تھا ، روسیوں کے بعد اسے رنگ وروغن نہیں دیا گیا تھا ، پچھلی کھڑکیاں کھلی تھیں چار یکار کی پہاڑ کی چوٹیوں پر برف دور سے نظر آرہی تھی ، سائنگ سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا بھی ہمارے چہروں پر لگ رہی تھی ، بہت زیادہ سردی تھی اور میں سردی سے بہت تنگ تھا تفتیش کار نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں بیٹھے گیا شخصی معلومات تعلیم سکونت اور پیشے کے بارے میں پوچھنے کے بعد سب سے پہلے یہ سوال کیا : جب پشاور کے ہوائی اڈے میں آئی ایس آئی کے اہلکار تمہیں ہمارے حوالے کررہے تھے اس وقت پاکستانی اہلکار نے تمہیں کیا کہا اور جواب میں تم نے اسے کیا کہا ؟ میں سمجھ گیا کہ ہمارے اور آئی ایس آئی کے

در میان جو گفتگو ہوئی تھی اس نے سن لیا ہے ۔ پشاور ائیر پورٹ میں آئی ایس آئی کے اہلکار کی آخری بات جو میرے دل و دماغ پر بہت بری لگی تھی اور تمام عمر اسے بھول نہیں سکونگا اور دل چاہتا ہے کہ اس شخص کو کہیں ڈھونڈ کر گریبان سے پکڑ لوں اور اس سے پوچھ لوں کہ تم نے یہ جملہ کس مذاق اور تمسخر اڑانے کی خاطر بولا تھا ؟ اس نے مجھے امریکیوں کے حوالے کرتے وقت یہ جملہ کہا تھا کہ چلو اللہ تمہارے ساتھ ہے ) میں نے جواب میں کہا کیا آپ بھی اللہ پر یقین رکھتے ہیں ، اللہ یقینا میرے ساتھ ہیں لیکن تم یاد رکھو کہ بہت جلد اللہ تم کو ہمارے سامنے ذلیل کر دیےگا جب میں نے یہ بات امریکی تفتیش کار کو بتائی تو اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا یہ تو تمہارے اپنے مسلمان ہی تو ہیں مجھ سے پہل تفتیش کرنے والے امریکی کا نام Antonio انتونیو تھا ۔ اس نے کئی بار مجھ سے پوچھ گچھ کی اور ہماری زندگی کی کہانی سن لی ۔ اس کے زیادہ تر سوالات القاعدہ اور طالبان تحریک کے بارے میں تھے لیکن ہمارے پاس ان کے بارے میں قطعا معلو مات نہیں تھیں وہ ہماری اس بات پر شک کرتا تھا کہ گویا ہم آئی ایس آئی کے ایجنٹ مولوی کبیر کے ہاتھوں اپنے صوبہ نگر ہار میں نہیں رہ سکتے تھے میرے ساتھ ابتدائی پوچھ گچھ کے وقت ایک چھوٹی داڑھی والا سفید ریش تفتیش کاربھی میرے پیچھے کھڑا تھا ۔ اور کبھار وہ بھی مجھ سے سوال کرتا تھا ۔ بعد میں کئی بار مجھ سے تفتیش کیلئے آیا لیکن ایک بار اپنے ساتھ ایک اور عمر رسیدہ تفتیشی افسر کوبھی لایا ، اس نے کہا کہ میں ویتنام کی جنگ میں بھی شریک رہا ہوں اور کافی تجربہ رکھتا ہوں . وہ مجھے گفتگو کرتے وقت اس کی طرف دیکھنے کا حکم کر دیتا تھا ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ عربی میں ایک ضرب المثل ہے کہ اگر پانی سے بھرا ہوا جام سر پر کافی دیر کیلئے رکھا جائے تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پانی ضرور سر پر گر جائیگا مطلب یہ کہ جو معلومات میرے پاس ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ میری زبان سے ضرور نکلیں گی اسے عربی زبان آتی تھی اور عربی میں بہت اچھی گفتگو کر سکتا تھا مگر وہ ہر چیز کو بلا وجہ شک کی نظر سے دیکھتا تھا ۔ ELA ایا ئی نامی شخص نے عربی زبان میں مسلم دوست کی ترجمانی کی تھی وہ مجھے ملا اور مجھے بتایا تفتیش بہت اچھی جارہی ہے ، اس نے مسلم دوست کو بتایاتھا کہ وہ عرب عیسائی ہے ، امریکی فوج میں کئی سالوں سے کام کر رہا ہے مگر عیسائی ہونے کے باوجود عربیت کی وجہ سے امریکی اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہے ہیں اور شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں بگرام جیل میں 9 بار مجھ سے پوچھ گچھ ہوئی آخری
بار میر تفتیش کار Antanio نے بتایا : ابھی یہاں ایک آدمی آئے گا جو آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ۔ اگر تم نے انہیں معلومات فراہم نہ کی اور جھوٹ سے کام لیا تو وہ آپ کے بارے میں منفی رائے دے گا اور میرا اس پر کسی قسم کا اختیارنہیں چلتا ، میرے ساتھ تفتیش کی ہی ایک چال تھی میں نے اسے بتادیا میرے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں میں نے اپنی زندگی کی پوری کہانی آپ کو سنائی ہے ۔ اس کے علاوہ مجھ سے اور کیا چاہتے ہو اگر کوئی میرے بارے میں معلومات رکھتا ہے اسے سامنے لاؤ میں کسی سے ڈرتا نہیں ایک لمحہ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک تندرست جوان آیا جس نے چھوٹی ڈاڑھی بھی رکھی ہوئی تھی اس سے بالوں کا رنگ بھی عجیب تھا یعنی بھورے رنگ کا تھا اور ہلکے سرخ بال بھی نظر آرہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ معنوی بال سر پر لگائے ہیں : آنکھیں سبز تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویالینز لگارکھی ہیں اس کی جسمانی ساخت سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ورزش کرتا رہتا ہے اس نے بھی سادہ لباس پہن رکھا تھا ، یہ آدمی میرے بالکل سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور تفتیش کار Antanio میرے بائیں جانب بیٹھ گیا دومسلح فوجی بھی کھڑے ہو گئے ۔ انتونیو مجھ سے میرے کاروبار کے بارے میں پوچھا کرتارہا اور بالآخر اصل موضوع کی طرف آیا ۔ اس نے کہا یہ دی آپ کے بارے میں جانتا ہے کہ تم ’ ’ الوفا “ نامی فلاحی ادارے کے ساتھ کام کرتے ہو میں نے یہ نام پہلی بار سنا اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا میں نے کہا میں اس ادارے کو نہیں جانتا ، انہوں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ اس ادارے کو نہیں جانتے ؟ میں نے اس لئے کہ شرمندہ نہ ہو جاؤں زبان پر زور ڈالا اور بہت کوشش کی کہ اگر وفا ‘ ‘ کا نام میں نے سن لیا ہو انہیں بتادوں بہت غور و حوض کے بعد رائیٹرز یونین آف فری افغانستان ( wufa ) کا نام میرے ذہن میں آیا جو وفا کے نام سے کام کرتا تھا ایک وقت میرا بھی اس تنظیم سے رابطہ تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ وفا کے نام سے افغانی رائیٹرز کی ایک یونین کو جانتا ہوں اس نے کہا نہیں بلکہ یہ ایک فلاحی ادارہ ہے جو افغانستان میں کام کر رہا ہے ۔ پھر ہمیں کیوبا میں پت چلا کہ " الوفا “ کے نام سے عربوں کا ایک فلاحی اداره افغانستان میں کام کرتا تھا اس ادارے کے کارکنوں کو بھی قندھار اور کیوبا میں دیکھا ۔ یہ آخری پو چھ گچھ تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہی ، اس میں عجیب بات تھی کہ اس پورے گھنٹے میں وہ شخص مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا اور ایک لمحے کیلئے بھی اس کی آنکھوں نے حرکت نہ کی اس کے بدن کا کوئی حصہ بھی حرکت نہیں کر رہا تھا ، ایسا بیٹھا تھا کہ گویا اس میں روح نہیں بلکہ خالی فریم یا بت کی مانند اس کی تفتیش

کے دوران ہم نے بہت سے افراد تفتیش کاروں کے قریب بیٹھے ہوئے دیکھ لیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ یہ نفسیاتی ماہرین ہیں ، وہ خاموش بیٹھ کر صرف قیدی کی باتوں کو سنتے تھے ۔ بعد میں بعض تعلیم یافتہ لوگوں نے بتایا کہ یہ افراد Mind Science مینی علم النفس کے اس شعبے کے ماہرین ہیں جو دماغ کی فکر پڑھنے mind reading اور چہرے کی نشانیوں کو پڑھتے ہیں Face reading کے ذریعے سچ اور جھوٹ معلوم کرتے ہیں ، علم النفس کے اس شعبے کو ٹیلی پیتھی Telepathy اور مسمریزم masmarism بھی کہا جاتا ہے ، جو ارتکاز کے زور سے معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ جامد اورسخت چیزوں کو بھی توڑ ڈالتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ سو فیصد کامیاب ہوں کیوں کہ ہمیں سچ بولنے کے باوجود کیوبا بھیجا گیا ۔ ایک بار میرے تفتیش کارانتونیو کو غصہ آیا اور میری فائل کو زور سے ٹیبل پر مار کر کہا تمہیں اپنے آپ کے بارے میں اتنی معلومات نہیں جتنی میرے پاس ہے ۔ میں نے اسے کہا جو کچھ آپ مجھ سے اگلوانا چاہتے ہیں وہ میرے پاس نہیں ، آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم میرے زندگی کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہو ؟ مجھے اس کی اس بات سے ہنسی بھی آئی اور مسکرایا میری مسکراہٹ اس پر بہت بری تھی اور اس کے چہرے میں حقیقی قہر چھلکنے لگا ، اس نے چلا کر پانچ چھے اور مسلح فوجیوں کو بھی طلب کیا اور مجھے دھمکی آمیز ، لہجے میں کہا اگر تم نے سچ نہ کہا تو دیکھ لینا کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں میں نے کہا : آپ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن میرے پاس اس کے علاوہ اور کچھ کہنے کیلئے نہیں میری اس بات پر تفتیش کار ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کمرے سے اضافی فوجیوں سمیت باہر نکلے اور میرے کمرے میں صرف دو مسلح گارڈ رہ گئے ۔ کچھ دیر بعد ایک مسلح فوجی آیا اور دونوں فوجیوں کو کہہ دیا کہ اسے اپنی جگہ پر لے جاؤ . یہ بات ذہن میں رہے کے ہم پشاور شہر کے قریب اپنے گھر سے پکڑے گئے تھے اور ہمارا معاملہ بالکل صاف ستھرا تھا تفتیش کے دوران ہمیں اندازہ ہو جاتا تھا کہ امریکی کونسا سوال اپنی طرف سے اور کونسا سوال ملا جمیل الرحمن اخونزادہ کے بھتیجوں کی شیطانیت کے نتیجے میں کر رہے ہیں ، وہ بھی اس حقیقت پر پہنچ گئے تھے کہ اصل مسئلہ کیا ہے لیکن آئی ایس آئی اور ملا جمیل الرحمان اخونزادہ کے بھتیجوں کی شیطانیت کی وجہ سے ہمیں گوانتانامو بھیجا گیا لیکن الحمد للہ ہماری صداقت اور بے گناہی کے نتیجے میں امریکیوں کی تمام کوششوں اور چالوں کے با وجود کا میابی حاصل نہیں ہوئی اور ہمیں رہائی ملی منتقلی کے وقت دوسرے قیدیوں کی طرح مار پیٹ ، ہاتھ پاؤں میں ہتھکڑیا ں اور زنجیر یں ہمارا بھی نصیب تھا ، اس طرح قیدیوں کو جو زہنی اور

روحانی کوفت ہوتی ہے ہمیں بھی اس کوفت اور پریشانی سے گزرنا پڑا قندھار میں ہمیں جو جسمانی اور نفسیاتی تشدد سے دوچار ہونا پڑا وہ الگ بحث ہے ، ہم نے با گرام میں صرف چودہ دن گذارے لہذا ہمیں بگرام میں قیدیوں کے ساتھ ظلم اور بربریت کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ ہو ئیں پھر بھی ہم نے بگرام میں امریکی فوجیوں کے جو مظالم دیکھے ہیں و و درج ذیل ہیں ۔ قیدیوں کو نیند سے محروم رکھنے کیلئے امریکی فوجی فرش پر زور زور سے ڈنڈے مارتے تھے ، اسی طرح خالی پلاسٹک بوتلوں کو بھی ڈنڈوں سے مار کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پھنکتے تھے اور موسیقی کی آواز کو تیز کرتے تھے تا کہ قیدی آرام سے سو نہ سکے وہ قیدیوں کی دل آزاری کے لئے ہر وقت قرآن کریم کو دوسری چھت سے نیچے گرادیتے ، اس کے علاوہ تلاشی کے دوران قران کریم کو زور سے زمین پردے مارتے اور قیدیوں کو گھٹنوں پر بٹھادیتے حاجی ولی محمد صراف پر شدید سردی میں ٹھنڈا پانی ڈالتے تھے اور اسے سونے نہیں دیتے لیکن ہمارے بعد جو قیدی بگرام سے گوانتانامو منتقل ہوئے انہوں نے قندھار اور بگرام میں جسمانی تشدد کے بہت سے  قصے بیان کئے جس کے نتیجے میں 34 قیدی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ہمیں گوانتانامو جیل منتقل کرنے کے بعد قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھنے کیلئے الگ الگ چھوٹے چھوٹے سیل بھی بنائے گئے ہیں اوربعض دیگرنئے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں جس وقت ہم باگرام میں تھے بہت شدید سردی کا موسم تھا اور کمروں کو گرم کرنے کیلئے کوئی بندوبست نہ تھا مگر بعد میں پورے ہال کو گرم کیا جاتا تھا ۔ مجھے اپنی پوری زندگی میں اتنی سردی نہیں لگی تھی جتنی بگرام جیل میں لگی . ہال کی چھت روسی قبضے کے دوران جنگ میں لگے ہوئے میزائلوں سے جگہ جگہ ٹوٹ چکی تھی جس کے باعث بارش بھی اندر آئی تھی مگر بعد میں چھت کی مرمت کی گئی جب میں گوانتانامو سے رہا ہو کر 20اپریل 2004 کو باگرام ائیر پورٹ پر اتر اتو میں نے دیکھا کہ باگرام سرے سے نیا بنایا گیا تھا اور جو با گرام ہم چھوڑ کر گوانتانامو بے کو رخصت ہوئے تھے وہ اب بالکل مختلف تھا باگرام میں امریکیوں کی دو باتوں نے مجھے حیران کر دیا ایک یہ کہ میر ےتفتیش کار انتونیو نے ننگر ہار میں ہمارے گاؤں اور پشاور سے وہاں آنے جانے کے بارے میں پوچھا میں نے اسے بتایا کی غمی خوشی اور فصلوں کی حاصلات جمع کرنے کیلئے جاتا رہا ہوں تفتیش کار نے مجھ سے پوچھا کیا پشاور سے ہلمند تک آنا جانا مشکل کام نہیں ؟ میں نے کہا ہم بلمند کیوں جائیں ؟ اس نے کہا کیا ہلمند ننگر ہار میں نہیں ؟ اس پر میں بڑا حیران ہو گیا اور کہا کہ اگرتمہاری
معلومات کا یہی حال ہواتو تم لوگوں کا بیڑا غرق کردو گے ۔ انہوں نے کہا میں نقشے سے مدولوں گا ۔ بعد میں مجھے بتایا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے ۔ دوم یہ کہ جب تم بگرام میں تھے ریڈ کراس کے اہلکار وفد وہاں آئے دونوں بارعقوبت خانے کے اندرآنے سے پہلے مجھے مسلم ووست صاحب اور حاجی و لی محمد کو تفتیشی کمرے میں لے گئے وہاں ہم پر مسلح پہرے دار کھڑے کئے اور کمرے کے دروازے کو بند کردیا تین چار گھنٹے بعدیعنی جب ریڈ کراس کے اہلکار چلے جاتے تو ہمیں دو بارہ اجتماعی قید خانے میں لے آتے ہمیں پہلی بار اس وقت پتہ چلا کہ نیچے کے قیدیوں کو ریڈ کراس نے کارڈز دیے تھے اور کلائیوں پر سیریل نمبر باندھے تھے ۔ بعد میں جب ریڈ کراس کے اہلکار وں سے قندھار میں ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں پتہ چلا تھا کہ بعض قیدیوں کو ہم سے خفیہ رکھا جارہا ہے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے امریکی اہلکاروں کا مقصد یہ تھا کا اگر تم ان کی نظروں میں اہم لوگ ثابت ہوئے تو یہ بات ریڈ کراس کے ریکارڈ میں نہ آئیں اور ان ہی لوگوں کے ساتھ گم ہو جائیں جو ابھی تک گم ہیں اور امریکی خفیہ جیلوں میں بند ہیں ، 
جن میں القاعدہ کے سرکردہ افراد سر فہرست ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں امریکی اہلکار کچھ بولنا نہیں چاہتے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں نہ عام افراد ان کے بارے میں بول سکتے ہیں مگر حکومتی پالیسی یہی ہے کہ ان کے بارے میں خاموش رہا جائے ۔ یہ وہ افراد ہیں جن کو پکڑنے سے پہلے خفیہ اداروں نے موت یا عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔ البتہ و چاہتے ہیں کہ یہ افراد لوگوں کی نظروں میں نہ آئیں اور ہمیشہ کیلئے مٹی کے نیچے دب جائیں ۔ یہاں پر یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ریڈ کراس کا نمبر لگنے کے بعد قیدی کو جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدی کا درجہ اور قوانین کا نفاذ لاگو ہو جاتا ہے لیکن امریکیوں نے تمام حقوق کو پامال کر رکھا ہے ۔ کیو بامیں ہمارے ساتھ مراکش کا ایک قیدی تھا جس کا نام ابو احمد المغر بی تھا وہ ویزہ لے کر بزنس ٹور پر پاکستان گیا ہوا تھا ۔ یہ دیگر چار افراد کے ساتھ پکڑا گیا تھا اس نے کہا کہ جب ہمیں اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر لایا گیا تا کہ ہمیں امریکیوں کے حوالے کیا جائے تو عشاء کی نماز کا وقت تھا ہمارے ہاتھ پاؤں باندھے گئے تھے ، آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی تھی ہم نے آئی ایس آئی کے اہلکاروں سے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی لیکن انہوں نے اجازت نہ دی . میں نے اپنے ایک ساتھی کو کہا کہ آذان دو ، اس نے بلند آواز سے آذان دی میں نے امامت کے فرائض انجام دیئے اور دوسرے میرے پیچھے کھڑے ہوئے اور نمازعشا با جماعت ادا کی ۔ 
آئی ایس آئی کے اہل کاروں نے ہمیں قبلے کی سمت بھی نہ بتائی ایک بار تو انہوں نے ہمیں کہا نماز مت پڑھو طیارے کی پرواز کا وقت ہے ، وہ امریکی طیارے کے منتظر تھے ابو احمد نے کہا کہ ہم نے ان کی باتوں کو اہمیت نہ دی اور نماز کیلئے کھڑے ہوئے میں نے سورہ الفاتحہ پڑھنے کے بعد منافقین کے بارے میں قران کریم کی آیتیں زور زور سے تلاوت کی ، ابو احمد نے کہا یہ عجیب منظر تھا آئی ایس آئی کے منافقین امریکی طیارے کی آمد کے منتظر کھڑے تھے اور ہم ہتھکڑیوں کے ساتھ بند آنکھوں سے نماز پڑھنے کا عجیب مزے لے رہے تھے کچھ دیر بعد طیارہ آیا طیارے میں لیجانے سے پہلے امریکیوں نے آئی ایس آئی کے اہل کاروں کو 25 ہزار ڈالر انعام کے طور پر دیئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈالرز کی گنتی ہمارے سامنے ہوئی ہم نے سنا کہ امریکی نے اپنا آخری جملہ یوں بیان کیا ۔ Thisis twenty five thousand US dollars پچیس ہزار امریکی ڈالرز ہیں ۔ ابواحمد نے بتایا کہ ہمیں بھی ریڈ کراس کے اہلکاروں سے چھپایا تھا ایک بار ریڈ کراس کا عملہ آیا ہمارے کمرے کے دروازے کے سامنے جس کو باہر کی طرف سے تالہ لگایا گیا تھا اور اس کے سامنے مسلح پہرے دار کھڑے تھے ۔
 ریڈ کراس کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کیا یہ دروازہ کسی خاص مقصد کیلئے بند کیا گیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں . ابو احمد المغربي نے بتایا کہ جب میں بگرام ائیر پورٹ لایا گیا تو ہمارے ایک ساتھی کو منہ پرلات مار کر بری طرح زخمی کر دیا ۔ لات مارتے وقت ایک امریکی فوجی نے دوسرے فو جی سے کہا : دیکھوچھوٹے عرب کو سر پر لات مارنا کتنا اچھا لگتا ہے ؟ مجھ سے آخری تفتیش کے بعد ہم تین دن اور بھی بگرام میں تھے ۔ با گرام میں مسلم دوست صاحب سے بھی مختلف قسم کی تفتیش اور پوچھ گچھ کی گئی اسے مجھ سے دور کسی اور کمرے میں منتقل کیا گیا ۔
 اس کی ترجمانی مختلف افراد نے کی ان میں سے ایک طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے سابق اہلکار محمد قاسم علی تھا وہ جامعہ ازہر سے پڑھا تھا اور اسے کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ ایک دن مجھے بھی اس کے کمرے میں لے جایا گیا ۔ وہاں علی صاحب اور ایک عرب باشند ہ جس کا نام ایمن تھا بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہیٹرجل رہا تھا ۔ وہاں بیٹھ کر میرے کان بھی گرم ہو گئے علی صاحب نے مجھے بتایا کیا تم بھی اس مولوی صاحب کے بھائی ہو جو مدارس کا ناظم ہے ، میں نے کہا کون سا مولوی صاحب ؟ اس نے مسلم دوست صاحب کا نام لیا میں نے اثبات میں جواب دیا ، اس نے مجھ سے پوچھا کیا چائے پینا پسند کرو گے ؟ میں نے ہاں کردی جب وہ چائےبنارہا تھا تو اسی وقت ایک فوجی کمرے میں داخل ہوا مجھے بازوؤں سے پکڑ کر نیچے اپنے کمرے میں لے گیا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مجھے وہاں صرف اس لئے لے جایا گیا تھا کہ معلوم کرسکیں کے میں اہم افراد میں سے نہیں ہوں حلیمی صاحب نے مسلم دوست کے علاوہ بعض دوسرے قید یوں کی بھی ترجمانی کی ہے اور بکری اور باز کا معاملہ بھی ان کے ذریعہ حل ہوا تھا ۔ اب میں قلم مسلم ووست کے حوالے کرتا ہوں ۔ 
قندهار کی طرف سفر 
عرب قیدیوں کو ہم سے ایک دن قبل جیل کے گھروں سے نکالا گیا اور دہلیز میں ایک قطار میں گھٹنوں کے بل بٹھایا گیا سروں پرٹوپیاں پہنائی گئی ہاتھوں کو پیچھے کی طرف باندھا گیا اور پاؤں میں بیڑیاں پہنائی گئی کافی انتظار کے بعد انہیں کہیں لے جایا گیا جس کے بارے میں ہمیں تیره دن بعد پتہ چلا 21/02/2002 تاریخ کو ہمیں بھی دیگر ۱۳ افراد کے ہمرا اس طرح کمروں سے نکال کر دہلیز میں قطار میں کھڑا کر کے باندھا گیا ۔ بیڑیاں پہنائی گئی اور سروں کو پلاسٹک کی تھیلیوں سے ڈھانپا گیا اور آنکھوں و کانوں کو بھی باندھا گیا ۔ اس حالت میں کئی گھنٹوں کے بعد ایک خاتون فوجی کے کہنے پر واپس کمروں میں بھیجا گیا آپس میں باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج موسم طیاروں کی پرواز کے لئے مناسب نہیں اگلے روز دوبارہ یہی عمل دہرایا گیا اور بندھی ہوئی حالت میں طیارے میں سوار کرایا گیا اور طیارہ فضا میں اڑنے لگا بعض قیدیوں کا خیال تھا کہ ہمیں گوانتانامولے جایا جارہا ہے لیکن میرا دل کہہ رہا تھا کہ ہمیں قندھار منتقل کیا جارہا ہے کچھ دیر بعد جہاز قندھار کے ہوائی اڈے پر اترا ۔ جہاز سے ہمیں بہت بے در دی اور سختی سے اتارا اور ایک ریت کے ڈھیر پر منہ کے بل گرایا ۔ بہت سخت سردی تھی اور یخ بستہ ہوائیں بھی چل رہی تھیں ہم دو تین گھنٹے تک ریت پر پڑے رہے اور سردی سے کانپ رہے تھے ۔ پھر امریکی فوجیوں نے ایک ایک قیدی کو بازؤں سے پکڑ کر اٹھایا اور ٹینٹ کے نیچے بہت بے دردی سے پٹخ دیا ۔ باگرام میں جو لباس ہمیں پہنا یاگیا تھا اسے قینچی سے کاٹ کر ہمیں بالکل بر ہنہ کردیا گیا ایک خاتون ڈاکٹر آئی اور ہمارا طبی معائنہ کیا اور مخصوص جگہوں پر بھی ہاتھ پھیرایا ۔ برہنہ حالت میں ہمیں یہاں سے دوسری جگہ لے جایا گیا داڑھی ، سر اور مونچھوں کے بال منڈ وائے گئے ہمارے پاؤں اور ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے ، ہمارے لئے یہ کام سب سے زیادہ پریشان کن اور تکلیف دہ تھا اگر داڑھی کے ہر بال کے عوض میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تو یہ ہمارے لئے آسان تھا ۔ انہوں نے یہ
کام بھی بہت وحشت کے ساتھ کیا سر کے بالوں اور داڑھی کو کہیں چھوٹا اور کہیں بڑا چھوڑ دیا تاکہ ہم بدنما اور بدشکل نظر آ ئیں وہ یہ کا قصدأ وعمدا کرتے تھے تا کہ ہم کودلی کوفت پہنچائی جائے ، انہیں پتہ تھا کہ ان کا یہ کام ہمارے دین اسلام ، غیرت و حمیت اور کلچر پر استہزاء اور مذاق ہے ، انسانیت کے خلاف ہے حتی کہ حیوان کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرنا ناجائز ہیں پھراسی بر ہنہ حالت میں ہماری تصویر کھینچی گئی اس کے بعد ایک تفتیش کار آیا اور ہم سے سوالات کرنے لگا ۔ سوال : ایک بے غیرت فارسی بان نے مجھے پشتو زبان میں کہا کیا تم پھر بھی افغانستان میں رہو گے ؟ 
جواب :  میں نے اسے کہا ہاں افغانستان میرے آباؤ اجداد کا وطن ہے ۔ تمہارے باپ دادا اور تمہارے آقا کی شخصی ملکیت نہیں کہ تم مجھے یہاں رہنے سے منع کرو ۔ 
سوال : اس پر ایک امریکی نے مجھے کہا تم کب سرنڈر ہوئے ہو ؟ 
جواب : میں نے کہا میں سرنڈر نہیں ہوا بلکہ مجھے پشاور میں اپنے گھر سے پاکستان کی آئی ایس آئی والوں نے پکڑ کر آپ کے ہاتھوں فروخت کیا ہے ۔ اس نے میرے نام ولدیت اور سکونت کے بارے میں پوچھا ، میں نے ان سب سوالوں کا جواب دیا ۔
 سوال : اس کے بعد اس نے پوچھا طالبان حکومت میں تمہاری کیا ذمہ داری تھی ؟
 جواب : میں نے کہا : طالبان حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام نہیں دی ترجمان نے امریکی تفتیش کار کو میرا جواب ترجمہ کرنے کی بجائے قہر آمیز لہجے میں مجھے کہا سچ سچ بتاؤ میں نے اسے کہا میں سچ بول رہا ہوں تمہاری طرح میں نے جھوٹ اور دروغ گوئی کا سبق نہیں پڑھا ہے ۔ پھر دو امریکی فوجی آگئے اور میرے بائیں بغل اور دائیں بغل کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کر دونوں بازوؤں کو پیچھے کی طرف مروڑ کر پشت پر رکھا ہے ، اور سر پر ہاتھ رکھ کر زور سے دبایا چونکہ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں اس لئے ہم بہت مشکل سے چلتے تھے راستے میں کیچڑ تھا تو وہ خشک جگہ پر چلتے اور ہمیں کیچڑ میں لیجاتے تھے چند منٹ پر پیچ او مشکل راستہ طے کرنے کے بعد ایک جگہ پر منہ کے بل ہمیں گرادیا گیا میرے ہاتھوں اور پاؤں سے ہتھکڑی اور بیڑی کھول دی گئی ، سر سے سیاہ ٹوپی ہٹالی گئی . مجھے کہا کسی قسم کی حرکت نہ کرنا اس آواز کے بعد وہ پیچھے کی طرف دوڑ پڑے اور خاردار گیٹ کو پیچھے کی طرف سےبند کر دیا ۔ 
پھر باہر سے مجھے آواز دی کہ اٹھو ، میں اٹھ گیا دو عددکمبل باہر کی طرف سے پھینک دیئے گئے کویت کی روضتین کمپنی کی پانی کی ایک بوتل بھی اندر پھینک دی میں نے جب ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ہر طرف کانٹا تارکی رکاوٹیں نظر آ ئیں کانٹا تار سے قیدیوں کے رہنے کیلئے خیمے بنائے گئے تھے جن پرترپال ڈالے گئے تھےمگر یہ تر پال نیچے تک نہیں پہونچ رہے تھے اور یوں اردگرد کے علاقے نظر آتے تھے جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو پتا چلا کہ کا نٹا تار سے بنے یہ خیمے کافی تعداد میں بنائے گئے ہیں میرے قریب خیمہ میں چند قید ی سوئے پڑے تھے میرے بھائی استاد بدر کو مجھ سے دور دوسرے خیمے میں ڈالا گیا تھا اور حاجی ولی محمد کو دائیں جانب واقع سامنے خیمے میں دو اور قیدیوں کے ساتھ ڈالا گیا تھا قندھار میں یہ امریکیوں کا عارضی قید خانہ تھا ، اس کے ارگرد مٹی سے بنی ہوئی د یوا رتھی جس کی اونچائی تقریبا دو میٹر کے برابر تھی اس دیوار کے قریب اور ہر خیمے کے ارد گر دکانٹا تار کی رکاوٹیں بنائی گئی تھیں کانٹاتاروں سے بنائی گئی یہ رکاوٹیں عام تاروں سے نہیں بلکہ امریکہ کے خصوصی کا نٹا تاروں سے بنائی گئی تھیں جن میں تیز دھاروالے چھوٹے چھوٹے چاقو اور کانٹے لگے ہوئے تھے ۔ ہوائی اڈے میں طیاروں کی آمد ورفت دور سے نظر آتی تھی جن میں زیادہ تر گن شپ ہیلی کاپٹر کے اڑنے اور لینڈ کرتے وقت شدید گردو غبار ہمارے اوپر پڑتا تھا کبھی کبھار فوجی اپنی مشقیں بھی کرتے تھے جیسا کہ فضامیں کھڑا کر نارسی کے ذریعہ بڑے بڑے ڈرموں میں نیچے اترنا وغیرہ وغیرہ کیمپ کے اردگردلکڑیوں سے بنے ہوئے اونچے اونچے مورچے تھے جن میں مسلح فوجی دور بینوں کے ساتھ پہرہ دے رہے تھے ۔ مجھے اس خیمہ نما کمرے میں رات کے آخری حصے میں ڈال دیا گیا تھا میں نماز فجر کے انتظار میں بیٹھ گیا فجر طلوع ہونے کے بعد سب سے پہلے نماز پڑھی اور ذکر الہی میں مشغول ہو گیا ۔ 
جب روشنی پھیل گئی تو میرے قریب پڑے ہوئے قیدیوں کو دیکھ کر انہیں پہچان لیا ، یہ وہ عرب قیدی تھے جو با گرام میں میرے ساتھ تھے ۔ اگر چہ قیدیوں کو آپس میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی اور مسلح پہرہ دار کانٹاتارخیموں کے درمیان گشت کرتے رہتے تھے مگر موقع ملتے ہی میں نے ایک قیدی سے پوچھا کیا یہ قندھار ہے ؟ اس نے کہا ہاں ، قندھار قندھار میں تحقیق اور گھٹیا الزامات جیسا کہ پہلے بتا چکے ہیں کہ ہم نے پاکستانی آئی ایس آئی کے خصوصی عقوبت خانوں کے تنگ وتار یک کمروں میں تین مہینے اس حال میں گزار دیئے تھے کہ ہمیں دن رات کاپتہ نہیں چلتا تھا اور سورج کی روشنی کہیں سے بھی نظر نہیں آتی تھی اس کے بعد باگرام کے امریکی عقوبت خانے میں بھی پندرہ دن اسی حالت میں گزارے تھے لیکن جب قندھار پہونچے تو سورج طلوع ہونے کے بعد سورج نظر آنے لگا ہم نے پورادن گرم دھوپ میں گذارا سورج نے بھی ہمارے لئے اپنا آغوش کھول رکھا تھا کیوں کہ آسمان پر کہیں بھی بادل موجود نہ تھا ، پہلے دن مجھے تفتیش اور پوچھ گچھ کیلئے پیش کیا گیا ۔ جب میرے سر سے سیاہ ٹو ٹی ہٹائی گئی تو میں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بالوں اور سیاہ آنکھوں والا جوان تفتیش کار میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا . صاف معلوم ہورہا تھا کہ یہ امریکی باشندے ہیں ، اسے فارسی زبان بھی آتی تھی اس نے کہا کہ میں فرانس کا باشندہ ہوں اور فارسی بھی جانتا ہوں اس نے پرانے سوالات کے علا وہ مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ تمہارا وہ بھائی کہاں ہے جو تمہارے ساتھ پکڑا گیا تھا ؟ میں نے کہا یہی سوال تو میں تم سے کر رہا ہوں کہ میرا بھائی کہا ں ہے ؟ کیوں کہ وہ تو تمہارے پاس ہے ، اس نے کہا ہاں وہ ہمارے قبضے میں ہے اور یہں موجود ہے ۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ مجھے یقین ہے کہ تم دونوں بھائی سچ بولو گے میں تمہاری ساری فراہم کر دہ معلومات فائل میں لکھ د یتا ہوں اس سے آگے مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوگا ، کیوں کہ فیصلہ دوسروں کے ہاتھوں میں ہے ہمیں بار با تفتیش اور پوچھ گچھ کیلئے پیش کیا جاتا تھا . دو کے علاوہ سارے تفتیشی افسر امریکی تھے ۔ فرانسیسی تفتیش کار کے علاوہ ایک اور تفتیش کار بھی تھا جس کا رنگ گندمی اور ہونٹ بڑے بڑے تھے دیکھنے میں پاکستانی لگتا تھا ، پھر میں نے اسے گوانتانامو میں بھی دیکھا جہاں اس نے میرے ساتھ اردو میں بات بھی کی وہ انتہائی بدسلوک شخص تھا قندھار میں مجھ سے جو سوالات پوچھے گئے اگر پرانے تھے لیکن کچھ نئے سوالات بھی تھے جو درج ذیل ہیں ۔
 سوال کیا تم کسی اور ملک گئے ہو ؟
 جواب ہاں میں پاکستان میں مہاجر ہوں ، سعودی عرب حج کیلئے گیا ہوں ۔ 
سوال کیا تمہارا بھائی استاد بدر امریکہ یا کسی اور ملک جا چکا ہے ؟
 سوال  نہیں 
تم چھپارہے ہو . و ضرور بیرون ملک جاچکا ہے ۔
جواب : تمہارا یہ کہنا صحیح نہیں آخرتمہارے پاس کیا ثبوت ہے ؟
 سوال کیا آپ کے گھر میں ٹیلیفون تھا ؟ ہاں ہم جس گھر میں کرائے پر رہ رہے ہیں وہاں لگا ہوا ہے ۔ 
سوال کیا نمبر ہے
 جواب میں نے ٹیلفون کا نمبر بتایا ۔
 سوال کیا تمہارے پاس موبائل یا سیٹلائٹ فون تھا ؟ جواب نہیں .
 سوال ضرور تھا ۔
 جواب تمہارا یہ کہنا غلط ہے ، اگر میرے پاس ہوتا تو میں ضرور بنادیتا کیوں کہ ٹیلی فون رکھنا کوئی جرم نہیں ۔ اس نے بہت تشدد کیا مجھ پر چیخیں ماری اور کہا جلدی کرو سیٹیلائٹ فون کا نمبر بتاؤ جب مجھے بہت تنگ کیا گیا تو میں نے کہا لکھوتو اس نے قلم اور کاغذ ہاتھ میں پکڑ کر بہت خوشی سے کہا کہ بتاؤ ، میں نے کہا : میرے سٹلائٹ فون کا نمبر ہے زیرو ، زیرو ، زیرو ، ون ، ون ، ون ٹو ٹو ٹو تھر تھری ، تھری ، چار تک پہنچا تو اس نے لکھنا بند کر دیا اور مجھے کہا کہ تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو ؟ میں نے کہا آپ خود اس کے لئے مجبور کر رہے ہیں آپ خود جھوٹ بولتے ہیں اس لئے دوسرے کا سچ بھی تمہیں جھوٹ نظر آتا ہے ۔ میں نے تو تم سے کہا کہ میرے پاس سیٹلائٹ فون نہیں مگر تم نہیں مانتے اور مجھ پر تشدد کرتے ہو تم ضرور نمبر بتاؤ !!! سوال کیا تمہارے بھائی کے پاس سیٹلائٹ یا موبائل فون تھا ؟ جواب اس کے پاس موبائل فون تھا لیکن سیٹلائٹ نہیں تھا ۔ سوال کیوں نہیں اس کے پاس سیٹلائٹ فون لازم تھا لیکن تم ہمیں بتلانے سے انکار کر رہے ہو ۔ جواب میں نے کہا اس کے پاس سیٹلائٹ فون نہیں تھا ۔ سوا ل تم تو اپنے بھائی کا دفاع کرتے ہولیکن ہوسکتا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ بھی چلا گیا ہو اور سیٹلائٹ فون بھی اس کے پاس ہولیکن تمہیں اس کے بارے میں معلومات نہ ہو ۔ مجھے ہر چیز معلوم ہے وہ میرے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہے دونوں ایک ہی گھر میں پلے بڑھے

ہیں نہ وہ امریکہ اور یورپ گیا ہے اور نہ ہی اس کے پاس سیٹلائٹ فون ہے امریکہ اور یورپ جانا اور سیٹلائٹ فون رکھنا کوئی جرم تو نہیں ۔ سوال کیا اورتمہارے بھائی دونوں ایک گھر میں رہتے تھے ؟ جواب ہاں . سوال تمہارے گھر کا نقشہ کیسا تھا تمہارا کمرہ کہاں تھا اور اس کا کمرہ کہاں تھا ؟ اگرچہ میں نقشہ نہیں کھینچ سکتا ہوں لیکن پھر بھی نقشہ کھینچ کراسے بتادیا کہ میرا کمرہ یہاں اور اس کا کر وہاں تھاسوال کیا تمہارے اور تمہارے بھائی کے درمیان کبھی اختلاف پیدا ہو جاتا ہے ؟ 
جواب ہاں. سوال آخر میں کون جیت جاتا ہے ؟ کبھی میں اور کبھی وہ . تفتیش کار بولا میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ ایسا ہوں ۔ ایک سرخ چہرے اور سفید آنکھوں والے تفتیش کار نے یخ بستہ ٹھنڈی ہوا میں مجھے بھی گھٹنوں پر بٹھایا میرے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر زمین پر منہ کے بل گرادیا وہ میری کمر پر کھڑا ہو گیا ۔ کچھ دیر بعد مجھے اٹھا لیا ۔ میرے ہاتھ اور پاؤں باندھے گئے تھے اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھا تا کہ جواب نہ دے سکوں ایک کان میں منہ رکھ کر چیختے چلاتے مجھے انتہائی گندی گالیاں د ستار اور دوسرے کان میں ترجمان اس کی ترجمانی کرتا رہا لیکن ترجمان اس سے بھی زیادہ تیز آواز نکالتا تھا ۔ اور میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں اس کی ہوا خارج نہ ہو جائے وہ یہ اس لئے کر رہا تھا کہ اپنے آپ کو وفادار غلام د کھائیں اور اپنے آقا کو خوش رکھے ۔ زیاده گالیاں دینے کے بعد ایک اور امریکی فوجی کو دوسرے خیمے سے بلایا گیا ۔
 سوال اس نے فوجی کوٹ باہر اتارا اور پھر اندر آیا اور مجھ سے کہا تم جانتے ہو میں کون ہوں ۔ 
جواب نہیں میں تمہیں نہیں جانتا ۔ 
محقق خود جواب دیتے ہوئے کہنے لگا میں ایک امریکی ہوں اور میری بہن گیارہ ستمبر کے واقعہ میں ماری گئی ہے تم لوگوں نے ہمارے ورلڈٹر یڈ سینٹر کو تباہ کردیا ہے ، امریکیوں کو مار ڈالا ہے اسامہ کو پناہ دے رکھی ہے اور غیر ملکیوں کو رکھا ہے میں نے جواب دیا ۔ جن لوگوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ کیا ہے آپ کو معلوم ہے ہم نے تباہ نہیں کیا ہے ، اس سانحہ میں تمہاری بہن ہلاک ہوئی یہ اچھا نہیں ہوا بہتر یہ ہوتا کہ اس میں تم ہلاک ہوجاتے ۔ اچھا ایسا بھی کہتے ہو وہ طیش میں آیا اور غصے سے اس کا سرخ رنگ کالا ہوا ۔ سوال : اس نے مجھے کہا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری گرفتاری کے بعد تمہارے گھر میں کیا ہوا ہے ؟ وہ چاہتا تھا کے میرے دل میں پریشانی پیدا کرے ۔ نہیں ، مجھے نہیں معلوم ۔ پتہ چل جائے گا تمہارے گھر والوں کو کون کھانا دے گا ؟ جواب پہلے بھی اللہ تعالی دیتاتھا اب بھی وہی دے گا اس نے تمسخرانہ انداز میں اپنا سر ہلایا اور کہنے لگا : اب تمہارے بچے بھوکوں مریں گے اور تم ہمارے جیل میں سڑو گے ۔ تفتیش کار نے مجھے کہا کہ تمہارے گھر میں اسلحہ تھالیکن تم انکاری ہو
 جواب : نہیں یہ جھوٹ ہے ہمارے گھر میں دو پستولوں کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ سوال تمہارے بھائی بدر نے اعتراف کیا ہے اور سب کچھ ہمیں بتادیا ہے لیکن تم انکار کر رہے ہو ، وہ تقریبا رہا ہو کر اپنے گھر چلا جائے گا اور تم کو بہت دور گوانتانامو میں قید کر دیا جائے گا ، وہاں ایسے لوگوں کے ساتھ تمہارا واسطہ پڑے گا جن کی زبان نہیں آتی وہ تمہارے ساتھ بہت سختی کریں گے اورتم با لآخر اعتراف کرنے پرمجبور ہو جاؤ گے ۔ 
جواب یہ بات جھوٹ ہے ، ہمارے گھر میں کوئی ہتھیارنہ تھا اور میرا بھائی جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ سوال اس نے مجھ پر آنکھیں نکالی اور کہنے لگا کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟ جواب
 ہاں تم جھوٹ بولتے ہو اس نے ایسا کوئی اعتراف نہیں کیا ہے ۔ محقق کرسی سے اٹھ کر غصے کی حالت میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور آئی ایس آئی کی کٹھ پتلیوں جماعة الدعوة کی طرف سے جھوٹ پر مبنی رپوٹ اٹھا کر کہنے لگا دیکھو ہمارے پاس لسٹ اور گواہ موجود ہیں کہ تمہارے گھر میں ہتھیار موجود تھے اورتم انکاری ہو .
جواب  اگر ہمارے گھر میں ہتھیار تھا تو تمہارے کٹھپتلیوں آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے تلاشی کے وقت کیوں نہیں نکالا ؟ انہوں نے تو ہمارے سارے گھر کی تلاشی لی اور ایک انچ بھی تلاشی کے بغیر نہیں چھوڑی ۔ تمہارے گھر میں اس لسٹ کے مطابق سارے ہتھیار موجود تھے لیکن تم جھوٹ بول رہے ہو ۔
 مسلم دوست اس لسٹ میں کو ن سے ہتھیار ہیں ؟
محقق راکٹ لانچر ، پاوان ، توپ ، پکا ر یکا و کیک ، وصقلیہ ، بارودی سرنگ دستی بم اور دیگر مختلف النوع اسلحہ .
 مسلم دوست یہ تو بہت ناقص لسٹ ہے ، ہمارے گھر میں تو دو اور بھی اسلحہ موجودتھا ۔ 
محقق کونسا ؟
 مسلم دوست : ٹینک اور بمباری کرنے والے طیارے ۔ تم پھر ہمارا مذاق اڑا رہے ہو ۔
 مسلم دوست : تمہارا مذاق تو ان لوگوں نے اڑایا ہے جنہوں نے یہ لسٹ تمہیں دی ہے ہمیں پشاور شہر میں اس قسم کے ہتھیاروں کی کیا ضرورت تھی ؟
 امریکیوں سے سوال و جواب کی جنگ
 مسلم دوست : پشتو زبان میں ایک ضرب اشل ہے کہ بارش تو تیراہ میں بری اور گدھیاں یار و موڑہ کی یہ گئیں ،
 عجیب بات تو یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان پرحملہ کیا ہوا ہے اور ہم نے ہتھیار پشاور میں اپنے گھر میں چھپا کر رکھے ہیں ۔ اس کے بعد اس نے مجھے چند تصاویر دکھائی ایک تصویر میں بڑے قلعے کی تصویر تھی اس میں بڑا گیٹ لگا ہوا تھا ، دیواروں پر کانٹا تار لگائی گئی تھی اور اس پر بجلی کی تاریں بچھائی گئی تھیں ، وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی جس پر ایک قیدی کو ہاتھ پاؤں اور بدن کے ہر جوڑ سے باندھا گیا تھا ۔
 مسلم دوست : میں نے اسے کہا یہ جگہ تو میں نے نہیں دیکھی ہے ۔

محقق :  مجھے معلوم ہے کہ تم نے نہیں دیکھی ہے لیکن بات یہ ہے کہ اگر تم نے کچھ نہ بتایا توتمہیں بھی اسی جگہ پربھیج دیا جائے گا یہ امریکہ میں بہت بری جیل ہے ، وہاں قیدیوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں ، اعتراف کرلوورنہ تمہیں بھی اسی جگہ بھیج دیں گے ۔ مسلم دوست : میں کس بات کا اعتراف کروں ؟ 
محقق : اس بات کا اعتراف کہ تمہارے گھر میں کتنا اسلحہ تھا اور کدھر گیا ؟ 
مسلم دوست جب مجھے بہت تنگ کیا گیا تو مجھے غصہ آیا اور کہا : گھر میں بھی میرے پاس دوقسم کے ہتھیار تھے اور یہاں بھی میرے پاس وہی ہتھیار ہیں ۔
محقق  کونسا ؟ ( بڑے تعجب سے پوچھا ) 
مسلم دوست میرے پاس ایک میزائل اور دو دستی بم ہیں جو اس وقت بھی میرے ساتھ ہیں ۔ ترجمان نے میری اس بات کا مقصد بتایا ، یہ سن کر بے ساختہ اس کے منہ سے قہقہہ بلند ہوا اور اتناہنسا کہ قریب تھا کرسی کے ساتھ پیچھے کی طرف گر جائے . وہ میرے غصے کو سمجھ گیا اور میری اس بات سے مذاق بنا لیا ، خیمے کے باہر ایک خاتون فوجی تھی اسے بلایا اور کہا کہ یہ قیدی یہ کہہ رہا ہے ۔ 
بے حیا خاتون سپاہی مجھے کچھ کہنے لگی ترجمان سوچ میں پڑ گیا ، اور پھر کہنے لگا کہ یہ خاتون فوجی کہ رہی ہے کہ اس میزائل سے میرے مورچے کا نشانہ بنالو میں خاموش ہو گیا اوراسے کچھ نہ کہا ۔ اگلے روز پھر پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس وقت تفتیش کر نے والا شخص کوئی اور تھا اور اس کا سلوک بھی ذرا نرم تھا ، وہ بہت نرم باتیں اور اچھا سلوک کرتا تھا امریکی تفتیش کاروں کی یہی روش تھی وہ کبھی نرمی اور کبھی سختی کرتے تھے ان کی انتہائی کوشش ہوتی کہ قیدی سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں ۔ اس نے گذشتہ روز کے تفتیش کار کے بارے میں کہا کہ اس نے تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں . پھر کہنے لگا کیاتم نے اپنے بھائی کے ساتھ ملاقات کی ہے ؟ 
جواب : نہیں
 سوال : یہ اتنا مشکل تو نہیں ؟ 
جواب : جو کچھ بھی ہے آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔
part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7   part 8

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی